شیخ سعدیؒ ایک حکایت میں تحریر
کرتے ہیں کہ ایک شخص کشتی لڑنے کے فن میں مشہور تھا وہ 360داﺅ پیچ جانتا
تھا اور ہر روز ان میں سے ایک داﺅ کے ساتھ کشتی لڑتا تھا وہ اپنے ایک شاگرد
پر بہت مہربان تھا اسلئے اس نے اس کو 359داﺅ سکھا دیئے اور صرف ایک داﺅ
اپنے پاس رکھا وہ نوجوان کچھ عرصہ میں ایک زبردست پہلوان بن گیا اور دور
دور تک اس کی شہرت پھیل گئی ملک بھر میں کسی پہلوان کو اس کا مقابلہ کرنے
کی جرات نہ ہوتی تھی ۔ ایک دفعہ اس نوجوان نے اپنی طاقت کے نشے میں بادشاہ
وقت سے کہا کہ استاد کو مجھ پر جو فوقیت حاصل ہے وہ اس کی بزرگی اور تربیت
کے حق کی وجہ سے ہے ورنہ میں طاقت اور فن میں اس سے کم نہیں ہوں ۔ بادشاہ
کو اس کی یہ گستاخی پسند نہ آئی اور اس نے استاد اور شاگرد میں کشتی کرانے
کا حکم دیا ۔ مقرر دن کو دنگل کے لئے شاہانہ انتظامات کیے گئے اور دنگل
دیکھنے کے لئے بادشاہ ، حکومت کے عہدیدار ، دربار کے افسر اور ملک بھر کے
پہلوان جمع ہوئے نوجوان مست ہاتھی کی طرح دنگل میں آیا ۔ ایسا معلوم ہوتا
تھا کہ وہ پہاڑ کو بھی اکھاڑ سکتا ہے ۔ بوڑھا استاد سمجھ گیا کہ نوجوان
شاگرد قوت میں اس سے بڑھ چکا ہے تاہم وہ اس داﺅ سے جو اس کے پاس موجود تھا
نوجوان کے ساتھ بھڑ گیا اور نوجوان شاگرد چونکہ اس داﺅ کا توڑ نہیں جانتا
تھا استاد نے اس کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا کے زمین پر پٹخ دیا ہر طرف واہ
واہ کا شور مچ گیا ۔ بادشاہ نے استاد کو بیش بہا خلعت اور انعام سے سرفراز
کیا اور نوجوان کو ملامت کی کہ تو نے اپنے محسن استاد سے مقابلہ کیا اور
ذلیل ہوا ۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت میرا استاد اپنی طاقت کی وجہ سے مجھ
پر غالب نہیں آیا بلکہ اس نے مجھ سے کشتی کا ایک داﺅ چھپا رکھا تھا اور اسی
داﺅ کی وجہ سے وہ جیت گیا۔ استاد نے کہا کہ اسی دن کے لئے میں نے یہ داﺅ
بچا رکھا تھا کیونکہ داناﺅں کا قول ہے کہ ”اپنے دوست کو اتنی طاقت نہ دے کہ
کل وہ تجھ سے دشمنی کر سکے “یہ دنیا بے وفاﺅں سے بھری پڑی ہے ۔۔۔
قارئین مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس کا سیاسی میدان ہو یا علمی ، ادبی اور
قلمی میدان دیکھیں تو بے وفائیاں اور پیٹھ پر وار کرنے کی کئی داستانیں
ہمیں نظر آئیں گی ۔ یہاں بے وفا کون ہے اور وفا کا علم کس نے بلند کیا ہے
اس کا فیصلہ فکر و نظر رکھنے والے لوگ ہی کریں گے ۔ جہاں آزاد کشمیر میں اس
وقت سیاسی میدان میں گرما گرمی بڑھتی چلی جا رہی ہے وہیں پر علمی و فکری
میدان میں بھی ایک جنگ کی سی کیفیت ہے ۔ گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے معاشی دل
میرپور کے کچھ صاحبان علم اکھٹے ہوئے اور سوچا گیا کہ قلم کی مزدوری کرنے
والے مجاہدوں کے لئے ایک بے لوث ، نظریاتی اور محب وطن تنظیم تشکیل دی جائے
۔ معروف نوجوان کالم نگار فریاد بشیر چوہدری اور سینئر کالمسٹ رضا علی خان
سر جوڑ کر بیٹھے اور درد دل کے ساتھ انہوں نے ”قلم وفکر“ کے نام سے
لکھاریوں کا ایک پلیٹ فارم تشکیل دے دیا ۔ قلم و فکر کے نام کا سامنے آنا
ہی تھا کہ طعن و تشنیع کے پتھروں کےساتھ محبت نامے بھی موصول ہونا شروع ہو
گئے۔ یہ دونوں لکھاری انتہائی بے لوث اور محبت کرنے والے اہل دل ہیں اور
مجھے بھرپور امید ہے کہ ”قلم و فکر“ آنے والے دنوں میں قلمی مزدوروں کے لئے
اپنا موثر ترین کردار ادا کریگا۔ میری دعائیں اس تنظیم کے ساتھ ہیں اور اس
وقت کئی سینئر اور جونیئر لکھاری ”قلم و فکر“ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں
اور آنے والے دنوں میں یہ تنظیم بہت ترقی کرے گی اللہ اسے نظر بد سے بچائے
۔ آمین۔
قارئین یہاں آپ کی دلچسپی کے لئے یہ بھی بتاتے چلیں کہ سیاسی میدان اس وقت
سج چکا ہے اور الیکشن 2011ءکے سلسلہ میں ہماری سیاسی جماعتیں جہاں سیاسی
وفاداریاں اور ووٹ خریدنے کی کوششیں کرتی ہیں وہیں پر عوامی رائے پر اثر
انداز آواز اور تحریر یعنی میڈیا کو بھی خریدنے یا اپنے حق میں رام کرنے کی
کوششیں عروج پر پہنچتی جا رہی ہیں ۔ وہ تمام کالم نگار اور تفتیشی صحافت
کرنے والے لوگ جو عوامی رائے کو تبدیل کرتے ہیں ان کی بولیاں بھی لگیں گی ،
ان کے بینک اکاﺅنٹس کے نمبر بھی لیے دئیے جائیں گے اور پلاٹ بھی الاٹ ہوں
گے ۔ یہاں پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن کو حتیٰ
الامکان اس بے ایمانی سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور
صحافیوں ، کالم نگاروں اور تحریروں کی خریدو فروخت پر پابندی لگانے کے ساتھ
ساتھ نظر بھی رکھی جائے پاکستانی سیاست میں بد قسمتی سے میڈیا بھی سیاسی
تنظیموں کے ساتھ وفاداریاں رکھتا ہے اور واضع طور پر قارئین جانتے ہیں کہ
کون سے کالم نگار ، اخبار اور صحافی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ اور ان
کے پے رول پر ہے لیکن یہاں سلام پیش کرنا چاہیے ان غیر جانبدار کالم نگاروں
، صحافیوں ، شاعروں ، ادیبوں ، اخبارات اور ٹی وی چینلز کو جو ترغیب و
تحریص کی تمام آزرانہ دعوتوں کو ٹھکرا کر غیر جانبداری کے ساتھ سچ اور سوچ
کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔
قارئین آزاد کشمیر میں الیکشن 2011کے لئے 29جون کی تاریخ کا سرسری سا اعلان
تو کیا جا چکا ہے لیکن شنید یہی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کی یہ
خواہش کہ الیکشن مئی 2011ءہو جائیں پورا ہونا ناممکن ہے اور جون یا جولائی
میں ہی الیکشن کا انعقاد ممکن ہے اور اس سب بات کا سہرا حکمران مسلم
کانفرنس اور مسلم لیگ ن کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے وزیر امور کشمیر منظور
وٹو کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی ۔ یہاں لبریشن لیگ اور جماعت اسلامی کا
ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جنہوں نے اصولی سیاست کرتے ہوئے اصولی موقف
اپنایا اور ریاستی جماعتوں کے موقف کی ترجمانی کی ۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ آنے والے دنوں میں بہت بڑے
سیاسی دھماکے ہونے والے ہیں اور مسلم کانفرنس اور پاکستان پیپلزپارٹی کے
بہت سے کارکنان پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں ۔
پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کوارڈینٹر اور پی ایم ایل این پاکستان کے
ترجمان صدیق الفاروق اور سابق سپیکر شاہ غلام قادر نے یہاں تک اعلان کیا ہے
کہ ہم تک لاتعداد درخواستیں پہنچ چکی ہیں جن میں سیاسی قائدین نے مسلم لیگ
ن میں شمولیت کے لئے اپنی خواہشات کا اظہار کیا ہے لیکن مسلم لیگ ن میرٹ پر
صاف ستھرے لوگوں کو جماعت میں شامل کریگی ۔ نگاہ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے
دیکھئے کیا ہوتا ہے بقول غالب۔۔۔
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
قارئین باوجود اس کے کہ معمولی فہم و فراست رکھنے والا سیاسی ورکر بھی اس
وقت پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے”پانچ بڑوں “ کے درمیان ہونے والی
کھینچا تانی کو آسانی سے دیکھ سکتا ہے پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی صدر
چوہدری عبدالمجید نے اعلان کیا ہے کہ ان کے بیر سٹر سلطان محمود چوہدری کے
ساتھ کسی قسم کے اختلافات نہیں ہیں اور ان کی جماعت الیکشن 2011ءمیں اتفاق
و اتحاد کے ساتھ لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کریگی اور دو تہائی اکثریت بھی
حاصل کریگی اور میرپور ڈویژن میں بارہ کی بارہ نشستیں جیتنے کے لئے وہ
پلاننگ کر رہے ہیں اس واشگاف اعلان کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی کا ایک
عام ورکر اس وقت شدید ترین بے چینی اور تذبذب کا شکار دکھائی دے رہا ہے اور
اعلیٰ قیادت کا آپس میں چپقلش کا نقصان پیپلزپارٹی اٹھا رہی ہے اور یہی وجہ
ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پیپلزپارٹی کے کارکنان دلبرداشتہ ہو کر
جیالے سے متوالے بن جائیں اور پاکستان مسلم لیگ ن کی صورت حال کا فائدہ
اٹھا لے ۔ یہاں وفاقی حکومت اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو خود اس سب
منظر نامے میں ظاہر ہو کر پیپلزپارٹی کے قائدین کی اس کھینچا تانی کو روکنا
ہو گا اگر پاکستان پیپلزپارٹی واقعی تخت کشمیر پر براجمان ہونا چاہتی ہے ۔
قارئین مسلم کانفرنس شکست و ریخت کے عمل کا شکار ہو کر روز بروز تقسیم در
تقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے اور ٹوٹنے والے تمام عہدیداران اور سیاسی
کارکنان اس وقت مسلم لیگ ن میں شامل ہو رہے ہیں یہاں اس بات کا ذکر کرنا
بھی برمحل ہے کہ سابق وزیراعظم فاروق حیدر اور سردار سکندر حیات خان اپنی
نیشنلسٹ سوچوں کی وجہ سے قومی جماعتوں میں بھی نسبتاً زیادہ مقبولیت رکھتے
ہیں اور قوم پرست تنظیمیں بھی مسلم لیگ ن کو فائدہ پہنچائیں گی ۔
قارئین یہ تو وقت فیصلہ کریگا کہ مسلم لیگ ن مسلم کانفرنس اور پاکستان
پیپلزپارٹی میں کون فتح یاب ہو گا ،کون حکومت بنائے گا اور کون اپوزیشن کی
سیٹ سنبھالے گا ۔ سردار عتیق احمد خان نے سواداعظم جماعت کو جس طریقے سے
ذاتیات کی نذر کیا اس سلسلہ میں ان کے کردار کا جائزہ تو مستقبل کا مورخ ہی
لے گا لیکن اس وقت زمینی حقائق اور ہوا کا رخ مسلم کانفرنس کو عبرت کا نشان
بنا رہے ہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک نئی نویلی دلہن نے پہلی مرتبہ اپنے ہاتھ سے کھانا پکایا اور اپنے شوہر
کو کھانا کھلاتے ہوئے انتہائی محبت سے پوچھا ۔
”ڈارلنگ اگر میں آپ کو روزانہ ایسا کھانا کھلاﺅں تو مجھے انعام میں کیا ملے
گا “
شوہر نے تیز مرچوں کی وجہ سے آنکھوں میں آتے ہوئے آنسو صاف کیے اور بھرائی
آواز میں جواب دیا ۔
”میرے بیمہ کی رقم اور وہ بھی بہت جلد ۔۔۔“
قارئین مسلم کانفرنس کے بیمے کی رقم دیکھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو ملتی ہے
یا پاکستان پیپلزپارٹی کو ۔فیصلہ آزاد کشمیر کے تیس لاکھ ووٹرز کے ہاتھ میں
ہے اور آزاد کشمیر کے ووٹرز اب علاقائی عصبیت ، برادری ازم اور دیگر تمام
تفرقوں سے نکل چکے ہیں اور معاہدہ منگلا ڈیم ، معاہدہ اپ ریزنگ ، منگلا ڈیم
کی رائیلٹی اور کشمیری قوم کے حق حکمرانی کی بات اس وقت چوکوں چوراہوں سے
لیکر سیاسی جلسوں تک ہر پلیٹ فارم پر کی جا رہی ہے ۔ اب کوئی بھی جھوٹے
جذباتی نعرے لگا کر کشمیری قوم کو بیوقوف نہیں بنا سکتا ۔ اب بات ہو گی تو
سیاسی دیانتداری ، دانشمندی اور ایجنڈاز کی اور تمام سیاسی تنظیمیں اس وقت
عوامی عدالت میں ووٹ کی اپیل لئے کھڑی ہیں عوام جو بھی فیصلہ کریں یہ سوچ
لیں کہ ان کا ایک ووٹ ان کے آئندہ کے پانچ سال سنوار بھی سکتا ہے اور بگاڑ
بھی سکتا ہے ۔ |