معروف شاعرہ پروین شاکر نے 24 نومبر 1952 میں کراچی میں
جنم لیا اور 42 سال کی عمر میں اسلامم آباد میں روڈ ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں
26 دسمبر 1994 میں داعی اجل کو لبیک کہا۔، "ماہ تمام"، خوشبو، صد برگ، خود
کلامی اور انکار کا مجموعہ ہے۔ ان کے کالموں کا مجموعی بعنوان"گوشہ چشم" ،
آپ بیتی ماہ پارہ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔
پروین کو شاعری ورثہ میں ملی، اس کے خاندان میں کئی معروف شعرا ہوئے۔ ابتدا
میں پروین نے بینا کے قلمی نام سے شاعری کی۔ وہ ماہ پارہ بھی کہلائیں۔
معروف شاعر ادیب احمد ندیم قاسمی سے پروین شاکر کو خاص نسبت تھی وہ پروین
کے استادوں اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں سے تھے۔ پروین ذہین اور
شعری ذوق رکھتی تھی اس نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹر کیس، شروع
میں کراچی کے ایک کالج میں استاد بھی رہئ سی ایس ایس کرنے کے بعد کسٹم کی
ملازمت اختیار کی،اس کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہ رہی، شوہر سے علیحدگی
ہوگی، اس کی شاعری میں اس کا بھی بہت دخل رہا، خوشبو کے ساتھ تھ دکھ درد غم
و الم اس کی شاعری استعارہ ہے۔ محبت کو اس نے اپنی شاعری کی بنیاد کہا ہے۔
ہروین کو جدا ہوئے سالوں گزر گئے لیکن وہ آج بھی ہماری شاعری میں زندہ ہے
اور زندہ رہے گی۔
پروین کی قبر پر جو کتبہ نصب ہے اس پر یہ شعر درج ہیں ۔
مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں گے
۔۔۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
۔۔۔۔
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
۔۔۔۔۔
ہم تو سمجھے تھے اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جان میں اتر جائے گا
۔۔۔۔
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
۔۔۔۔۔۔
کوبہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
(24 نومبر2019ء)
|