مقبوضہ کشمیر کے صبرواستقامت کا انقلاب عوام

مقبوضہ کشمیر کے صبرواستقامت کا انقلاب عوام

انگریز غلامی سے نجات کے لیے تحریک آزادی کے ثمرات کے نتیجے میں برصغیر کی عوام کو اپنے مستقبل کے فیصلے کا حق ملا تو پاک بھارت ممالک کا وجود عمل میں آیا جس کے دوران کشمیر کی عوام قربانیوں کے باوجود منزل سے ہمکنار ہونیو الوں کے ساتھ شامل سفر نہ ہو سکے اور آگ و خون کی ندیاں بہہ جانے کے باوجود وعدوں کے بھنور میں پھنس کے رہ گئے۔یہ وعدہ اقوام عالم یعنی اقوام متحدہ کا تھا جس کے وفا ہونے کے انتظار میں کشمیری خون کا نذرانہ پانی کی سبیلوں کی طرح پیش کرتے ہوئے چراغ آزادی روشن رکھے ہوئے ہیں۔امریکہ سمیت اقوام کی جانب سے دیوار برلن گرانے والوں کو تیسویں سالگرہ کا جشن منانے پر مبارکبادیں پیش کی جارہی ہیں مگر 72سال سے دیوار برلن سے بدتر ریاست جموں وکشمیر پر کھینچی کنٹرول لائن بارود کے شعلوں سے کتنی انسانی جانوں کو نگلتی جارہی ہے یہاں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلا کر انسانیت کا فریضہ پورا کرنے میں انسانیت کے علمبرداروں کا کردار تشویش کے اظہار سے آگے نہیں بڑھتا ہے۔اس کے باوجود کے 72سالہ بھارتی طاقت کے ظلم و ستم کے دورانیہ میں گزشتہ 107دن سے جاری کرفیو میں وادی جموں و کشمیر کے عوام تمام تر انسانی حقوق سے محروم کرکے قیدی سے بدتر زندگی پر مجبور کردئیے گئے ہیں۔دس لاکھ مسلح فوج دو دلاکھ دہشت گرد آرایس ایس کو سول لبادے میں ساتھ رکھ کر آپریشن کے نام پر شہر شہر گاؤں گاؤں آبادیوں کو گھیر کر شکاری کے جال کا خاردار پنجرہ بنائے ہوئے ہیں۔کمیونیکیشن کا تمام نظام،موبائل فون سے سوشل میڈیا تک کے تمام ذرائع بند ہیں۔الیکٹرانک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک کا تصور محال کردیا گیا ہے۔یہاں تک کے ای میل چیک کرنے یا بیرونی دنیا رابطے کے لیے دلی جانے پر بھی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔کشمیریوں کے بیرون ملک سفر کو بھی ممنوع بنا دیا گیا ہے نہ صرف مزاحمتی قیادت چالیس ہزار سے زائد کارکنان انڈیا کی جیلوں میں لے جا کر پابند سلاسل کیے گئے ہیں بلکہ اب ساٹھ سے ستر سال تک کے بزرگ شہریوں،مرد خواتین بشمول نابالغ بچے بھی احتجاج کرنے پر غائب کردئیے جاتے ہیں جن کا کوئی شمار ہے نہ عدالتوں سے رجوع کرنے کا راستہ باقی چھوڑا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی جاسکے۔تجارت،سیاحت،سفر سمیت تمام تر انسانی سرگرمیوں کا ناطقہ بند ہے اپنے جگر گوشوں کو تلاش کے لیے گھروں سے باہر نکل کر احتجاج کرنیو الی ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کو بھارتی فوجی گھیرا ڈال کر گھسیٹتے ہیں ان کے آنچل تار تار کرتے ہیں تو آر ایس ایس کے دہشت گرد عزتیں پامال کرتے ہوئے دہشت کا کہرام مچاتے ہیں پرندے بھی اپنے ساتھی کے گم ہوجانے پر شور مچاتے،اکھٹے تلاش و بسیار کرتے ہیں اپنے بچے کی لاش ملنے پر اسے باعزت طور پر اٹھا کر لے جانے اور سپرد خاک کرنے تک چین نہیں لیتے ہیں،کتوں سمیت تمام جانور اپنے ہم جنس پر ظلم ہو تا دیکھ کر آملتے ہیں ایک دوسرے کی مدد کے لیے ظلم کرنے والوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں لیکن کشمیریوں سے پرندوں جانوروں تک جیسے احساسات کا اظہار کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے فولادی اعصاب و جسم والے بھی شل ہو جاتے ہیں مگر دنیا کا کوئی ایسا اعزاز،ایوارڈ،خطاب و لقب نہیں جو کشمیری عوام کو خراج تحسین کے لیے پیش کیا جائے اور ان کی جہد مسلسل کی استقامت،بہادری،قربانیوں کا حق ادا کرسکے،کشمیریوں نے جان جاتی ہے تو جائے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے کہ جذبے کو لاکھوں جانیں دے کر مقصد کی طاقت بنایا مگر اب جیل ہو کہ احتجاج کا میدان ہو زندگی کی سانس چلے نہ چلے آزادی کی تحریک نہیں رکنی چاہیے یہ قوت اپنی پر امن تحریک صبر و استقامت کے ناقابل بیان جذبہ ہمت سے جاری رکھ کر منوالی ہے۔انسانی تاریخ کے تمام تر مظالم کرتے ہوئے بھارتی حکومت اپنی دس لاکھ اذیت ناک اسلحے سے لیس فوج اس کے دو لاکھ آر ایس ایس کے دہشت گرد ناکام ہو چکے ہیں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کے پر امن حق کو حشرات الارض کی طرح فوجی پھیلا کر کرفیو سے روکنے کا پلان بازار،شاہرات سمیت سب کچھ سنسنان کرکے خاک میں ملادیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ بھارت اپنی ساری فوج لا کر سالوں بھی کرفیو لگائے رکھے کشمیریوں کو فتح نہیں کر سکتا ہے یہ وہ روڈ میپ ہے جو رب کی رضا کو مقصد بناتے ہوئے آزاد کشمیر کے عوام اندرون پاکستان بیرون ممالک کشمیری تارکین وطن،جماعتوں،نظریات،نعروں کو بھلاتے ہوئے یکجان ایک آواز ہو کر خود کو جہد مسلسل کی تحریک ثابت کریں اور طنز،طعنوں،تنقید شکوے،شکایات جیسے بزدلانہ بہادروں کے حوصلے پست کرنے والے طرز عمل کو چھوڑ کر ان کے حوصلے پر عملی دادِ تحسین کا فریضہ ادا کریں۔کم از کم یہ تو آپ کرسکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں خون خوار ہاتھیوں جیسی فوج کا ابابیل بن کر مقابلہ کرنے والے کشمیریوں کا ساتھ ان کی آواز میں آواز ملا کر دیں نہ کہ اپنی اپنی بولیاں بول کر اس ڈوبتے اناڑی کا کردار ادا کریں جو اپنے ساتھ بہترین تیراک کو بھی لے ڈوبتا ہے۔


 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 3 Articles with 2019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.