مودی ۔۔۔غور کر غور کر ورنہ اجل تیار ہے
یہ تیرا سر ہے اور اس جلاد کی تلوار ہے۔۔۔
حالیہ انسانی تاریخ کا سبسے پراناحل طلب مسئلہ کشمیر ہے۔۱۹۴۷ء سے اس دلنشین
،جنت نظیراور برف کے خوبصورت پہاڑوں سے سجی وادی میں خون کاایسا دریا روان
ہے، جسمیں مسلسل انسانیت بہہ رہی ہے ۔کشمیر کو دنیا کی جنت کہاں جاتا ہے۔
اگر دنیا کے نقشے پرنظرڈالیں تو معلوم پڑے گا کشمیرواحد علاقہ ہے جدھر ۷۰
سال بعد بھی آزادی کا سورج طلوع نہیں ہو سکا۔کشمیر برصضیرکے مغرب میں
ہمالیہ اور پیرپنجال کے درمیان پہاڑی سلسلے میں پھیلا ہوا ہے کشمیری چائے
سے لیکر آبشاروں تک دیار کی قمتی لکڑی سے لیکرپھلوں کے باغات تک چار سو
قدرتی رنگوں کا ایسا نقشہ بنا ہوا ہے کہ انسان بے ساختہ کہنے پر مجبور
ہوجاتا ہے۔" توتم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کوجھٹلاؤگے " قدرت کا
یہ حسین وجمیل خطہ آزادی کی پُرسکون نعمت سے آج بھی محروم ہے جسکے اصل مجرم
اقوام متحدہ سمت کچھ منافق اور مفاد پرست ممالک ، جن میں بعض اسلامی ملک
بھی برابر کے شریک ہیں جو ۵․۱ ارب مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ
ہے۔۱۵۔۱۴اگست۱۹۴۷ء کوپاکستان اور بھارت بالترتیب وجود میں آئے،ٹھیک دو ماہ
بعد اکتوبر میں مقبوضہ کشمیر میں باقاعدہ جنگ چھڑگئی جسمیں پاکستانی قبائل
نے بھرپورحصہ لیااسی مہینے مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت سے کر دیا۔میرا
اصل نکتہ یہی ہے مسئلہ کشمیر حل کیسے ہو گا؟یہ سوال آج ہر ذی شعور شخص اٹھا
رہا ہے میرے نزدیک اسکے دو ہی حل ہیں ایک مذاکرات دوسرا جنگ پہلا او پشن
ایک صورت میں کامیاب ہو سکتاہے اگر امریکہ بھارت سے زبردستی ڈومور کروائے
ایسا نہیں ہوتا تو پھر ہر صورت میں وار ہوگی جو انسانیت کیلئے ڈراؤنا خواب
ثابت ہو گی۔جتنی تیزی سے دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو رہی اور ترقی کی
حیرت انگیز منزلیں طے کر رہی ہے پاکستان اور بھارت بھی اس کا حصہ بن کے
پورے خطے میں خوشحالی لا سکتے ہیں۔مگر یہ تب ممکن ہو گا جب ہندوستان کشمیر
یوں کی امنگوں کے مطابق انہوں حق خود ارادیت دے گاجسکی ابتک دور دور تک
کوئی امید نظر نہیں آتی۔مودی کو جس حساب سے پاگل پن کے دورے پڑ رہے ہیں
اسکا فوری علاج کسی امریکی ماہر نفسیات نے نہ کیا تو یہ مرض لا علاج ہو
جائے گا جسے کشمیر میں مزید ظلم بڑے گا جوپہلے ہی انسانیت کی آخری حدود کو
چھو رہا ہے ہندوستانی میڈیا سمیت بہت سے بھارتی لوگوں کے دماغ میں امن کا
سافٹ وئیر انسٹال کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔کیابرصغیرر نے یوں ہی غربت کی چکی
میں پستے رہنا ہے؟کیا ادھر بھی یورپ کیطرح خوشحالی آ سکتی ہے؟ان دونوں
سوالوں کے جواب بھارتی سیاستدان بہتر دے سکتے ہیں وہ برصغیر میں بے روزگاری
چاہتے ہیں یا ترقی؟ کیا انکو نظر نہیں آتا دنیا میں سب سے زیادہ غریب لوگ
برصغیرمیں ہیں جنکہ پاس نہ چھت ہے نہ دو وقت کی روٹی میسر جبکہ بھارت میں
تقریبا دوکروڑ کے قریب بیت الخلا کی کمی ہے لوگ ستنجا کرنے کھیتوں میں جانے
پر مجبور ہیں جو انسانیت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ مودی حکومت ملک کے ترقیاتی
منصوبوں کا سارا پیسہ فوجی سازوسامان اور کشمیر کی تاریخ آزادی کوکچلنے میں
ضائع کر رہی ہے۔جنوبی ایشیاء میں امن کا چراغ روشن کرنیکی پہل پاکستان نے
کرتارپورباڈر کھول کیکی ہے جو دونوں پنجاب کیلئے ایک مثبت پیش رفت ہے۔اگر
ہندوستانی حکمران سنجیدہ ہوں توبرصغیرمیں امن کا دیا مستقیل روشن ہوسکتا ہے
مقبوضہ کشمیر کی آزادی اس خطے میں وہ شمع روشن کرے گی جوکسیکے تصورات میں
بھی نہیں ہوسکتی ۔ایسے اقدامات سے برصغیر کے سنہری دور کا آغاز ہو سکتا
ہے۔کیا ہم جرمنی اور فرانس کیطرح دوست نہیں بن سکتے جوماضی میں ہم سے کہیں
زیادہ ایک دوسرے کے دشمن تھے ان دونوں ملک نے بہت زیادہ قتل عام کیا ہے
مگرآج انکے اوپن باڈر ہیں اور ہم سے ہزار گنا خوشحال ہیں جو انکی بہترین
قیادت کے مرہون منت ہے۔ہندوستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے اب محبتیں بانٹنے کا
وقت ہے نہ کہ نفرتیں کشمیری عوام کو انکا حقِ آزادی دے کر بھارت محبت کی
ابتدا کرسکتاہے ۔اگر یہ ظلم کی دکان اسطرح چلتی رہی تو یہ مسلسل نفرتوں کو
ہوا دے گی جسکی ایک دن پورے ہندوستان کو بہت بھاری قیمت چکنی پڑے گی ۔اسکے
بعد پورے بھارت سے خاص کر پنجاب سے ایک ہی نعرہ بلند ہو گا" کشمیر بنے گا
پاکستان "کیا ہندوستان اسی دن کے انتظار میں ہے؟یا پھر کشمیرکو آزادکرکے
برصغیر سے ہمیشہ کیلئے غربت کا خاتمہ کرنا چاہے گا؟ یہ سب کچھ اب بھارت کے
ہاتھ میں ہے ۔ جو مودی آج بوئے گاوہی کل ہندوستان کاٹے گاکیونکہ ہر چیز
اپنی اصل کی جانب لوٹتی ہے اسی کو مفاکات عمل کہتے ہیں۔
خرابہ ہے شاخِ نشیمن نہیں۔۔
ڈھونڈنا ہے ہمیں بلاؤں کا بل
|