ٹماٹر تو غریب اور متوسط پاکستانی طبقہ کی پہنچ سے ایسے
باہر ہوا ہے جیسے نواز شریف موجودہ حکومت کی پہنچ سے۔ کوئی بیچارہ بھولا
بھٹکا پاکستانی ٹماٹر مانگ بھی لے تو ٹماٹر کی قیمت اس قدر غضبناک ہو کر اس
بیچارے کو منہ چڑاتی ہے کہ وہ دوبارہ ٹماٹر کے بارے سوچتا بھی نہیں۔ ہنڈیا
میں ٹماٹر ڈالے تو ایک عرصہ ہوا، اب تو بیچاری ہنڈیا ٹماٹر کا ذائقہ بھی
بھول چکی ہے۔ خواتین خانہ داری جب کبھی سبزی کی لسٹ بناتی تھیں تو سب سے ہٹ
لسٹ پر ٹماٹر کو رکھا جاتا تھا، اور اب اس لسٹ میں کہیں دور دور تک بھی
ٹماٹر کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی کوئی
امید نظر آتی ہے۔
پچھلے دنوں مشیر خزانہ نے بیان دیا کہ ٹماٹر 17 روپے کلو ہیں، تو ہم نے
فوراََ بٹوے سے 170 روپے نکالے اور سبزی کی دکان پر پہنچ کر دس کلو ٹماٹر
تولنے کا حکم جاری کیا ۔سبزی فروش نے دس کلو ٹماٹر تول کر ہماری طرف ایسے
مشکوک نگاہوں سے دیکھا جیسے کسی چور کو پولیس والے مشکوک نظروں سے دیکھتے
ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو سب کو مرعوب نگاہوں سے اپنی طرف متوجہ پایا
جیسے میں بہت بڑا سرکاری افسر یا بہت امیر آدمی ہوں، اور یہ مجھے دیکھ کر
اس قدر مرعوب ہو رہے ہیں۔ سبزی فروش نے دو بڑے بڑے شاپروں میں ٹماٹر ڈال کر
مجھے دیے تو میں نے جیب سے پورے 170 پر نکال کر سبزی فروش کو تھما دیے، اور
میں چل پڑا۔ سبزی فروش نے پیچھے سے زور سے مجھے آواز دی اور بولا کہ بھائی
تمہارا دماغی توازن تو درست ہے؟ دس کلو ٹماٹر00 34روپے کے بنتے ہیں اور 170
کے صرف آدھا کلو ٹماٹر آتے ہیں۔اور تم مجھے 170 روپے دے کر دس کلو ٹماٹر لے
کر جا رہے ہو۔ میں نے اس سبزی فروش کو بڑے رعب سے کہا کہ حفیظ شیخ صاحب تو
سترہ روپے کلو بتا رہے ہیں ،آپ اتنے مہنگے داموں کیوں بیچ رہے ہیں۔ تو اس
نے جواب دیا کہ کون حفیظ شیخ؟ ان(حفیظ شیخ) صاحب نے آپ سے مذاق کیا ہوگا
۔آپ کو اُلو بنایا ہوگا اور آپ اُلو بن گئے۔ اب کی بار میں نے دیکھا کہ سب
اردگرد کے لوگ جو مجھ سے مرعوب ہورہے تھے وہ سب اب مجھ پر ہنس رہے ہیں۔ تو
میں نے اپنے پیسے واپس لے کر نکلنے میں ہی عافیت جانی ،کے بھائی یہ تو حفیظ
شیخ صاحب مشیرخزانہ کوہی کچھ نہیں جانتا تو میں کیا چیز ہو ں۔اس دن سے اب
ٹماٹر کو ریڑھی پر یا دوکان پر پڑا دیکھ کر حسرت کی نگاہ ڈال کر ہی نکل
جاتے ہیں،اور اپنی جیب پر بوجھ نہیں ڈالتے۔
ہمارے منہ میں تو تب پانی کا دریا اُمڈ آیا جب ہم نے لاہور کے علاقہ اچھرا
میں موصوف احمد سلمان کو ایک ٹماٹروں کے لکی ڈرا میں ٹماٹر تقسیم کرتے
دیکھا۔ مجھے اپنے ٹماٹر حاصل کرنے کے چانس کو مس کرنے کا افسوس تو بہت ہوا،
اور ساتھ ہی ٹماٹروں کی ٹرے بطورانعام جیتنے پر خواتین اور حضرات پر رشک
بھی ہوا، گویا وہ دنیا جہان کی سب سے انوکھی اور بہترین چیز جیت کر لے گئے۔
جی ہاں! حضرات و خواتین لاہور کے علاقہ اچھرا میں ایک انوکھا لکی ڈرا ہوا۔
جس میں خواتین اور حضرات کی کثیر تعداد شریک تھی، ڈرامیں انٹری کے لیے شرط
یہ تھی کے دوچار نعرے موجودہ ٹماٹر مہنگائی کے خلاف لگائے جائیں اور اپنا
احتجاج ریکارڈ کروایا جائے۔ اس کے بعد آپ اس مقابلہ میں حصہ لینے کے اہل
تھے ۔اس مقابلہ میں حصہ لینے والے کا نام ایک پرچی پر لکھ کر ایک بکس میں
ڈال دیا گیا اور پھر ایک ایک کرکے تمام لکی ونر زکی پرچیوں کو نکالا گیا۔
اور پھر جیتنے والے لکی ونرزمیں ٹماٹروں کی ایک ایک ٹرے تقسیم کی گئی۔ جسے
حاصل کرکے لوگ پھولے نا سما رہے تھے۔اور ایسا محسوس کررہے تھے جیسا کہ کوہ
نور ہیرا جیت لیا ہو۔
اس مقابلے کو لاہور کی مقامی سماجی و سیاسی شخصیت احمد سلمان بلوچ نے منعقد
کروایا تھا۔ اس مقابلے کی اہمیت و دلچسپی لوگوں میں تب بڑھی جب لوگوں نے
خاص کر خواتین نے ٹماٹر کا نام سنا۔ لوگوں نے بڑے وثوق سے جوق در جوق اس
مقابلے میں حصہ لیا ،اور تماشائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد مقابلہ دیکھنے کے
لیے موجود تھی۔ تمام لوگوں نے اس مقابلے کو دل کھول کر انجوائے کیا اور
ساتھ ساتھ دل کھول کر حکومت کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ ٹماٹروں کی
ٹرے جیتنے والے انتہائی خوش دکھائی دیے ،جبکہ ہارنے والوں نے بھی کھیل کو
خوب انجوائے کیا اور اس مقابلہ سے خوب لطف اندوز ہوئے ۔ یہ درحقیقت مہنگائی
کے خلاف احتجاج کا انوکھا طریقہ تھا، جسے مقامی سیاسی و سماجی رہنما نے
منعقد کروایا اور لوگوں نے بھی اس میں بھرپور شرکت کی۔جو شرکت نہ کر سکا وہ
بیچارہ پچھتا تو ضرور رہا ہوگا، اور ساتھ ساتھ اُسے ٹماٹر جیسی نعمت سے
محرومی بھی برداشت کرنا پڑ رہی ہوگی۔کیونکہ یہ ایک سنہری موقع تھا ہنڈیا کو
چار چاند لگانے کا۔
موصوف مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا پچھلے دنوں بیان یا تو ان کی ملکی صورتحال سے
کم علمی ہے ،یا پھر انہوں نے ملکی متوسط وغریب باشندوں کا مذاق اڑایا ہے۔
ٹماٹر بازاروں میں 300 سے 350روپے کلو بک رہے ہیں ،اور مشیر خزانہ صاحب
سترہ روپے کلو بتا رہے تھے۔ صرف یہیں بس نہیں اس کے بعد موصوفہ مشیر
اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے تو مٹروں کو بھی پانچ روپے کلو قرار دے دیا
۔اب یا تو یہ موجودہ صورتحال میں پریشان اور پسی ہوئی پاکستانی عوام کو
ہنسانے کا ایک بہانہ ہے، اور چٹکلہ سنا کر عوام کی پریشانی دور کرنے کا ایک
جگاڑ ہے۔ یا پھر کم علمی کی بہترین مثال ہے۔ اور اگر دونوں وجہ نہیں ہیں تو
پھر شاید عوام الناس کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔
ایک ویسے منصوبہ ذہن میں آ رہا تھا کہ اگر حکومت سستے داموں سبزی کی ایک
بڑی سی دکان کھولے تو یقینا بہت سارا پیسہ کما سکتی ہے۔ اور ملکی خزانے پر
بہت بڑا احسان بھی کر سکتی ہے۔ معاشی واقتصادی صورتحال تو پہلے ہی بہت خراب
ہے اس ملک کی شاید اس سے حکومت اور عوام دونوں کو کچھ ریلیف مل سکے۔
|