سیاحت، ثقافت، ڈیری اینڈ لائیو
اسٹاک، اور تعلیم سمیت مزید پانچ وزارتیں صوبوں کو منتقل کئے جانے کے
نوٹیفیکیشن کے بعد ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو دفنانے کی تیاریاں مکمل دکھائی
دیتی ہیں، حکومتی اقدام اور اس کے رد عمل کے طور پر ملک بھر میں سامنے آنے
والا شدید رد عمل اپنی جگہ لیکن اہم سوال یہ سامنے آیا ہے کہ جب ایچ ای سی
کے امور وفاقی قانونی فہرست کے دائرے میں آتے ہیں تو اسے منتقل کیوں کیا جا
رہا ہے۔ حتیٰ کہ چیئرمین ایچ ای سی مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے
ہمراہ میاں رضا ربانی اور ان کی کمیٹی کو ایچ ای سی کی حیثیت سے متعلق واضح
تصویر پیش کرنے کیلئے پرسنٹیشن بھی دے چکے ہیں تاہم اسکا کوئی فائدہ نہیں
ہوا۔ ایچ ای سی سے متعلق حالیہ پیش رفت کے نزدیک ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں
نے کوئی وجہ نہیں بتائی بس اتنا کہا کہ وہ ایچ ای سی کو منتقل کر رہے ہیں۔
چیئرمین ایچ ای سی جاوید لغاری کی جانب سے 30 مارچ 2011ءکو رضاربانی کو
لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ایچ ای سی 18 ویں ترمیم اور منتقلی کے عمل
کی حمایت کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی قانونی فہرست کے پارٹ I کے 17,16
اور 32 جبکہ پارٹ II کے 12, 11, 7, 6 اور 32 ویں آئٹم ایچ ای سی کے حالیہ
امور کی حمایت کرتے ہیں ان میں ہائر ایجوکیشن، ریسرچ، سائنسی اور تکنیکی
ادارے، انتظامی کردار، منصوبہ بندی، پیشہ ورانہ تعلیم اور بین الصوبائی
معاملات شامل ہیں۔ 18ویں ترمیم پر عمل درآمد کیلئے ایچ ای سی کے حالیہ امور
اور انکے وفاقی قانونی فہرست سے تعلق پر مشترکہ طور پر نظرثانی کی جائے اور
ایچ ای سی کی حالیہ قومی ادارے کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے۔ ایچ ای سی کے
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایچ ای سی کو منتقل نہیں کیا جا رہا بلکہ اسے تقسیم
کیا جا رہا ہے اور اسکے اہم امور مختلف وفاقی وزارتوں کو سونپ دیئے جائیں
گے۔
چیئرمین ایچ ای سی جاوید لغاری کا اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ ایچ ای سی 18ویں
ترمیم کی حمایت کرتی ہے لیکن وفاقی قانونی فہرست کے دائرے میں آنے والے
امور ایچ ای سی کے پاس ہی رہنے چاہئیں۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ ایچ ای سی کے
خاص نوعیت کے تعلیمی معاملات کو سنھبالنے کا کوئی لائحہ عمل واضح نہیں کیا
گیا باالخصوص جبکہ ایسے اداروں کو معاملات دیئے گئے ہیں جنہیں تعلیم کا
کوئی تجربہ نہیں، ڈگریوں کی تصدیق، ڈاکٹریٹ کا معیار اور ڈگریوں کی
ایکویلنس کے معاملات کابینہ ڈویژن دیکھے گا۔ اسی طرح اسلام آباد اور اسکے
مضافات میں قائم یونیورسٹیوں کے معاملات اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری دیکھے گا
جبکہ بیرون ممالک اسکالر شپس کے معاملات وزارت بین الصوبائی رابطہ سنبھالے
گی۔ ایچ ای سی کے سابق چیئرمین پروفیسر عطاءالرحمن کا کہنا ہے کہ کرپٹ
سیاست دانوں کی نظریں ایچ ای سی کے سالانہ 40/ارب کے بجٹ اور اربوں روپے
مالیت کی املاک پر ہیں اور وہ ایچ ای سی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن پنجاب
اور خیبر پختونخوا اس کی تحلیل کے خلاف ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب تعلیم یافتہ ہونا افراد ہی نہیں اقوام کی ترقی کے لئے
بھی لازمی شرط مانا جا چکا ہے، وفاق کی جانب سے پہلے کمیشن کے بجٹ میں قابل
ذکر اضافہ کرنے کے بجائے سات ارب روپے کی کٹوتی اور پھر اس کی تحلیل
انتہائی شرمناک اقدام ہے۔تعلیمی حلقے ان اقدامات کو حکومتی عدم دلچسپی سے
تعبیر کرتے ہوئے اسے تعلیمی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں جو یقینی طور پر بجا
ہے کیونکہ سابق دور حکومت میں قائم ہونے والے ہائیرایجوکیشن کمیشن کی
کارکردگی کے حوالے سے دیکھیں تو کمیشن نے جہاں ملک میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے
میں نئی جہتیں متعارف کرائیں وہیں فروغ تعلیم کے سلسلسے میں بھی اس کی
کارکردگی قابل ستائش رہی۔ اس کے قیام کے بعد عالمی جرائد میں سائنسی مقالہ
جات کی اشاعت میں چھ سو فیصد اضافہ ہوا، کمیشن کے تحت محققین کو بہترین
تحقیقی مواد ، تحقیقی جرائد اور کتب تک رسائی بذریعہ ڈیجیٹل لائبریری مہیا
کی گئی جبکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہی کے اقدامات کے باعث پاکستانی جامعات
کو دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ یہ
کمیشن کی ہی محنتوں اور اقدامات کا ثمر ہے کہ ورلڈ بنک ، یو ایس ایڈ اور
برٹش کونسل کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹس میں ایچ ای سی کو خاموش
انقلاب سے تعبیر کیا گیا۔
تعلیمی میدان میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی انقلابی تبدیلیوں ہی کی بدولت
پاکستان کو اکیڈمی فار سائنسز اینڈ ڈیولوپمنٹ اور آسٹرین سول ایوارڈ سمیت
کئی عالمی اعزازات حاصل ہوئے۔ کمیشن کے قیام کے بعد پاکستانی جامعات میں پی
ایچ ڈی فیکلٹی ممبران کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا حتٰی کہ بھارتی
اخبار ہندوستان ٹائمز نے کمیشن کو Pak threat to Indian scienceقرار
دیا۔انیس سو سینتالیس سے لے کر دو ہزار تین تک بچپن سال کے عرصہ میں ملک
میں کل تین ہزار دو سو اکیاسی افراد نے پی ایچ ڈی کی جبکہ دو ہزار تین میں
کمیشن کے قیام کے بعد سے لے کر دو ہزار نو تک صرف سات سال کے عرصہ میں تین
ہزار سینتیس افراد یہ ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اقتدار کے ایوانوں
میں بیٹھے جعلسازوں کو بے نقاب کرنے کا سہرہ بھی ہائیرایجوکیشن کمیشن ہی کے
سر ہے۔ ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو اس کی تحلیل
پراٹھائے جانے والے اعتراضات جہاں درست دکھائی دیتے ہیں وہیں یہ سوال بھی
پیدا ہوتا ہے کہ کیا کمیشن کی صوبوں کو حوالگی کے بعد بھی کارکردگی کا
معیار برقرار رہ سکے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تعلیمی ترقی انقلاب کی
بنیاد رکھنے والے قومی ادارے کی تحلیل کے بعد نفی ہی میں نظر آرہا ہے۔
تعلیمی دشمنی کی روش اپنائے وفاقی حکومت کی اس معاملے پر مکمل خاموشی اور
”میں نہ مانوں“ کی پالیسی تو یہی ثابت کر رہی ہے کہ اس کو جعلی ڈگریاں
رکھنے والے اپنے اور اتحادی ارکان کا بھانڈا پھوٹنے کا غم ہے اور وہ اسی غم
کو غلط کرنے کے لئے کمیشن کو نشان عبرت بنانے پر تلی بیٹھی ہے لیکن مستقبل
میں اس کے کیا منفی اثرات سامنے آئیں گے اس کا ادراک اقتدار کے ایوانوں میں
براجمان ٹولے کو نہیں اس لئے ان سے یہ تو نہیں پوچھا جاسکتا کہ وہ قوم کو
کدھر لے جارہے ہیں البتہ جس راستے پر ہم چل نکلے ہیں وہ یقیناً پتھر کے دور
ہی میں واپس جائے گا۔ |