علی گڑھ تہذیب کی نما ئندہ شخصیت۔ ڈاکٹر جمیل جالبی
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
علی گڑھ تہذیب کی نما ئندہ شخصیت۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی (پروفیسر ایمریٹس، منہاج یونیورسٹی، لاہور) ڈاکٹر جمیل جالبی کو بلاشبہ علی گڑھ تہذیب کی نمائندہ شخصیت کہنا غلط نہ ہوگا۔ علی گڑھ کو اس اعتبار سے خصو صیت حاصل ہے کہ اس کی کوکھ سے بے شمار اردو زبان و ادب کی تحریکیں اورقد آور شاعروں اور نثر نگاروں نے جنم لیا۔ سر سید احمد خان جیسی بلند و بالا شخصیت کی عملی جدوجہد کے نتیجے میں اردو زبان و ادب کو وسعت ملی،علی گڑھ تحریک سرسید تحریک بھی کہلائی۔ اس کی وجہ سرسید کی علم و ادب کی ترقی کے لیے مثالی کاوشیں تھیں۔ یوں تو بے شمار شخصیات کے نام گنوائے جاسکتے ہیں ان میں سے ایک ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم بھی ہیں جنہوں نے 12جون 1929ء کوہندوستان کی ریاست یوپی کے معروف شہر علی گڑھ میں جنم لیا اور علی گڑھ اور پھر کراچی میں بھر پورزندگی گزار کر 18اپریل 2019ء کو89 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔کراچی کی سرزمین ان کی آخری آرام گاہ بنی۔ان کا تعلق علی گڑھ کے یوسف زئی خاندان سے تھا۔ انہوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول سہارن پور سے میٹرک، 1945ء میں میرٹھ کالج سے ایف اے اور میرٹھ کالج سے ہی بی اے کیا۔گویا ان کی تربیت علی گڑھ کے علمی و ادبی ماحول میں ہوئی، انہوں نے علی گڑھ کی تہذیب کوبغور دیکھا، مشاہدہ کیا اس کے اثرات ان کی شخصیت کے ظاہری حسن سے بھی نمایاں تھی۔ان کا رہن سہن، گفت و شنید، تحریر و تقریر میں علی گڑھ کا حسن نمایاں تھا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی بلاشبہ ذہین اور اردو زبان و ادب کی ایک کثیر الجہت شخصیت تھی، ان کا رجھان شروع ہی سے پڑھنے لکھنے کی جانب تھا۔ پاکستان کا قیام عمل میں آیا توانہوں نے پاکستان کی سرزمین کا انتخاب کیا اور علی گڑھ سے پاکستان ہجرت کی اور کراچی شہر کو اپنامسکن بنایا۔ ٰٓڈاکٹر جالبی نے ایک استاد کی حیثیت سے پاکستان میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، انہوں نے 1950-1953ء تک کراچی کے ایک اسکول بہادر یار جنگ ہائی اسکول کے صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ساتھ ہی تعلیم کے حصول کا سلسلہ بھی جاری رکھا 1949ء میں سندھ یونیورسٹی کراچی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کے علاوہ قانون کی ڈگری حاصل کی بعد از ں ایم اے اردوکی سندھ بھی سندھ یونیورسٹی سے حاصل کی، یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ یونیورسٹی کراچی میں ہوا کرتی تھی۔جامعہ سندھ سے 1971 ء میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی،ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا ’قدیم اردو ادب کا تحقیقی مطالعہ‘ اس کے بعدڈی لٹ کی سند جامعہ سندھ سے ہی 1973 ء میں حاصل کی، اسی دوران سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان کی سول سروس میں شامل ہوگئے اور انکم ٹیکس کمشنر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ فارغ ہونے کے بعد ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں جامعہ کراچی کا وائس چانسلر مقررکردیا گیا وہ 1983-1987ء تک شیخ الجامعہ رہے۔ انہوں نے اس عہدہ کو بہت ہی خوش اسلوبی اور مہارت سے نبھایا۔ ڈاکٹر جالبی نے ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو اردوزبان و ادب سے جوڑے رکھا اور قلم قرطاس کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا انہوں نے اپنی ہمہ دانی، صلاحیتِ فکر، دانشوری، تخلیقی فکر، تصنیفی و تالیفی آگہی سے تحریر و فن کی دنیا کو روشن کیے رکھا۔ وہ ایک خوش فکر ادیب، خوش بیان مقرر،، محقق، بہترین منتظم، نقاد، ادبی مورخ، مترجم، لغت نویس، تہذیب و تمدن سے خوب واقف، مدیر، بچوں کے ادب کے تخلیق کار کے طور پر دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ شیخ الجامعہ کی حیثیت سے سبکدوش ہونے کے بعد 17نومبر 1987ء کو مقدرہ قومی زبان جو اب ادارہ فروغ قومی زبان ہے کے صدر نشیں مقرر ہوئے، اور صدر اردو لغت بورڈ بھی رہے۔ ان کا حقیقی نام محمد جمیل خان تھالیکن وہ جمیل جالبی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ’جالبی‘ ان کا تخلص تو نہیں تھا لیکن نام کا لازمی حصہ بن گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے ایک عزیز سے بہت متاثر تھے انہیں اپنا آئیڈیل تصور کیا کرتے تھے ا ن کا نام سید جالب دہلوی تھا۔ جالبی صاحب نے اپنے نام جمیل کے ساتھ کشش کھاتانام’جالبی‘ کا لاحقہ لگالیااور اس کے بعد وہ محمد جمیل خان سے ’جمیل جالبی‘ ایسے بنے کے دنیا انہیں جمیل جالبی کے نام سے ہی جانتی ہے۔ادب میں ایسا اکثر ہوتا ہے اور ایسی متعدد مثالیں ملتی بھی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا نام فرمان نہیں تھا بلکہ ان کے کسی خاص دوست کا نام فرمان تھا، انہیں اپنے اس دوست سے اس قدر انسیت تھی کہ انہوں اس دوست کا نام اختیار کر لیا۔ ان کا حقیقی نام’سید دلدار علی‘ تھا، دوست کی محبت میں وہ ’فرمان‘ بن گئے اورفتح پور سے ان کا خاندانی تعلق تھا، فرمان صاحب بھارت کی ریاست اتر پردیس میں فتح پور میں پیدا ہوئے تھے۔ چناچہ وہ فرمان فتح پوری ہوگئے اور ایسے مشہور ہوئے کہ اردو داں طبقہ انہیں فرمان فتح پوری کے نام سے ہی یاد کرتا ہے۔ شاعر تو بے شمار ایسے ہیں جو اپنے تخلص سے ہی پہچانے جاتے ہیں، لوگ ان کے حقیقی نام سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ جیسے جوشؔ ملیح آبادی،اپنے تخلص جوشؔ سے معروف ہیں ان کا حقیقی نام شبیر حسن خان تھااس نام سے کم لوگ ہی واقف ہوں گے۔ اسی طرح بیخود بدیونی کا نام مولوی عبد الئحیم داغؔ دہلوی کا نام نواب مرزا داغ تھا، اکبر الہ آبادی کا نام سید اکبر حسین تھا، سائل دہلوی کا نام نواب سراج الدین احمد خان تھا، حسرت موہانی کا نام سید فضل الحسین تھا، ناطق لکھنوی کا نام ابو العلا حکیم سید سعید احمد تھا، فانی بدایونی کا نام شوکت علی خان تھا، سیماب اکبر آبادی کا نام عاشق حسین تھا، جگر مراد آبادی کا نام علی سکندر تھا، فراق گورکھپوری کا نام رگھو پتی سہائے تھاالغرض اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں۔ شاعر اپنے حقیقی نام کے بجائے تخلص سے مشہور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے شیخ الجامعہ کے دور میں جامعہ کراچی میں اکثر جانا ہوتا۔ جالبی صاحب مختلف معاملات میں بے پناہ مصروف رہتے، انتظامی امور کی مصروفیت ساتھ ہی لکھنے پڑھنے کی مصروفیت، اساتذہ سے میل ملاقات، طلبہ کے مسائل، کانفرنسیز، سیمینار اور سرکاری میٹنگز میں شرکت الغرض جتنا بڑا عہدہ تھا اتنی ہی مصروفیات بھی تھیں لیکن ان تمام مصروفیات کے انبار کے باوجود وہ علم و ادب کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اتنی اہمیت اور وقت دیا کرتے تھے۔ اسی دوران میری ایک کتاب ”کتابیات طب وصحت“شائع ہوئی۔ وہ کتاب میں نے بذریعہ ڈاک ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کوآداب و القاب کے ساتھ بھیج دی، خیال یہ تھا کہ یہ کتاب اس طرح ان کے ذاتی ذخیرہ میں یا جامعہ کراچی کے کتب خانے میں پہنچ جائے گی۔ اس بات کی امید کم تھی کہ جالبی صاحب کی جانب سے تحریری رسید موصول ہوگی۔ چند دنوں بعد ڈاکٹر صاحب موصوف کی جانب سے اپنے نام خط پا کر دل باغ باغ ہوگیا۔ خط میں لکھاتھا، یہ خط وفاقی اردو یونیورسٹی، گلشن اقبال کی مولوی عبدالحق لائبریری میں میرے گوشہ کتب میں موجود خطوط کی ایک فائل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ آپ نے لکھا’آپ کی ”کتا بیات طب و صحت“ کا ایک نسخہ مو صول ہوا جس کے لیے شکر گزار ہوں۔ آپ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ نے محنت سے، یہ بکھرا ہوا مواد سلیقے سے جمع کر کے تر تیب دیا ہے“۔اس موقع پر مجھے حکیم محمد سعید شہید بھی یاد آگئے وہ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت دیا کرتے تھے۔ ان کے کتب خانے میں لاکھوں کتابیں ایسی ہیں جن کے صفحہ عنوان پر حکیم صاحب کے دستخط ہوں گے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا کہ میری ایک کتاب ’ابتدائی لائبریری سائنس‘ شائع ہوئی میں وہ کتاب لے کر حکیم صاحب کے مرکز جو اس وقت ناظم آباد میں تھا چلا گیا۔ حکیم صاحب کے آفس کے باہر موجودکارکن سے کہا کہ میں یہ کتاب حکیم صاحب کو پیش کرنا چاہتا ہوں، اس نے اندر جاکر حکیم صاحب سے میری بات دہرائی، باہر آکر اس نے مجھے اندر جانے کا کہا، حکیم صاحب اپنی میز کرسی پر سفید لباس میں ملبوس تشریف فرما تھے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھا اور کتاب مجھ سے لی ساتھ ہی مجھے بیٹھنے کے لیے کہا، حکیم صاحب بہت ہی پیار سے کتاب کے عنوان پر ہاتھ پھیرتے جاتے اور کہتے بہت عمدہ، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ لکھنا مت چھوڑنا، چند لمحوں کی یہ ملاقات آج بھی تازہ ہے۔ کچھ عرصہ بعد میرا بیت الحکمہ (ہمدرد یونیورسٹی لائبریری) جانا ہوا، مجھے حکیم صاحب کی یہ بات یاد آئی کہ جو کتاب انہیں موصول ہوتی ہے وہ اس پر اپنے دستخط کر کے لائبریری کو بھیج دیتے ہیں۔ میں نے بیت الحکمہ میں اپنی کتاب تلا ش کی جو مجھے آسانی سے مل گئی۔ اس کتاب پر حکیم محمد سعید شہید کے دستخط بمعہ تاریخ کے موجود تھے۔ اہل علم و دانش کی ایسی ہوتی ہیں عادات و اطواراور طرز عمل۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے انتظامی امور جس خوش اسلوبی اور لگن سے سر انجام دئے اسی تندہی،محنت و مشقت اور جان فشانی سے تصانیف وتالیفات میں بھی مصروف عمل رہے۔وہ تنقید نگار ہونے کے ساتھ ساتھ لغت نگار بھی پائے کے تھے، انہوں قومی انگریزی لغت، قدیم اردو کی لغت مرتب کیں۔ تاریخ ادب اردو، اردو کی تاریخ پر ان کی ایک عمدہ تحقیق ہے،جانورستان (جارج آرول کے ناول کا ترجمہ) گویا وہ مترجم بھی پائے کے تھے، کلچر کو بھی انہوں نے اپنا موضوع بنایا اور اس موضوع پر ان کی تصنیف پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ برصغیر میں اسلامی کلچر، پاکستان کلچر پر بہترین اضافہ ہے۔ ایلیٹ کے مضامین (ترجمہ)، ارسطو سے ایلیٹ تک، میراجی ایک مطالعہ۔ تنقید میں ان کی تصنیف تنقید اور تجربہ، نئی تنقید، محمد تقی میر: ایک مطالعہ، معاصر ادب، قومی زبان یکجہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخشش جرأت: لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، ن م راشد ایک مطالعہ۔ کلیات میراجی اور میراجی ایک مطالعہ اپنے موضوع کا وسیع احاطہ کرتی ہیں۔ادبی تحقیق و تدوین میں مثنوی قدم راؤ پدم را ؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی شامل ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے بچوں کے لیے حیرت ناک کہانیاں اور خوجی و دیگر کتب تصانیف و تالیفات میں قابل قدر اضافہ ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر جمیل جالبی ادب کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے۔ ان کی علمی، ادبی اور تصنیفی اور تالیفی خدمات طویل عرصہ تک یاد رکھی جائیں گی۔ محققین، مصنفین ڈاکٹر صاحب کی تحقیق اور گراں قدر تصانیف سے مستفیض ہوتے رہیں گے۔ جالبی صاحب خوش نصیب ہیں کہ ان کی رحلت کے بعد ان کے فرزند ارجمند نے ڈاکٹر جالبی نے محنت، مشقت، عرق ریزی سے جو علمی سرمایا ذاتی لائبریری کی صورت میں تشکیل دی تھی اسے اس طرح محفوظ رکھا کہ جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری کے برابر قطع اراضی جامعہ کی انتظامیہ سے حاصل کر کے اس عمارت میں ’ڈاکٹر جمیل جالی ریسرچ لائبریری‘ قائم کر دی گئی ہے۔ جس میں تمام کتب جو ڈاکٹر جالبی کی ذاتی لائبریری تھی اس ریسرچ سینٹر میں سلیقے اور قرینے سے محفوظ کر دی گئی ہے۔ اردو زبان و ادب اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی شخصیت اور ان کے ادبی کارناموں پر تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ ریسرچ لائبریری ممد و معاون ثابت ہورہی ہے۔(12مارچ2025ء)
|