بھتہ مافیا کی باہمی جنگ

کھارادر.... رنچھوڑلائن.... اولڈ سٹی ایریا.... کراچی کے ایسے بارونق علاقے تھے جہاں لگتا تھا کہ کبھی رات ہی نہیں ہوتی.... پورے شہر سے لوگ کھانا کھانے، شاپنگ کرنے آدھی رات کو بھی یہاں آتے تھے.... گزشتہ چند سال کے دوران بالخصوص ان علاقوں میں بھتہ خوری، لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائم اس قدر بڑھ گئے کہ صرف جنوری کے مہینے میں 7روز تک یہ علاقے بند رہے۔ لوگ اب ان علاقوں میں آنے سے کترانے لگے ہیں۔ بھتہ خوروں کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ 6 مخصوص موبائل نمبروں سے تاجروں اور مکینوں کو فون کیے جاتے ہیں اور دھڑلے سے بھتہ طلب کیا جاتا ہے۔ ذرا سی مزاحمت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کو دن دہاڑے مار دیا جائے گا۔ بھتہ خوروں نے آٹو پارٹس مارکیٹ کو آگ لگا دی، تاجر کو مار ڈالا، کراچی چیمبر میں سب سے بڑی نمائندگی رکھنے والی الیکٹرانکس مارکیٹ کو ٹارگٹ بنالیا گیا۔ برنس روڈ جسے فوڈ اسٹریٹ بھی کہا جاتا ہے اور جو نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک کے لوگوں کے لیے انتہائی کشش رکھتی ہے، اسے بھی نہ بخشا گیا، یہاں کے دکانداروں کو بھی بھتے کی پرچیاں بھیجی گئیں.... عدم تعمیل پر اندھادھند فائرنگ کر کے سراسیمگی پھیلا دی گئی۔ برنس روڈ پر قائم دکانیں کئی روز تک بند رہیں۔ خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ دکانداروں نے اپنی دکانوں پر نصب سائن بورڈ پر سے ٹیلی فون نمبر ہٹوا دیے.... وزیٹنگ کارڈ اب بغیر فون نمبروں کے ہیں۔

ان علاقوں میں اب یہ عالم ہے کہ ایک گولی بھی چلتی ہے تو کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ دکاندار اور خریدار خوفزدگی کے عالم میں گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں، لیکن گھروں پر بھی اطمینان اور تحفظ کا احساس نہیں ہے۔ بھتہ خور گروپ اب باقاعدگی گھروں پر بھی بھتے کی وصولی کے لیے پرچیاں بھیجتے ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے مکینوں کی مختلف تہوار کے مواقع پر زندگی مزید اجیرن ہوجاتی ہے۔ عیدالاضحی پر قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے لیے پرچیاں بھجوائی جاتی ہیں۔ ایک عام آدمی، دکاندار، تاجر جائے تو کہاں جائے! کس سے فریاد کرے! کسے اپنا دکھڑا سنائے! پولیس نے ان نمبروں کی تفصیل مانگی جن کے ذریعے بھتہ طلب کیا جاتا ہے۔ 6 مختلف نمبروں کی فہرست پولیس کے حوالے کردی گئی، اس امید پر کہ شاید اب خطرے کی گھنٹیاں بجنا بند ہوجائیں گی۔ لیکن یہ گھنٹیاں بند کیا ہوتیں ان کی شدت میں اور اضافہ ہوگیا۔ پولیس کیوں بے بس ہے؟ متعلقہ حکام نے کیوں نہتے شہریوں کو ان جرائم پیشہ افراد کے تسلط میں دے رکھا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں، ان کا جواب ملنا چاہیے۔ شہریوں کو بھتہ خوروں، ڈاکووں اور رہزنوں کے عذاب سے ہر صورت نجات دلانا ہوگی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حالات بے قابو ہوسکتے ہیں۔

بھتہ خوروں نے کراچی کو ٹارگٹ بنالیا ہے کیونکہ کراچی پاکستان کی معیشت کا حب ہے۔ دنیا کی نظریں کراچی کی مارکیٹ اور اس کی بندرگاہ پر ہیں۔ کراچی کو منصوبہ بندی کے تحت مفلوج کیا جارہا ہے، شہر کی100بڑی مارکیٹوں میں بھتہ گروپ بھتے وصول کر رہے ہیں جس سے پولیس بھی آگاہ ہے۔ تاجر پولیس کو ثبوت اور بھتہ گروپ کے ٹھکانوں کی بھی نشاندہی کرچکے ہیں، تاجروں کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ہیں اور بھتہ گروپ کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ شہر کا مصروف ترین کاروباری مرکز اولڈ سٹی ایریا بھتہ گروپ کے ٹارگٹ پر ہے۔ اس علاقے میں واقع کراچی کی بڑی ہول سیل مارکیٹوں سے یہ گروپ بھتہ طلب کررہے ہیں۔3 ماہ کے دوران 7 تاجر بھتہ گروپ کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ آرام باغ، بوہرا پیر، جوڑیا بازار، برنس روڈ، ڈینسوہال، پان منڈی، رنچھوڑ لائن، اسپیئر پارٹس مارکیٹ، اورنگزیب مارکیٹ کے علاقے بھتہ خوروں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ ان علاقوں میں تاجروں نے بھتہ گروپ کے خلاف ہڑتال بھی کی، احتجاج بھی کیا، لیکن بھتہ گروپ کا کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا، بلکہ بھتہ گروپ تاجروں کو عرفان کھتری کی طرح بھتہ نہ دینے والوں کے انجام کی دھمکیاں دینے لگے اور پھر ایک رات کو جاپان پلازہ کے ساتھ واقع بڑی اسپیئر پارٹس مارکیٹ رفیق پلازہ میں آٹو پارٹس کی دکانوں اور گوداموں میں پراسرار طور پر آگ لگ گئی۔

پولیس نے تو تاجروں کے کروڑوں روپے کے نقصان پر یہ کہہ کر مٹی ڈال دی کہ آگ شارٹ سرکٹ سے لگی ہے، رات 2بجے کون مارکیٹ کو آگ لگائے گا! پولیس کے اس بیان پر تاجروں نے اپنا سر پیٹ لیا اور پولیس کو بتایا کہ رفیق پلازہ میں گزشتہ 7سال سے بجلی نہیں ہے۔ مارکیٹ کی لائٹ جنریٹر سے چلتی ہے اور جنریٹر رات کو بند ہوجاتا ہے۔ لیکن پولیس بھتہ گروپ کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ قبل ایک واقعہ ایمپریس مارکیٹ میں بھی ہوا ہے۔ صدر ایمپریس مارکیٹ میں لگنے والی آگ کو تحقیقاتی اداروں نے تخریب کاری کی کاروائی قرار دیتے ہوئے تحقیقات شروع کردی ہے۔ فائر بریگیڈ نے روایتی طور پر آگ کو شارت سرکٹ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ایمپریس مارکیٹ میں بھتہ وصولی کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی کے درمیان اختلافات چل رہے تھے۔ ایمپریس مارکیٹ کے دکانداروں نے متحدہ کے یوم تاسیس کے موقع پر متحدہ کو بھتہ ادا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ متحدہ ایمپریس مارکیٹ کا کنٹرول اے این پی سے حاصل کرنا چاہتی تھی۔ متحدہ کے دہشت گردوں نے حضرت امام حسین کے چہلم کے موقع پر بھی ایک سازش کے تحت عزاداروں کے ہاتھوں ایمپریس مارکیٹ کو جلانے کی سازش کی تھی جو پولیس اور رینجرز نے ناکام بنادی تھی۔ تازہ واقعے میں صدر ایمپریس مارکیٹ میں آتشزدگی سے دس منٹ پہلے علاقے کی بجلی بند ہوگئی اور آگ کے شعلے بھڑکتے ہی بجلی آگئی۔

ایمپریس مارکیٹ میں آتشزدگی کے نتیجے میں سو سے زائد دکانوں اور پتھاروں کو نقصان پہنچا جبکہ تاریخی عمارت کا بڑا حصہ بھی آتشزدگی کے باعث متاثر ہوا ہے۔ صدر کی ایمپریس مارکیٹ میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب اچانک آگ بھڑک اٹھی جس نے ایمپریس مارکیٹ کی دکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس پر فائر بریگیڈ کو طلب کیا گیا اور فائر بریگیڈ نے مذکورہ آگ کو تین نمبر کی آگ قرار دیتے ہوئے آگ بجھانے کی کاروائی کی۔ اس دوران سو سے زائد دکانیں اور پتھارے جل کر خاکستر ہوگئے۔ آگ کے بعد فائر بریگیڈ کی جانب سے جو ابتدائی رپورٹ دی گئی، اس میں روایتی طور پر کہا گیا کہ آگ شارٹ سرکٹ کا نتیجہ ہے۔ تاہم اس حوالے سے فائر بریگیڈ نے یہ تحقیقات نہیں کی کہ آگ لگنے کا واقعہ تخریب کاری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق فائر بریگیڈ کی جانب سے عام طور پر جان چھڑانے کے لیے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ آتشزدگی شارٹ سرکٹ کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس ایسے ماہرین موجود نہیں ہیں جو آتشزدگی کی اصل وجوہات کا پتا لگا سکیں۔ اگر محکمہ فائر بریگیڈ کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھا جائے تو ان کی 95 فیصد رپورٹس یہی بتاتی ہیں کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی، جبکہ علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ ایمپریس مارکیٹ میں جس وقت آگ لگی اس وقت بجلی نہیں تھی، کیونکہ بجلی 3بج کر 30منٹ پر گئی اور 3بج کر 40 منٹ پر آئی، جبکہ فائر بریگیڈ کے پاس جو آگ لگنے کی اطلاع ہے، وہ بھی 3بج کر 40منٹ کی ہے، لیکن اس وقت آگ لگ چکی تھی۔ اگر 3بج کر 30منٹ پر بجلی نہیں تھی تو یہ شارٹ سرکٹ کیسے ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس تو ہوگا لیکن وہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے جواب دینے سے قاصر ہے۔

ذرائع کے مطابق صدر ایمپریس مارکیٹ کا علاقہ گزشتہ 8 برس سے متنازعہ بنا ہوا ہے۔ رینبو سینٹر کے سامنے سے شروع ہونے والی ایمپریس مارکیٹ جہانگیر پارک تک اے این پی کے کنٹرول میں ہے۔ اے این پی سے قبل یہ علاقہ متحدہ قومی موومنٹ کے زیراثر تھا اور دکانوں، پتھاروں سے بھتہ متحدہ قومی موومنٹ کو جاتا تھا۔ لیکن آٹھ سال قبل عمر فاروقی مارکیٹ سے اے این پی نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور عمر فاروقی مارکیٹ کا کنٹرول اپنے قبضے میں لے لیا، اور پھر ایمپریس مارکیٹ کا سارا علاقہ ہی اے این پی کے کنٹرول میں آگیا۔ اے این پی نے 5سال قبل یہاں اپنا یونٹ 37 قائم کرلیا اور ایمپریس مارکیٹ سے متحدہ کو باہر نکال دیا۔ متحدہ کا ایمپریس مارکیٹ سے بھتہ ختم ہوگیا اور اے این پی نے وہاں سے بھتہ لینا شروع کردیا جس پر متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوا۔ متحدہ نے شہری حکومت کے ذریعے تجاوزات کے نام پر پشتو بولنے والے پتھارے داروں کے خلاف کاروائیاں بھی کرائیں جس پر سخت احتجاج ہوا اور بعد ازاں متحدہ اپنی سازش میں ناکام ہوگئی۔ اس صورت حال میں متحدہ کی جانب سے پولیس کے ذریعے بھی اے این پی کے خلاف کاروائی کی کوششیں کی گئیں، لیکن متحدہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کے بعد متحدہ کے دہشت گردوں کے ذریعے بھی اے این پی کے خلاف کاروائی کی کوششیں کی گئیں، لیکن متحدہ اپنے منصوبے میں ناکام رہی۔ جس کے بعد حضرت امام حسین کے چہلم کا جلوس ایمپریس مارکیٹ کے قریب پہنچا تو اچانک فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بھگدڑ مچ گئی۔

اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ فائرنگ ایمپریس مارکیٹ سے ہوئی اور ایمپریس مارکیٹ کے سامنے نسوار بلڈنگ سے فائرنگ کرنے والوں کی نشاندہی بھی کی گئی۔ اس دوران عزاداروں کو اشتعال دلایا گیا کہ وہ ایمپریس مارکیٹ کے باہر پتھاروں اور دکانوں کو آگ لگا دیں۔ لیکن پولیس اور رینجرز کی جانب سے اس سازش کو بھانپ لیا گیا اور ایسے اقدامات کردیے گئے کہ ایمپریس مارکیٹ جلنے سے بچ گئی۔ ذرائع کے مطابق اس دوران چند پتھاروں کو آگ بھی لگائی گئی تھی، تاہم کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ مذکورہ واقعے کے بعد بھی متحدہ اور اے این پی کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں اور متحدہ کی یہ کوشش رہی کہ وہ ایمپریس مارکیٹ میں اپنا کنٹرول دوبارہ قائم کرلے، لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب متحدہ کا یوم تاسیس قریب آیا تو متحدہ کی جانب سے شہر بھر کی مارکیٹوں سے بھتہ وصول کیا گیا، اس دوران متحدہ کے صدر سیکٹر کے کارکنوں کی جانب سے ایمپریس مارکیٹ کے دکانداروں سے بھی بھتہ کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن دکانداروں نے متحدہ کو یوم تاسیس کے موقع پر بھتہ ادا کرنے سے انکار کردیا، جس کے بعد دکانداروں کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔

ذرائع کے مطابق تحقیقاتی اداروں کی جانب سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش شروع کردی گئی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی کے اختلافات کو بھی سنجیدگی سے دیکھا جارہا ہے۔ ایمپریس مارکیٹ میں دکانوں کی تعداد تو 300سے زائد ہے تاہم اتوار کی صبح لگنے والی آگ سے جہانگیر پارک کے سامنے والے حصے میں واقع 108دکانیں متاثر ہوئی ہیں۔ آگ پر تقریباً 12گھنٹے بعد قابو پایا جاسکا۔ آگ کے نتیجے میں مصالحہ جات کی 25 سے زائد، ڈرائی فروٹ کی ایک درجن، جوسز اور فریش فروٹ کی درجن سے زائد، سبزی کی 5دکانیں، 35 سے زائد جنرل اسٹور، مصالحہ جات اور ڈرائی فروٹ کے 18سے زائد گودام اور ایک ہوٹل متاثر ہوا۔ آتشزدگی کے نتیجے میں 50دکانیں اور ہوٹل مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور سامان جل کر راکھ ہوگیا۔ تباہ ہونے والی 80فیصد دکانیں پختونوں کی تھیں، جن کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ مارکیٹ میں 6 چوکیدار ڈیوٹی انجام دیتے ہیں جن میں سے 4 نجی گارڈز کے ایم سی گارڈز کی جانب سے تعینات کے گئے ہیں۔

ایمپریس مارکیٹ کے 4گیٹ ہیں۔ دکانداروں نے جو معلومات فراہم کی ہیں ان کے مطابق ایمپریس مارکیٹ میں آتشزدگی، دہشت گردوں کی کاروائی ہے اور پختون افراد کو بے روزگار کرنے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر آگ لگائی گئی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ایک ذمہ دار کا کہنا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ میں آتشزدگی کا واقعہ کھلی دہشت گردی ہے۔ دکانداروں نے پارٹی ذمہ داروں کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ ان کو دھمکیاں مل رہی ہیں اور ان کی دکانیں جلادی جائیں گی یا ان کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ لائنز ایریا میں پارکنگ پلازہ کی تعمیر میں ناکامی کے بعد ایمپریس مارکیٹ کے عقب میں شہری حکومت پارکنگ پلازہ بنانا چاہتی تھی، تاہم ایمپریس مارکیٹ میں موجود دکاندار اپنی دکانیں خالی کرنے پر اس لیے تیار نہیں تھے کہ گزشتہ 45برس سے وہ یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ دکاندار اپنے کاروبار کے لیے متبادل جگہ فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور اس حوالے سے ہائی کورٹ میں کیس چل رہا ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا تھا کہ جب مارکیٹ کی دکانیں مکمل بند ہوجاتی ہیں تو چوکیدار چاروں اطراف کے گیٹ بند کر کے تالے لگا دیتے ہیں اور دکانوں کی بجلی بند کردی جاتی ہے۔

دکانداروں کے مطابق اتوار صبح تقریباً ساڑھے تین بجے ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کے علاقے کی بجلی چلی گئی اور اس دوران ایمپریس مارکیٹ کے چوکیداروں نے دیکھا کہ دکانوں سے چنگاریاں نکل رہی ہیں۔ انہوں فوری طور پر حالات جاننے کی کوشش کی۔ تقریباً 10منٹ تک بجلی بند رہی اور جب ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کے علاقوں کی بجلی آئی تو اس وقت تک آگ شدت اختیار کرچکی تھی اور پھر فائر بریگیڈ کو اطلاع دی گئی۔ دکانداروں نے بتایا کہ اس سے قبل شہری حکومت بار بار دکانداروں کو سٹی وارڈنز کے ذریعے دھمکا رہی تھی۔ اے این پی سندھ کے ترجمان قادر خان کا کہنا تھا کہ وہ واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور جوڈیشل انکوائری کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک انکوائری رپورٹ نہیں آتی اس وقت تک متاثرہ دکانداروں کو متبادل روزگار فراہم کیا جائے اور معاوضہ دیا جائے، کیونکہ ایمپریس مارکیٹ کی انتظامیہ ہر دکاندار سے ماہانہ فنڈز کے نام پر رقم لیتی ہے۔ ایمپریس مارکیٹ سے متصل صدر فائر بریگیڈ اسٹیشن کے ذمہ دار نے بتایا کہ اتوار کی علی الصبح 3بج کر 40منٹ پر انہیں اطلاع دی گئی کہ دکانوں میں آگ لگی ہے، اور جب وہ پہنچے تو ایمپریس مارکیٹ چاروں طرف سے بند تھی۔ گیٹ پر تالے لگے تھے اور چوکیدار غائب تھے۔ اس لیے دکانوں میں لگی آگ شدت اختیار کر گئی۔ ان کہنا تھا کہ دکانوں کے اطراف گرل والے گیٹ لگے ہیں۔ ان کے اندر سے جلتی دکانوں پر پانی پھینکا گیا تھا اور کافی دیر بعد فائر مینوں نے گرل والے دروازے اور چند تالے توڑے۔

فائر بریگیڈ کے نمائندے کا کہنا تھا کہ صبح 5بجے تک آگ کی شدت کو دیکھتے ہوئے اسے 3نمبر کی آگ قرار دے کر شہر بھر کی فائر بریگیڈ گاڑیاں طلب کرلی گئیں۔ فائر آفیسر توحید کے مطابق آگ شارٹ سرکٹ سے لگی تھی، کیونکہ زیادہ تر دکانداروں نے کنڈے سے بجلی حاصل کر رکھی ہے اور ان کی غفلت کی وجہ سے نقصان ہوا ہے۔ اس تمام صورت حال پر تاجروں نے بھتہ خوری کے خاتمے کے لیے حکومت سے ایک ٹاسک فورس بھی قائم کروا لی ہے جس میں پولیس، رینجرز اور حساس اداروں کے افسران شامل ہیں، تاہم اس کے باوجود اب ملزمان اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ انہوں نے تاجروں کے بعد سرکاری افسران سے بھتہ طلب کرنا شروع کردیا ہے۔ شہری حکومت کے ذرائع کے مطابق بھتہ گروپ نے کراچی شہری حکومت کے متعدد ڈپارٹمنٹس جن میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، واٹر بورڈ، ورکس اینڈ سروسز، ای اینڈ آئی پی، تعلیم وصحت، میونسپل سروسز، لیاری ڈویلپمنٹ، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی شامل ہیں، کے افسران سے باقاعدہ رابطہ کیا ہے اور رقم کے بجائے اسلحے کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق بھتہ گروپ کے پاس 14سے 18گریڈ تک کے تمام افسران کا مکمل ریکارڈ موجود ہے اور بھتہ بھی انہی گریڈ کے افسران سے لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شہری حکومت کراچی کے 14سے 18گریڈ تک کے اچھی آمدنی والی نشستوں پر براجمان ان افسران سے دفاتر کے بجائے گھروں میں رابطہ کیا گیا ہے اور دھمکیاں دی گئی ہیں۔ متعدد افسران نے بھتہ گروپ کے مطالبات پورے کردیے ہیں جبکہ کچھ افسران نے اپنے اعلیٰ افسران کو صورت حال سے آگاہ کردیا ہے، تاہم تمام افسران نے خوف کے باعث خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
abu samee
About the Author: abu samee Read More Articles by abu samee: 3 Articles with 1565 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.