موجودہ معاشرے کی ترجیحات کودیکھیں تو سیاست لفظ بے
معنی اوربے مقصدمعلوم ہوتاہے،سیاست کی تشریح مختلف لوگ مختلف الفاظ
اورانداز میں کرتے ہیں جن میں مناسب ترین معنی’’معاملات کاافہام وتفہیم سے
حل نکالنا، ’’جوڑ توڑ یا ‘‘’’ساز باز‘‘ہے،سیاست لفظ کے معنی تلاش کریں
تومعنی نہیں مفہوم یاتبصرے ہی سامنے آتے ہیں،سیاست عربی زبان کالفظ ہے جبکہ
مغربی تہذیب وتمدن کے مطابق امورحکومت چلانے،بنانے یامختلف طبقات کوبذریعہ
فن سیاست جوڑتوڑیا’’سازبا‘‘ایک پیج پرمتفق رکھنے کی کوشش میں کیے جانے والے
تمام اقدامات کوسیاست کہتے ہیں ، مغرب ومشرق میں فن حکمرانی کو سیاست
اورامور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا
ہے،یعنی اہل سیاست کے نزدیک فن سیاست حسن معاشرت یاضابطہ مملکت ہے جبکہ کسی
بھی مسلمان کیلئے دین اسلام سے بڑھ کرکوئی ضابطہ معاشرت،مملکت یاضابطہ حیات
نہیں ہوسکتا، آج اہل مغرب اپنی سیاست کودین اسلام کے احکامات کے مطابق ڈھال
کر معاشرتی معاملات چلانے کی کوشش کررہے ہیں یعنی سیاست کاکوئی ذاتی ضابطہ
ہی نہیں ہے کوئی ذاتی نظریہ ہی نہیں تب ہی توسیاستدانوں کانظریہ ضرورت کے
علاوہ کوئی نظریہ نہیں ہوتا،موجودہ سیاست اورسیاستدانوں کی حالت کودیکھتے
ہوئے یوں کہاجاسکتاہے کہ سیاست،سیاہ کاسیااورست،سیاہ کامطلب
کالا،اندھیرا،تاریک اورست سے مرادہے رس،نچوڑ ،سیاست یعنی اندھیروں کا
نچوڑ،نہ صرف پاکستان بلکہ دنیابھرمیں غورکریں تومعلوم ہوگاکہ سیاست سرمایہ
داروں کی گرفت میں پھلتی پھولتی ہے اورسرمایہ دارکوہی منافع پہنچاتی
ہے،سیاست کوئی ایسا نظام تربیت دینے یاچلانے کی اہل نہیں
جوبلاامتیازانسانیت کی فلاح وبقاء کاضامن ہو،کسی ملک یاریاست کوچلانے
والانظام ایک یاایک سے زیادہ ایسے ناقص انسان کیسے بناسکتے ہیں جن کے بس
میں اپناسانس تک نہیں؟مرشدسرکارسیدعرفان احمدشاہ المعروف نانگامست فرماتے
ہیں کہ انسان کی اوقات اتنی ہے کہ اپنے ہی سانس پرکنٹرول یااختیار نہیں
رکھتا،جب سانس لینے میں رکاوٹ پیش آئے توخودسے کچھ کرنے کی اہلیت نہیں
رکھتا؟اس کائنات کے نظام کوچلانابھی اسی مالک کے اختیارمیں ہے جس نے کائنات
بنائی ہے،انسان کے پاس اتنااختیارہی نہیں کہ وہ ملک،ریاست کانظام اپنی
خواہش کے مطابق چلاسکے،سیاست اپنے پیروکاروں کودنیاکی دولت،جائیداد،عہدے
اوررتبے تودیتی پرعزت وغیرت سے بیگانہ کردیتی ہے،مخلوق براکہے یابھلااہل
سیاست کوفرق نہیں پڑتا،سیاست کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ امیرکوامیرترین
اوغریب کوغریب ترکرتی ہے،جوسیاست کاہوجاتاہے یعنی سیاستدان بن جاتاہے پھروہ
کسی کانہیں رہتایہاں تک کہ اپنے اندرکے سچے انسان کوبھی فراموش
کردیتاہے،سیاست اورسیاستدان ہرمقام پرغیرجانبداری کی بات کرتے ہیں،سیاست نہ
صرف جانبدارہوتی ہے بلکہ خودامیرکے درکی غلام ہے،غلام کااپنی زندگی پرکوئی
اختیارنہیں ہوتا،کوئی نظریہ نہیں ہوتا،ذاتی سوچ یاخیال کی اہمیت نہیں ہوتی
توپھرکوئی غلام غیرجانبدارکیسے ہوسکتاہے؟جانبدارنظام رائج ہوتواداروں
کاغیرجانبدارپالیسی پرکاربندہوناکیسے ممکن ہوسکتاہے؟ذاتی طورپرہرفرداپنی
رائے رکھتاہے کسی نہ کسی جانب جھکاورکھتاہے،کوئی نہ کوئی کارڈاستعمال
کرتاہے،پالیسی کی بات کریں تواداروں کی ذمہ دارشخصیات،سیاسی،مذہبی جماعتوں
کی پالیسی بھی غیرجانبدارنہیں ہوتی،کوئی لبرل ازم کی بات کرتاہے توکوئی
مذہب کی بنیادپرسیاست کرتاہے مختصرکے ہم سب تاریخ یادورحاضرکے سپرپاورسے
متاثرہوئے بغیرنہیں رہ پاتے جبکہ کامیاب لوگ اورمعاشرے تاریخ سے سیکھتے ہیں
اورسپرپاورزکی مثبت پالیسز کواپنے معیارکے مطابق اپناتے ہیں،اپنی تہذیت سے
روگرادنی کرناکسی قوم کیلئے خاص طورپرامت مسلمہ کیلئے کامیابی کی علامت
نہیں سمجھاجاسکتا،مذہب کارڈکے طورپرمسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنے والوں
کابھی ایک ہی علاج ہے اوروہ ہے نفاذنظام دین اسلام ورنہ ان بہروپیوں کے
چہروں سے نقاب اتارناجمہوریت یاسیاست کے بس کی بات نہیں،پاکستان کا مطلب
کیا لا الہ الا اﷲ دستور ریاست کیا ہو گا محمدالرسول اﷲ،ریاست پاکستان
کایہی نصب العین ہوناچاہئے،تحریک پاکستان جس کے نتیجے میں ملک آزادہوااس کی
بنیادکلمہ طیبہ ہے جمہوریت نہیں،مسلم اکثریتی علاقوں کی مثال دے کرقیام
پاکستان کوجمہوریت کے ساتھ نہیں جوڑاجاسکتاہے،ہندوستان کے گلی کوچوں میں
پاکستان کا مطلب کیا’’لا الہ الا اﷲ‘‘کانعرہ گھونجاتھاجمہوریت کی
بنیادپرملک بنتے توآج دنیامیں ممالک کی تعداددوگنی سے بھی زیادہ ہوتی،صرف
بھارت توٹنے سے درجن کے قریب ملک بن چکے ہوتے،جمہوریت کاچورن بیچنے کی
آڑمیں نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی جائے،یہ ملک اسلام کے نام پرقائم ہوا
ہے اس ملک میں نظام مصطفی کے علاوہ کوئی باطل نظام کامیاب نہیں
ہوسکتا،پاکستان کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے لہٰذایہاں مذہب کارڈنہیں چل
سکتا،یہاں چلے گاتوفقط دین اسلام کانظام چلے گا،گزشتہ 72 سال سے
انگریزکاقانون نافذکرنے کی کوشش کی جارہی ہے جوہردورمیں بری طرح ناکام ہوتی
چلی جارہی ہے،مسلمانوں کے ملک میں نافذکرنے کیلئے ان کے پاس دین اسلام
کانظام قرآن مجید کی صورت میں زندہ وجاویدمنشورموجودہے کے علاوہ کوئی نظام
کامیاب تودورکی بات ہے مکمل نافذبھی نہیں ہوسکتا،ملک خداداکے عوام کی
خیرخواہی کاواحد راستہ دین اسلام کے نفاذکے ساتھ منسلک
ہے،سوچیں،غوروفکرکریں کہ جونظام شہریوں کوہلمنٹ کی پابندی نہیں
کرواسکتا،پتنگ بازی جیسے قاتل کھیل کونہیں روک سکتا،جونظام معمولی سے
معمولی مسئلے کوبھی اس قدرپیچیدہ کردے کہ لوگ لڑنے مرنے پرتیارہوجائیں وہ
نظام انسانی معاشرے میں نافذہونے کااہل نہیں ہوسکتا،جونظام طاقتورطبقات کی
لونڈی بن جائے وہ نظام کسی غریب کے ساتھ انصاف کیسے کرسکتاہے؟جس نظام کی
سیاست جھوٹ،فریب،دھوکہ دہی،لوٹ گھسوٹ پرمبنی ہواس نظام سے جس قدرجلدی ہوسکے
جان چھوڑوالینی چاہئے،سیاست یاسیاہ ست کے منشورمیں جھوٹ،فریب،دھوکہ
دہی،چکربازی ،سازبازسب جائزہے،موجودہ نظام کے سیاستدان،سیاستدان نہیں بلکہ
سیاہ ست دان ہیں اسی لئے ان کے معاملات رات کے اندھیرے یعنی تاریکی میں طے
ہوتے ہیں،ہم عدلیہ انصاف نہ ملنے کاشکوہ کرتے ہی،غورکریں جوعدلیہ انگلش
قوانین کے مطابق فیصلے کرتی ہے وہ عدلیہ حلف قرآن پرکیوں لیتی ہے؟جوقانون
لوگوں کوعدالت میں سچ بولنے کاپابندنہیں بناسکتا،جوقانون اس قابل نہیں کہ
اس کے تحت حلف لیاجائے توپھرایسانظام انصاف کیسے فراہم کرسکتاہے؟موجودہ
نظام عدل بھی سیاہ ست کی ہی پیدوارہے لہٰذاسیاہ ست اورسیاہ ست دانوں سے
بغاوت ناگزیرہے ،
|