لگتا ہے کہ پی پی پی کی قیادت نے
سوچ لیا ہے کہ آئندہ اس نے اِس ملک میں نہیں رہنا اور نہ ہی انتخابات میں
حصہ لینا ہے۔ ہم نے اس بات کا اندازہ پی پی پی کی موجودہ پالیسیز اور
بالخصوص حالیہ ذوالفقار بھٹو پھانسی کیس پر نظرثانی کی درخواست سے لگایا ہے۔
پی پی پی کی قیادت نے اپنے موجودہ دور حکومت میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں
دیا ہے۔ مہنگائی،بیروزگاری،کمزور خارجہ پالیسی، داخلی انتشار، بد امنی ،دہشت
گردی، ڈرون حملے، خود کش حملے پی پی پی کے دور میں بے انتہا بڑھ گئے ہیں
لیکن حکومت اور اپوزیشن سوائے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور پوائنٹ
اسکورنگ کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کر رہے ہیں۔ ایک تشویش ناک بات یہ
بھی سامنے آرہی ہے کہ پی پی پی دعویٰ تو ملک گیر جماعت ہونے کا کرتی لیکن
سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پورے ملک کے بجائے صرف سندھ میں ہڑتال کرائی
جاتی ہے۔ ’’پیپلز پارٹی سندھ نے چئیر مین نیب کی تقرری کالعدم قرار دینے کے
سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آج (جمعہ ) کو ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔پیپلز
پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری اور سندھ حکومت کے میڈیا کو آرڈی نیٹر تاج حیدر
نے پریس کانفرنس میں تاجروں اور ٹراسپورٹروں سے اپیل کی ہے کہ وہ آج اپنا
کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند رکھیں۔انہوں نے پارٹی تنظینوں کو ہدایت کی کہ وہ
پر امن مظاہرے کریں۔ روزنامہ جنگ کراچی جمعہ 11مارچ 2011) ذوالفقار مرزا
صاحب بھی جب ن لیگ پر گرجتے ہیں تو وہ بھی یہ یہی کہتے ہیں کہ ’’ پنجاب میں
پی پی پی پر وار ہوا تو کراچی سے کشمور تک ن لیگ کا ایک بھی دفتر نہیں
چھوڑیں گے ‘‘ ( 21فروری 2011 وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کا لیاری میں
جلسے سے خطاب) ۔جبکہ مرحوم بھٹو کی برسی کے موقع پر بھی پورے ملک میں عام
تعطیل کے بجائے صرف سندھ بھر میں عام تعطیل کی جاتی ہے۔یہ انتہائی خطرناک
بات ہے کیوں کہ اس طرح سے پیپلز پارٹی شعوری طور پر ملک میں لسانیت اور
عصبیت کی آگ کو بھڑکانے کی مذموم کوشش کررہی ہے اور ایسی کسی بھی کوشش کے
ملک و قوم کے اتحاد اور یکجہتی پر سنگین اثرات مرتب ہونگے اور عوام آپس میں
باہم دست و گریبان ہوسکتے ہیں۔
اس کے بعد بات کرتے ہیں بھٹو پھانسی نظر ثانی کیس کی درخواست پر! یہ فیصلہ
بھی بہت عجیب حالات اور غیر منطقی انداز میں کیا گیا ہے۔ غور کریں کہ پی پی
پی بتّیس سال پرانے بھٹو کے پھانسی کے کیس کو تو ری اوپن کرا رہی ہے لیکن
محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی رپورٹ کو داخل دفتر کردیا گیا اور اخباری
اطلاعات کے مطابق پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے بے نظیر قتل کسی
کی رپورٹ منظرِ عام پر نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔یادش بخیر27 دسمبر 2009 کو
پی پی پی کے شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے بی بی کی برسی
کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا ’’میں بے نظیر بھٹو کے
قاتلوں کو جانتا ہوں ‘‘ لیکن ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود انہوں نے
قوم کو قاتلوں کے نام پتے نہیں بتائے اور نہ ہی ان کی نشاندہی کی۔ گزشتہ
ماہ یعنی 25مارچ 2011کو وفاقی وزر داخلہ جناب رحمان ملک صاحب نے انکشاف کیا
کہ ’’محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش بے نقاب ہوگئی ہے اور تمام قاتلوں
کو گرفتار کرلیا گیا ‘‘ لیکن وفاقی وزیر موصوف نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی
فرمایا کہ ’’ پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی قیادت
کو اعتماد میں لیا جائے گا اور اگر کمیٹی نے فیصلہ کرلیا تو پھر عوام کو اس
سازش کے بارے میں حقائق سے آگاہ کیا جائے گا‘‘۔ گویا کہ اگر سینٹرل
ایگزیکٹیو کیمٹی نے اس کی اجازت نہیں دی تو پھر عوام کو اس بارے میں کچھ
نہیں بتایا جائے گا کہ قاتل کون ہیں؟ قتل کیوں ہوا؟ کون کون اس سازش میں
شریک تھا ؟ اور اس کے مقاصد کیا تھے؟ اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ پی پی کی
سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی قانون اور آئین سے زیادہ طاقتور ہے کہ وہ ایک بین
الاقوامی شخصیت ،ایک قومی لیڈر کے قاتلوں کی گرفتاری کو ظاہر کرنے کی اجازت
نہیں دیتی ، جو قاتلوں کو تحفظ دیتی ہے۔سوچیں کہ کیا بے نظیر کا قتل صرف پی
پی پی کا مسئلہ ہے یا ایک قومی معاملہ ہے؟ کہاں تو بے نظیر بھٹو کے قاتلوں
کی گرفتاری کے لئے اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیمیں بلائی جارہی
تھیں اور کہاں یہ بے نیازی کہ قاتلوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کر کے یہ
بتایا جا رہا ہے کہ اگر سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی فیصلہ کرے گی تو بی بی قتل
سازش کیس کے کرداروں کو قوم کے سامنے لایا جائے گا ورنہ قوم اس بارے میں
اندھیرے میں ہی رہے گی۔بات یہ ہے کہ نہ انہوں نے بینظیر کے قاتلوں کو
گرفتار کرنا ہے اور نہ ہی ان کو مرحوم بھٹو سے کوئی محبت و عقیدت ہے ۔ بھٹو
پھانسی کیس ری اوپن کرنے کا مقصد اپنے اوپر سے دباؤ کم کرنا اور قوم کی
توجہ اصل مسائل سے ہٹانا ہے۔
ادھر کراچی کا معاملہ بھی عجیب ہوتا جارہا ہے بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ
کوئی گھمبیر یا الجھا ہوا مسئلہ ہے جو حل نہیں ہو پا رہا ہے لیکن اصل بات
یہ ہے کہ یہ سارا بھتے اور حصہ کا جھگڑا ہے۔آئے روز کی بھتہ خوری اور
پرچیوں کے خلاف کراچی کے تاجروں نے ہڑتال کا اعلان کیا لیکن ! لیکن یہاں
تاجروں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا اور متحدہ نے اس ہڑتال کو ہائی جیک کرلیا۔ اور
پھر یہ ہوا کہ تاجروں کے ایک حصے نے ہڑتال موخر کر کے حکومت کو معاملات کے
سدھار کے لئے دس دن کی مہلت دینے کا اعلان کیا لیکن متحدہ نے ہڑتال کے حامی
دھڑے کی حمایت کی اور ہڑتال کی توثیق کردی ۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ راتوں رات
دکان داروں کو دھمکیاں دیدی گئیں کہ صبح دکان نہیں کھلنی چاہئے اور اس طرح
ہڑتال کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی وضع کرلی گئی۔ صبح کافی مارکیٹیں کھل
گئیں لیکن ان کو متحدہ کے کارکنوں نے زبردستی بند کرایا ،نرسری کی فرنیچر
مارکیٹ اور اسے متصل مارکیٹ کو دوپہر کو زبردستی بند کرایا گیا اور اس طرح
اس ہڑتال کو کامیاب کرایا گیا۔بعد ازاں جب تاجروں نے پولوں گراؤنڈ میں
احتجاجی مظاہرہ کیا تو وہاں تاجروں کے دونوں دھڑوں میں تصادم ہوگیا اور
نوبت ہاتھا پائی اور مار کٹائی تک جا پہنچی۔ کئی واقفان حال کا کہنا ہے کہ
پولو گراؤنڈ میں ہنگامہ آرائی میں متحدہ کے کارکنان ملوث تھے اور انہوں نے
ہی ہڑتال مخالف دھڑے یعنی قاسم تیلی گروپ کے مظاہرے کو سبوتاژ کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے اس سارے معاملہ میں اتنی
دلچسپی کیوں لی؟ نہ صرف یہ کہ ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا بلکہ عملی طور
پر تمام مرکزی مارکیٹوں کو بند کرایا ۔اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے جیسا کہ ہم
نے پہلے عرض کیا تھا یہ سارا حصہ کا جھگڑا ہے تو بات یہ ہے کہ پہلے کراچی
میں صرف ایک بھتہ مافیا تھی یعنی متحدہ قومی موومنٹ،جب اس نے بھتہ خوری کی
ابتدا کی تو تاجروں نے خاموشی کے ساتھ بھتہ دینا شروع کردیا۔ اگر کسی سر
پھرے نے مزاحمت کی کوشش کی تو اس کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا،جس کے بعد
کراچی کے دکان داروں اور تاجروں نے اس بھتہ خوری کو بحالتِ مجبوری قبول
کرلیا۔ لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ متحدہ کے ساتھ ساتھ کئی اور گروپ میں بھتہ
خوری کر رہے ہیں اور تاجروں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم کس کس کو بھتہ
دیں،کئی علاقوں میں اے این پی بھتہ خوری میں ملوث ہے، کئی علاقوں میں امن
کمیٹی بھتہ خوری کر رہی ہے اور کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سنی تحریک بھتہ
خوری میں ملوث ہے۔ جب تک یہ سارے لوگ اپنے اپنے ایریاز تک محدود تھے اس وقت
تک کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اب ایک دوسرے کے علاقوں میں بھتہ کی پرچیاں دی
جارہی ہے ۔ اس ساری صورتحال کے باعث آئے روز شہر میں ہنگامے اور ٹارگٹ کلنگ
کے واقعات ہورہے ہیں ۔ایم کیو ایم کا مسئلہ یہ ہے کہ اب اس کا حصہ کم ہوتا
جارہا ہے اس لئے وہ امن کمیٹی وغیرہ کا واویلہ مچا کر ان کو راستے سے ہٹانے
کی کوشش کر رہی ہے اور اس ہڑتال کے ذریعے بھی اس نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی
کوشش کی ہے۔
سنی تحریک کے نام پر شائد بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی ہوگی لیکن یہ حقیقت ہے
کہ رنچھوڑ لائن،بولٹن مارکیٹ،گودھرا کیمپ وغیرہ میں بھتہ خوری میں ملوث ہے
۔اب تاجر اس ساری صورتحال سے بے حد پریشان ہیں کہ ہم کس کو بھتہ دیں اور کس
کو انکار کریں؟ ایک کو دیتے ہیں تو دوسرا مارتا ہے،اور پھر آئے دن ان لوگوں
کے آپس کے جھگڑوں اور ٹارگٹ کلنگ کے بعد کبھی ایک گروپ ہڑتال کر کے
مارکیٹیں بند کراتا ہے تو کبھی کوئی دوسرا گروپ مارکیٹیں بند کراتا ہے۔ ان
سب لوگوں کو بھتہ دیکر خوش کریں تو بھی جان نہیں چھوٹتی کہ پولیس اہلکار
بھی حصہ بقدر جثہ کے مصداق ان سے کچھ نہ کچھ رقم لیتے ہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ
گربہ کشتن روز اول ہم سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال کی ذمہ داری ایک حد تک خود
ان تاجروں اور دکان داروں اور انکے نمائندوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ اگر یہ
دو دہائیاں قبل ایم کیو ایم کی بھتہ خوری کے خلاف متحد ہوجاتے اور اس کا
سدِ باب کرلیتے تو یہ صورتحال نہ ہوتی اور ایم کیو ایم کے بعد دوسری
تنظیموں کو بھی بھتہ خوری کی ہمت نہ ہوتی لیکن اس وقت لوگوں نے ڈر ،خوف،اور
مصلحت کے تحت ایم کیو ایم کی بھتہ خوری کو برداشت کیا اس دوسرے گروپ میں
اپنا حصہ لینے آگئے ہیں ۔ اور یہ اسی وقت ختم ہوگی جب تمام دکان
دار،تاجر،ٹرانسپورٹر،عوام متحد ہوجائیں اور ان دہشت گردوں اور بھتہ خوروں
کے خلاف ڈٹ جائیں اور ان کے سرپرستوں کو اسمبلیوں میں نہ بھیجیں تو ہی کچھ
ہوسکتا ہے ورنہ یہی صورتحال قائم رہے گی۔ |