کیا پاکستان بھارت تنازعات باہمی طور پر قابل حل ہیں؟

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سینٹ اجلاس میں سینٹرز کے مختلف نکتہ ہائے اعتراض کے جواب میں کہا ہے کہ ”پاکستان بھارت تنازعات کے حل کا واحد راستہ مذاکرات ہیں،آپس کے مسائل دونوں ممالک مل بیٹھ کر ہی نکال سکتے ہیں کوئی تیسری قوت ان تنازعات کو حل نہیں کرا سکتی،کشمیر پاکستان کا ایشو ہے اور اس ایشو کے بغیر بھارت کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی۔“دریں اثناء دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ میں پاکستان بھارت امور سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ” دونوں ملک درپیش مسائل کا حل افہام وتفہیم اور مذاکرات کے ذریعے حل کر سکتے ہیں اور اس کے لئے کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں ہے۔“

بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تنازعات ان دونوں ملکوں پر ہی چھوڑ دیئے جائیں اور کوئی ملک ان تنازعات کے حوالے سے مداخلت نہ کرے۔دوسری طرف یہ حقیقت عیاں ہے کہ دونوں ملک63سال گزر جانے کے باوجود اب تک مسئلہ کشمیر سمیت کوئی بھی تنازعہ حل نہیں کر سکے ہیں بلکہ ان تنازعات سے متعلق بھارت کی زور زبردستی سے ان تنازعات کو بھارت کے حق میں غیر منصفانہ انداز میں ”طے“ کرنے کی صورتحال حاوی رہی ہے۔تا ہم بھارت گزشتہ63سال میں زور زبردستی اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔پاکستان کی یہ پالیسی رہی ہے کہ اقوام عالم،سلامتی کونسل کے مستقل ارکان دونوں ملکوں کے درمیان سنگین تنازعات کو پرامن اور منصفانہ طور پر حل کرانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تا کہ جنوبی ایشیا کو پر امن اور خوشحال خطہ بنایا جا سکے۔لیکن اب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزارت خارجہ نے بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لئے دو طرفہ مزاکرات کی بات کرتے ہوئے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو غیر ضروری قرار دیا ہے ۔دونوں ملکوں کی 63سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان اور بھارت آپس کے تنازعات باہمی طور پر حل نہیں کر سکے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت کئی ایسے سنگین مسائل ہیں جو خطے کے علاوہ عالمی صورتحال کے لئے بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں لہٰذا کئی اہم مسائل کو صرف پاکستان اور بھارت کا باہمی معاملہ قرار نہیں دیا جا سکتا،اس صورت بھی کہ جب متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ چین کے پاس ہے۔ کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان1947-48ءکی جنگ بیرونی مداخلت کے بغیر بند ہوئی تھی؟کیا سندھ طاس معاہدہ دونوں ملکوں نے ہی آپس میں طے کر کے کیا تھا؟کیا تاشقند اور شملہ معاہدے میں کسی اور ملک کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔کیا کارگل لڑائی میں امریکہ کی مداخلت سے ہی حالات کو بہتر نہیں بنایا گیا؟کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں ہے، کیا پاکستان بھارت کے درمیان کئی ادوار پر محیط اور بار بار تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات شروع کرانے میں کسی دیگر ملک کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا؟ سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے ایسے کون سے مثبت اشارے ملے ہیں کہ پیپلز پارٹی حکومت بھارت سے مذاکرات کرتے ہوئے باہمی طور پر ہی تنازعات کے حل کی امید لیئے مطمئن ہو گئی ہے؟ صرف باہمی طور پر ہی تنازعات حل کرنے کی اس پالیسی سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کئے جانے کے موقف سے دستبردار ہو گئی ہے۔

کشمیر امریکن کونسل کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے اجلاس میں اگزیکیٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام نبی فائی نے کہا ہے کہ کرکٹ ڈپلومیسی کی آڑ میں مسئلہ کشمیر کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا،کشمیر کی آزادی سے کم کسی مطالبہ پر سمجھوتہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ واشنگٹن میں کشمیر امریکن کونسل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سہ روزہ اجلاس کشمیر پالیسی کے حوالے سے اٹھارہ نکات پر مشتمل ایک قرار داد اتفاق رائے سے منظور کی اور اس بات کا عہد کیا کہ ان نکات کو رواں سال کے دوران اپنانے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں بین الاقوامی برادری نے کشمیریوں کو انکا حق دلانے کی جو یقین دہانی کی ہے اس پر عمل کیا جائے۔اقوام متحدہ کو کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرنا چاہئے۔امریکہ کے صدر بارک اوبامہ کی طرف سے 7نومبر2010کے اس بیان کا خیر مقدم کیا گیا جس میں انھوں نے کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک حل طلب مسئلہ قرار دیا تھا۔ بھارت پاک مذاکرات میں کشمیر کے حقیقی نمائیندوں کو شامل کیا جانا چاہئے۔ چونکہ گزشتہ 64سالوں کے دوران پاک بھارت مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کا حل نہیں نکالا گیا اس لئے امریکہ کو اس میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آگے آنا چاہئے۔ کرکٹ ڈپلومیسی سے بھارت اور پاکستان کے مابین صرف تعلقات استوار ہوسکتے ہیں لیکن کشمیر مسئلہ کو اس ڈپلومیسی کی ذریعے سے التوا میں نہیں ڈالا جاسکتا۔فوجی طاقت یا تشدد سے مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ جنگی ماحول اور پر تشدد واقعات سے پاک پر امن حالات قائم کرنے سے کامیاب مذاکرات ہوسکتے ہیں۔امریکہ یا صدر اوبامہ یا یورپین پارلیمنٹ کی طرف سے کشمیر پر ایک خصوصی سفیر تعینات کرنے ، بھارتی افواج کا دیہات اور قصبہ جات سے انخلا ، سیاسی قیدیوں کی رہائی،کالے قوانین کے خاتمے اور عوامی احتجاج کا حق دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے اس حوالے سے کہا ہے کہ بھارت ٹریڈ اور کلچر پر زور دیتا ہے لیکن بنیادی تنازعات کے حل کی بات نہیں کرتا۔ تنازعہ کشمیر پر پائیدار اور موثر پیش رفت ہونے تک پاکستان سے تعلقات کا فروغ بھارت کے حق میں تو بہتر ہوسکتا ہے لیکن کشمیریوں کے حق میں نہیں۔عمر فاروق نے کہا کہ پاکستان بھارت مذاکراتی عمل میں بین الاقوامی اور امریکہ کا دباﺅ موجود ہے۔ حریت کانفرنس کے دوسرے دھڑے کے سربراہ سید علی شاہ گیلانی نے کہا ہے کہ” دونوں ممالک کے حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ 64سال کی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ تنازعہ کشمیر دونوں ملکوں کی قیادتوں سے بہت بڑا ثابت ہوگیا ہے۔ دونوں ممالک میں کئی وزرائے اعظم آئے اور چلے گئے، لیکن کشمیر کا تنازعہ اپنی جگہ پر ہمالیہ سے بڑی حقیقت بن کر کھڑا ہے۔ یہ دونوں کے درمیان میں کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ یہ تیرہ ملین لوگوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے جس کا حتمی تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ جب تک یہ تنازعہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا، دونوں ممالک کے درمیان میں ہتھیاروں کی دوڑ ختم نہیں ہوسکتی ہے اور جب تک یہ دوڑ جاری ہے دونوں ممالک میں خوشحال، ترقی اور امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں ہے۔“

پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت پر مبنی انتظامیہ نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے صرف باہمی مذاکرات اور کسی تیسرے ملک کی عدم مداخلت کی جس پالیسی کا اظہار کیا ہے اسے کسی طور بھی حقیقت پسندی پر مبنی یا سابقہ تجربات کی روشنی میں درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔کشمیری حریت تنظیموں کی طرف سے اس پالیسی کی مخالفت سے واضح ہے کہ کشمیریوں میں حکومت پاکستان کی اس حکمت عملی کو پذیرائی حاصل نہیں ہے اور یہ کشمیریوں کے اس مطالبے کے بھی برعکس ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق مذاکرات میں کشمیریوں کو بھی شامل کیا جائے۔تعجب انگیز بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی پالیسی میں اس تبدیلی کا اپوزیشن سمیت کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا ،شاید آفات و حادثات کی طرح قومی پالیسی میں اس تبدیلی کو بھی قدرت کا لکھا سمجھ کر قبول کیا جا رہا ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698955 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More