کسی شب… ایک ہی تکیے پر ہم کوئی سہانا خواب دیکھیں گے

یہ مصرعہ محض ایک رومانی خیال نہیں بلکہ اردو شاعری کی اس روایت سے جڑا ہوا ہے جس میں خواب کو محبت، سکون، وصال اور انسانی رشتوں کی مضبوطی کی علامت سمجھا گیا ہے۔

ادب و شعر میں خواب اور محبت کی تمثیل ہمیشہ سے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی خواہشات، امیدوں اور محبتوں کو خوابوں کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ "کسی شب ایک ہی تکیے پر ہم کوئی سہانا خواب دیکھیں گے" ایک ایسا مصرع ہے جو خواب و حقیقت، محبت و انتظار اور رومان و امید کے حسین امتزاج کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں نہ صرف محبت کی لطافت جھلکتی ہے بلکہ زندگی کی تلخیوں میں سکون کے متلاشی دل کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔ خواب دیکھنا اور کسی کے ساتھ خواب بانٹنا دراصل انسانی رشتوں کی قربت اور اعتماد کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری اور نثر میں خوابوں کا استعارہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

اردو ادب میں خواب کو ہمیشہ رومانی اور علامتی پیرائے میں پیش کیا گیا۔ میر تقی میر اور غالب کے ہاں خواب ہجر و وصال کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا، جب کہ اقبال نے خواب کو مستقبل کی تعمیر اور بیداری کی علامت بنایا۔ اقبال کے نزدیک خواب کوئی لاحاصل خیال نہیں بلکہ ایک ولولہ اور مقصد کی جستجو کا نام ہے۔ اس کے برعکس رومانوی شاعری میں خواب محبوب کے لمس، قربت اور وصل کے استعارے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہی کیفیت اس مصرعے میں بھی نمایاں ہے کہ جہاں "ایک ہی تکیے" کی ترکیب قربت اور محبت کی گہرائی کی عکاسی کرتی ہے اور "سہانا خواب" محبت کی تکمیل اور خوشی کی علامت بن جاتا ہے۔

سماجی اور ثقافتی تناظر میں بھی خواب اور محبت لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستانی ثقافت میں خواب صرف ایک فرد کی خواہش نہیں ہوتے بلکہ عموماً خاندان اور معاشرتی اقدار سے جڑے ہوتے ہیں۔ کسی جوڑے کا خواب دیکھنا دراصل مستقبل کی زندگی کے منصوبوں کو ایک ساتھ تعمیر کرنے کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شعری ورثے میں خواب ہمیشہ محبت، امید اور زندگی کی خوبصورتی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔

اگر ہم اس موضوع کو فلسفیانہ انداز میں دیکھیں تو خواب محض نیند کے دوران آنے والے خیالات نہیں بلکہ انسانی شعور کی گہرائیوں سے ابھرنے والی تمناؤں کا عکس ہیں۔ یونانی فلسفی ارسطو نے خواب کو انسانی ذہن کی "تخلیقی پرواز" قرار دیا، جب کہ صوفیانہ روایت میں خواب حقیقت کی ایک اور جہت سمجھے گئے۔ صوفی شعرا خواب کو روحانی سفر اور حقائق تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب شاعر کہتا ہے "کسی شب ایک ہی تکیے پر ہم کوئی سہانا خواب دیکھیں گے" تو یہ صرف ایک رومانوی اظہار نہیں رہتا بلکہ اس میں روحانی اور فکری گہرائی بھی شامل ہو جاتی ہے۔

ادب کے نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق اردو شاعری میں "خواب" ایک کثیرالمعنی استعارہ ہے جو وقت، محبت اور زندگی کی کشمکش کے بیچ روشنی کی کرن دکھاتا ہے۔ یہی پہلو اس مصرع کو زیادہ دلکش اور معنی خیز بناتا ہے۔ خواب دراصل وہ دنیا ہے جہاں سب کچھ ممکن ہے، جہاں محبت اپنی انتہا کو چھوتی ہے اور جہاں انسان اپنی خواہشات کی تکمیل دیکھتا ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مصرعہ محض ایک رومانی خیال نہیں بلکہ اردو شاعری کی اس روایت سے جڑا ہوا ہے جس میں خواب کو محبت، سکون، وصال اور انسانی رشتوں کی مضبوطی کی علامت سمجھا گیا ہے۔ اس میں ہمارے تہذیبی و ثقافتی رویے بھی جھلکتے ہیں اور انسانی دل کی ازلی خواہش بھی کہ کوئی ایسا لمحہ آئے جب محبت اور خواب ایک ساتھ تعبیر پائیں۔
 
Asif Saleem
About the Author: Asif Saleem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.