ریاست میں اقتدار اعلیٰ کی سرد جنگ․․!

پاکستان دو سال سے شدید بحران کی زد میں رہا ہے ۔عام شہری اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے،لیکن ملک میں کوئی ایسی طاقت موجود نہیں جو عوام کو تسلی دے سکے کہ یقیناً ان کے مسائل کا جلد تدارک ہو جائے گا۔پاکستان کے وجود میں آتے ہی یہ کھینچا تانی شروع ہو چکی تھی کہ ریاست اعلیٰ کا حقیقی حق دار کون ہے ؟یہ سردجنگ تسلسل کے ساتھ جاری رہی اور آج بھی یہ طے نہیں پا رہا کہ ریاست کا اقتدار اعلیٰ کس کے پاس رہے؟ابتدا میں سیاستدانوں کو ہٹا کر نوکر شاہی نے ریاست پر قبضہ جما لیا۔نوکر شاہی کے ترجمانوں نے سیاسی اداروں کو کمزور کر کے انہیں بے وقعت بنا یا۔نوکر شاہی کی بار بار سیاسی عمل میں مداخلت اور پھر فوج کا ریاست پر مارشل لاء لگانے سے ملک میں کوئی قدآور سیاسی شخصیت پیدا نہ ہو سکی۔یہی وجہ بنی کہ عوام صرف نعروں ،وعدوں ،دعووں اور خواب دکھانے والوں کے پیچھے لگ گئے۔آج ملک میں مسائل کا مقابلہ اور مصائب ختم کرنے والی کوئی طاقت موجود نہیں ہے ۔عوام لاوارث کی طرح بھوک ،افلاس اور بے قراربھٹک رہی ہے۔عوام جسے اپنا محافظ سمجھتے ہیں وہی لٹیرا نکلتا ہے ۔

پاکستان کی معیشت بحران سے نکلنے کا نام نہیں لے رہی اور ان حالات میں دور دور تک معاشی بحران سے نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ۔ملک سودی قرض کے بوجھ میں دن بہ دن دبتا جا رہا ہے۔ہماری اپنی پیداواری صلاحیت روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔روپے کی قدر ایشیا کے دیگر ممالک سے کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ملک پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے ۔جس سے 70فیصد لوگوں جن کا تعلق زراعت سے ہے،وہ متاثر ہوں رہے ہیں۔اس مسئلے کے لئے کوئی سنجیدہ حکمت عملی نہیں اپنائی جا رہی ہے ۔صنعت کا شعبہ بدترین حالات سے گزر رہا ہے اور اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ہنر مند تعلیم کا فقدان ہے،دنیا کے دیگر ممالک روز بروز اپنے نئے وسائل پیدا کر رہے ہیں اور موجودہ وسائل پر جدّت لا رہے ہیں،مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کے تمام اعلیٰ ادارے خود کو افلاطون اور مکمل مانتے ہیں،ان کی یہی غیر ضروری خود اعتمادی انہیں کمزور کر رہی ہے۔پاکستانی اداروں میں انقلابی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہر ادارے کو اپنے فرائض چھوڑ کر دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے کی روش کو چھوڑ کر اپنے فرائض پر بھر پور توجہ دینی ہو گی اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاحات کو بہتر کرنا ہو گا۔ورنہ وزراء اعظم بے جا ثواب دیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے فیصلے کریں گے،جج صاحبان ڈیم بنوائیں گے،جاہل لوگ سکول کھولیں گے،اَن پڑھ صحافی بنیں گے،غنڈہ گردی کرنے والے وکیل ،قصاب ہسپتالوں میں جراحت کریں گے،پٹواری اعلیٰ تعلیم یافتہ کو سیکھائیں گے۔ہم نے ریاست کو تجربہ گاہ بنا دیا ہے ۔

نئے تجربات کی روش نے ملک و قوم کر برباد کر کے رکھ دیا ہے۔یہ وہی ملک تھا جب اس کی ترقی کی رفتار دنیا کو پریشان کر رہی تھی،دوسرے ممالک پاکستان سے ترقی کرنے کا ہنر سیکھنے کے لئے آتے تھے،لیکن آج ہمارے وزیر اعظم ہر ملک کی کسی نہ کسی بات کو سیکھنے کے لئے ترستے پھر رہے ہیں ۔پاکستان کو کسی ٹرینی کی نہیں بل کہ تجربہ کار لوگوں کی عملی ضرورت ہے جو اپنے فہم و تفہیم سے ملک کو ترقی کے راستہ پر گامزن کرنے اورجو عوامی مسائل کو حل کرنے کی بھر صلاحیت رکھتے ہوں ۔2018 ء کے انتخابات پر دانشور اور وطن پرست لوگ چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ جو طاقتیں ملک میں یہ نیا تجربہ کر رہی ہیں،اس کا ملک و قوم کو نا قابل تلافی نقصان ہو گا۔یہ انتخاب ایک غیر جماعتی یا یک جماعتی چناؤ تھا۔ایک نیا تجربہ کیا اور وہ بری طرح ناکام ہوا ہے ۔جس کے نتیجے میں ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے، جہاں صورت حال گھمبیر ہو چکی ہے۔ملک اندرونی اور بیرونی بحرانوں کا شکار ہے ۔معاشی بدحالی ،مہنگائی،بے روزگاری،ملکی مسائل کا انبار تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے ۔ایسے حالات میں حکومتی ٹیم کی نا اہلی نئے نئے بحران پیدا کر کے ملک کو کمزور کر رہی ہے ۔ہر روز کوئی نہ کوئی نا اہلی سامنے آتی ہے ،اس پر حکومت کی ہٹ دھرمی والا رویہ تبدیل نہیں ہو رہا ۔جس کی وجہ سے مسائل پیچیدہ ہو رہے ہیں۔

ایسے حالات میں آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ آیا ۔حکومت کی گھبراہٹ اور نالائقی نے ایک بڑے ادارے کے سربراہ کی توسیع کو تماشہ بنا دیا ہے ۔اوّل تو چیف آف آرمی سٹاف کو توسیع دینا ہی نہیں چاہیے ۔کیوں کہ ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج مانی جاتی ہے ۔ہمارا ہر جرنیل قابلیت کے لحاظ سے اعلیٰ ہے ۔چناں چہ حکومت کو اپنی خواہشات کو تکمیل پورا کرنے کے لئے ایک ادارے کے سربراہ کے وقار کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے تھا۔یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے اس مسئلے کو سنجیدہ لیا کیوں کہ ماضی میں جرنیل دس دس سال توسیع لیتے رہے ہیں۔جب تک اداروں میں آئین و قانون کی اہمیت نہیں سمجھی جائے گی ۔حالات بہتر ہو ہی نہیں سکتے ۔عدلیہ نے ملکی مفاد میں اچھا اقدام اٹھایا ہے کہ کم از کم ایک بڑے ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے قوائد و ضوابط تعین کیے جائیں،لیکن جن حالات سے گزرا جا رہا ہے اس میں سازشوں کی بدبو آ رہی ہے ۔جمہوریت پر شب خون مارنے کی طرف قدم بڑھنے لگتے ہیں۔خدانا خواستہ ایسا ہوا تو ملک میں رہی سہی طاقت بالکل ختم ہو جائے گی۔جمہوری نظام کا استحکام ہی پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم کو اپنے ارد گرد مشکوک اور پس ماندہ ذہن رکھنے والے لوگوں پر گہری نظر دوڑائیں،ان کی جانب سے تسلسل سے غلطیاں ملک و قوم کے لئے بڑی مشکلات کا سبب بن رہی ہیں۔عمران خان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں اقتصادی استحکام کے لئے سیاسی استحکام نا گزیر ہے ،لیکن بار بار یو ٹرن سبکی کا باعث بن رہے ہیں۔کاش عمران خان کرکٹ کے میدان سے باہر نکل آئیں اور سمجھ جائیں گے وہ جیسے بھی بنے ہیں اب بائیس کروڑ عوام کے وزیر اعظم ہیں ۔یہ کھیل کا میدان نہیں جس میں نت نئے تجربات اور غلطیاں کرنے سے صرف میچ ہارنا ہوتا ہے ،مگر یہاں ایک ملک کے وقار ، سالمیت اور پوری قوم کی زندگیوں کے معاملات ہیں۔یہاں ان کی ایک چھوٹی سی غلطی نسلوں کو بھگتنی پڑے گی ۔اس لئے ہوش کے ناخن لیں ۔اگر صلاحیت نہیں ہے تو وزیر اعظم کی لیسٹ میں ایک بار آ چکے ہیں ۔اب اس ملک و قوم کی جان چھوڑیں اور اپنے ریٹائرمنٹ کے دنوں کو ’’چِل‘‘کریں ۔

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109660 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.