دیویندر فڈنویس کے استعفیٰ نے یہ ثابت کردیا کہ ایک نہایت
چالاک براہمن کی حمایت میں اگر وقت کا چانکیہ بھی آجائے تب بھی مراٹھا کے
آگے انہیں چاروں خانے چت ہونا پڑتاہے ۔ مہاراشٹر میں امت شاہ کو جہاں شرد
پوار نے پٹخنی دی وہیں اجیت پوار نے دیویندر فڈنویس کے کان کاٹ لیے۔۔ اس
کامیابی میں ان مسلم رائے دہندگان کا بھی حصہ ہے جنہوں نے بیشتر مقامات پر
ونچت اگھاڑی کو ٹھکرا کر کانگریس یا این سی پی کا ساتھ دیا ۔ وہ اگر اپنا
ووٹ امبیڈکر کے سلنڈر کی آگ میں جھونک دیتے تو کمل آسانی سے کھل جاتا ہے۔
اس کھیل میں دیویندر فڈنویس کی سب سے بڑی غلطی ونچت اگھاڑی کو ایم آئی ایم
سے الگ کرنے کی تھی۔ اس لیے فڈنویس کی یہ رسوائی ان کے اپنے ہاتھوں کی
کمائی ہےجس کی انہیں مطلق ضرورت نہیں تھی ۔
فڈنویس اس غلطی کے باوجود شیوسینا کے ساتھ انتخاب لڑ کر واضح اکثریت حاصل
کرچکے تھے۔ ان کو تو صرف یہ کرنا تھا کہ اپنی حامی جماعت کو احترام کے ساتھ
بلاتے ۔ اس کے مطالبات پر غور کرتے ان میں سے جو ناجائز ہوتا اس کو سمجھا
بجھا کر واپس لینے کے لیے کہتے اور معقول مانگ کو قبول کرکے حکومت بناتے
لیکن رعونت آڑے آگئی۔سارے براہمن مغرور نہیں ہوتے لیکن جن کو سنگھ پریوار
کے سنسکار نصیب ہوجائیں اور اس پر اقتدار کا نشہ چڑھ جائے تو ان کا دماغ ہی
خراب ہوجاتا ہے ۔ فڈنویس کے ساتھ یہی ہوا اور غالب کا یہ مشہور شعر ان پر
صادق آگیا ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
دیویندرفڈنویس کے لیے اقتدار سے سبکدوش ہونا ضروری نہیں تھا لیکن ۹ نومبر
۲۰۱۹ کو انہوں نے استعفیٰ دینا پسند کیا یہ ان کا حق تھا ۔ اس وقت تو صرف
ان کے اس اعلان کا مذاق اڑایا گیا جس میں وہ کہا کرتے تھے ’’میں ہی واپس
آوں گا‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے یہ رویہ اختیار کیا کہ ’’میں ہرگز نہیں جاوں
گا‘‘ اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خاطر وہ تماشے کیے کہ اپنے ساتھ وزیر اعظم
اور وزیر داخلہ کو بھی ذلت و رسوائی کے گہری کھائی میں ڈھکیل دیا ۔ اب یہ
لوگ کتنا بھی اونچا رام مندر بنا لیں اس سے ابھر نہیں سکتے۔ مرکزی حکومت
سپریم کورٹ کے منصفین پر دباو بنانے میں اور انہیں بلیک میل کرنے میں تو
کامیاب ہوگئی لیکن این سی پی اور شیوسینا کے ارکان اسمبلی کے ساتھ یہ حربہ
ناکام رہا ۔ اس موقع پر اگر سپریم کورٹ کے ججوں کا ان بدعنوان سیاستدانوں
سے موازنہ کیا جائے تو عدالت کے مقابلے سیاست کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔
۹ نومبر ۲۰۱۹ کے استعفیٰ کی پریس کانفرنس اور ۲۶ نومبر والی پریس کانفرنس
میں ایک فرق تو یہ تھا کہ پہلے دیویندر فڈنویس کا چہرہ چمک رہا تھا اور اس
بار اترا ہوا تھا۔ اس کی وجہ صاف ہے۔ اس وقت انہیں امید تھی کہ شیوسینا کو
اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ ناک رگڑ کر ان کے دروازے پر آئے گی مگر اس
بار انہوں نے تسلیم کرلیا کہ اب وہ حزب اختلاف کا کردار نبھائیں گے ۔ بی جے
پی میں اگر رائی برابر عقل ہوگی تو وہ دوبارہ اس دلندر اور خودپسند کو
اسمبلی میں اپنا لیڈر نہیں بنائے گی۔ ویسے اگر اس نے یہ غلطی کرہی دی تو یہ
حزب اختلاف کے لیے بہت بڑا انعام ہوگا ۔
دو ہفتوں کے اندر اپنی دوسری پریس کانفرنس میں فڈنویس نے پھر سے سب کا
شکریہ ادا کرنا شروع کردیا ۔ وہ بھول گئے کہ یہ کار خیر وہ پہلے ہی ادا
کرچکے ہیں اور دوبارہ اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایسے صدمہ کے بعد بھلا عقل
کہاں ٹھکانے رہتی ہے؟ ان دو مواقع پر ادا کیے جانے والے رسم شکریہ کا
موازنہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ دونوں مرتبہ شیوسینا اس میں شامل تھی ۔
فرق یہ ہے کہ پہلی بارنام لیا گیا تھا دوسری بار نام لینے سے گریز کیا گیا۔
پچھلی بار شیوسینا سے بے وفائی کا گلہ کیا گیا تھا لیکن اس بار سینا پر
ہندوتوا سے غداری کا الزام لگایا گیا ۔
دیویندر فڈنویس کو اس بات کا افسوس تھا کہ شیوسینا سونیا گاندھی کی قسمیں
کھا رہی ہے لیکن انہوں نے جس احترام کے ساتھ اجیت پوار کا ذکر فرمایا وہ
بھی حیرت انگیز تھا۔ شری اجیت دادا پوار ہمارے پاس آئے اور کہا ہم حکومت
سازی میں تعاون کریں گے اور پھر انہوں نے ہمارے پاس آکر کہا کہ میں ذاتی
وجوہات کی بناء پر استعفیٰ دیتا ہوں ۔ اس پر اخباری نمائندوں کو انہیں یاد
دلا نا پڑا کہ یہ وہی اجیت پوار ہیں جن کے بارے میں آپ کہا کرتے تھے کہ وہ
جیل کی چکی پیسیں گے۔ اس پر فڈنویس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔
اس سیاسی اٹھا پٹخ میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ اس سوال کا اگر
جائزہ لیا جائے تو چند چیزیں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ شیوسینا جس کو نائب
وزیراعلیٰ کا عہدہ نہیں مل رہا تھا اسے وزارت اعلیٰ کی کرسی مل گئی جبکہ اس
کے صرف ۵۶ ارکان اسمبلی ہیں ۔ اس طرح دیکھا جائے تو وہ سب سے زیادہ فائدے
میں وہی رہی ۔ کانگریس جس کے صرف ۴۴ ارکان اسمبلی ہیں اور جس کی تعزیت کی
جاچکی تھی پھر سے اقتدار میں حصے دار بن گئی ۔اس نے دوسرا سب سے بڑا منافع
بخش سودہ کرلیا ۔ این سی پی جس نے یہ سارا کھیل کھیلا حقیقت میں وزارت
اعلیٰ کے عہدے کی حقدار ہے لیکن حالات کچھ ایسے ہیں کہ اسے اپنا نائب
وزیراعلیٰ بنوا کر ملائی والی وزارتوں پر اکتفاء کرنا پڑے گا ۔
یہ سارا معاملہ دیویندر فڈنویس کی اجیت پوار کے ساتھ دوسری حلف برداری کے
بغیر بھی ہوسکتا تھا اور ہونا چاہیے تھا لیکن بیجا خود اعتمادی نے ان سے
کئی پہاڑ جیسی غلطیاں سرزد کروائیں ۔ شیوسینا جس طرح اعلان کررہی تھی کہ
ہمیں این سی پی اور کانگریس کی حمایت مل رہی ہے اسی طرح کا اعلان فڈنویس
بھی کرکے اجیت پوار کے ساتھ علی الاعلان حلف برداری کرسکتے تھے لیکن انہوں
نے چوری چھپے راتوں رات شب خون مارنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے سبب یہ امکان
پیدا ہوگیا کہ ان کا اقتدار بچ جائے گا لیکن وہ بھول گئے کہ ان کی جانب سے
اقتدار کی خاطر شیوسینا پر اپنے مخالف نظریات کے حاملین سے مصالحت کا جو
الزام لگایا جاتا ہے وہ پلٹ کر خود ان پر آجائے گا۔ اجیت پوار کے ساتھ
حکومت سازی کے بعد وہ کبھی بھی شیوسینا کو ابن الوقت نہیں کہہ پائیں گے ۔
اجیت پوار کی گھر واپسی کے بعد فڈنویس کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِ دھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
مہاراشٹر کی سیاسی ہلچل پر ، نتن گڈکری نے دو ہفتہ قبل کہا تھا کہ
‘کانگریس-این سی پی-شیو سینا کے مابین نظریہ کا فرق ہے۔ کانگریس ‘شیوسینا‘
این سی پی اتحاد موقع پرست ہے ، غیر مستحکم حکومت مہاراشٹر کے لیے بہتر
نہیں ہے۔ فڈنویس اور اجیت پوار حکومت پر نتن گڈکری کے یہ سارے الزامات اور
اندیشے صادق آگئے۔ ان کے درمیان بھی نظریات کا فرق تھا ۔ ان کو بھی ابن
الوقتی ایک دوسرے کے ساتھ لائی تھی اور وہ سرکار اس قدر غیر مستحکم تھی کہ
اعتماد کا ووٹ تک حاصل نہیں کرپائی ۔ مودی اور شاہ کی مبارکباد بھی ان کے
کسی کام نہ آسکی۔ اس کے بجائے بدعنوانی کے خلاف لڑنے کا اور ہندوتوا کے
معاملے میں عدم مصالحت کا مدعا بھی ان سے چھن گیا۔
عام طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اس الٹ پھیر میں سب سے زیادہ نقصان
اجیت پوار کا ہوا یہ غلط بات ہے۔ اجیت پوار کو سب سے زیادہ چنتا اپنے آپ
کو جیل جانے سے بچانے کی ہے۔ ان کے استعفیٰ سے قبل سی بی آئی نے انہیں
کلین چٹ دے دی ۔ اس طرح گویا وہ بی جے پی کی گنگا میں ڈبکی لگانے کے بعد
پوتر ہوکر وہ اپنے خاندان میں لوٹ آئے۔ این سی پی کا کہنا ہے کہ انہیں تو
صرف لیڈر شپ سے ہٹایا گیا تھا پارٹی سے نکالا ہی نہیں گیا تھا اس لیے واپسی
کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دیویندر فڈنویس نے پریس کانفرنس میں یہ اعلان
کیا کہ عدالت کی نگرانی میں ان کے خلاف تفتیش جاری رہے گی لیکن صوبائی
حکومت سنبھالنے کے بعد فڈنویس کے خلاف بدعنوانی کی فائلیں این سی پی کے پاس
آجائیں گے اور اس کے چلتے کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے
اپنا تحفظ کرنا اس کے لیے آسان ہوجائے گا۔
مہاراشٹر میں ایک وقت تک ٹھاکرے خاندان کو ریموٹ کنٹرول کہا جاتا تھا اور
حکومت پوار خاندان کرتا تھا ۔ اب صورتحال بدل گئی ہے ۔ ٹھاکرے خاندان کا
چشم و چراغ اب حکومت کرے گا اور ریموٹ کنٹرول پوار خاندان کے ہاتھ میں
ہوگا۔ اس حکومت کا وزیراعلیٰ اگر ادھو ٹھاکرے ہو تب بھی شرد پوار کو یہ
کریڈٹ ملے گا کہ انہوں نے بی جے پی سے اس کا پارٹنر توڑا۔شیوسینا کی پیشانی
سے ہندوتوا کا کلنک مٹا یا جس کا ثبوت مہاشیو اگھاڑی کا نام بدل کر مہا
وکاس اکھاڑی رکھنا ہے۔ کانگریس کی حمایت حاصل کرکے بی جے پی کو اقتدار میں
آنے روکا ۔ پچھلے ۶ سالوں میں امیت شاہ اپنی لاکھ کوشش کے باوجود صرف دس
صوبوں میں اپنے بل پر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اس میں دو کم ہوگئیں
۔ ہریانہ میں مخلوط حکومت بنانی پڑی اور مہاراشٹر میں تو وہ بھی نہیں بن
سکی ۔ اس کے باوجود جو لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ملک میں شاہ کی مرضی کے
خلاف پتہ ّ بھی نہیں ہلتا تو ایسے بھکتوں کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی
نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں دیویندر سے پیچھا چھڑانے کے بعد یہ سوال پھر سے ابھر
کر سامنے آگیا ہے کہ دہلی نریندر سے کب نجات ملے گی؟ اس لیے دیویندر کو
نریندر کا ولیعہد بھی کہا جانے لگا تھا ۔
|