رام بھکتوں کی آپسی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ جس دن سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین رام مندر بنانے والوں
کو دینے کا افسوسناک فیصلہ سنایا اسی دن دو سب سے بڑی ہندوتواوادی سیاسی
جماعتوں نے ایک دوسرے کو طلاق دے دی ۔ اسی کے ساتھ دونوں ایک دوسرے پر
ہندوتوا سے غداری کا الزام بھی لگا دیا ۔ اس کے بعد ان دونوں نے باری باری
سیکولر این سی پی کے ساتھ حکومت بنا کر اپنی رام بھکتی میں چار چاند لگا
دیئے۔ خیر سیاستدانوں سے قطع نظر ہندو سادھو سنتوں میں بھی رام مندر کی
تعمیر کو لے کبھی اتفاق رائے نہیں تھا لیکن چونکہ اس کا موقع نہیں تھا اس
لیے وہ نااتفاقی دبی رہتی تھی ۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ جنگ
چوراہے پر آگئی ہے۔ سادھو سنتوں کی اس لڑائی کا اگر مہاراشٹر میں بی جے پی
اور شیوسینا کی جنگ سے موازنہ کیا جائے تو اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ
کون سا مہایدھ زیادہ دلچسپ اور مضحکہ خیز ہے؟
عدالت نے حکومت کو ٹرسٹ قائم کرنے کا حکم دیا ہے کے اول تو تین عدد دعویدار
نیاس میدان میں ہیں مثلاً رام جنم بھومی نیاس، رام جنم بھومی رامالے نیاس
اور رام جنم بھومی مندرنرمان نیاس۔ ان کے علاوہ دگمبر اکھاڑا نے اعلان کیا
ہے کہ اس کے چیف مہنت سریش داس نے وزیراعلیٰ نے اس معاملے پر بات چیت کرنے
کے مقصد سے ملاقات کی ۔2003 میں انتقال سے پہلے دگمبر اکھاڑا کے سابق صدر
مہنت پرم ہنس رام چندر داس نیاس کے بھی صدر رہ چکے ہیں۔ اکھاڑا موجودہ ٹرسٹ
کو رام مندر تعمیر کی ذمہ داری دینے کے بجائے تشکیل نو کا قائل ہے۔ ان
چاروں کے علاوہ نرموہی اکھاڑے بھی تال ٹھونک کر دنگل میں آگیا ہے۔
نرموہی اکھاڑہ ویسے سب سے پرانا دعویدار ہےمگر اس کا دعویٰ عدالت نے ٹھکرا
دیا ۔ نرموہی اکھاڑے کی خام خیالی ہے چونکہ وہ اپنے کاموں کی تشہیر نہیں
کرسکا اس لیے اس کو داد نہیں ملی لیکن اس کی اصل وجہ سنگھ سے دوری ہے۔
عدالت نے اس پر یہ احسان ضرور کیا کہ ٹرسٹ میں اسے شامل کرنے کی تلقین
فرمادی۔ اس تنکہ کا سہارا لے کر نرموہی اکھاڑے نے رام مندر کی تعمیر کے لیے
بنائے جارہے نئے ٹرسٹ میں صدر یا سکریٹری کے عہدے کی خواہش کا اظہار کرتے
ہوئے وزیر اعظم کے دفتر میں خط لکھ دیا۔ اس کے برعکس سنگھ کے منظورِ نظر
رام جنم بھومی نیاس کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس کو یقین ہے کہ رام مندر
ٹرسٹ توانہیں کی صدارت میں بنے گا۔وہ نرموہی اکھاڑے کے بجائے وزیر اعظم
نریندر مودی یا وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جیسے لوگوں کو ٹرسٹ میں شامل
کرنے کے خواہاں ہیں۔ رام جنم بھومی رامالے نیاس کو یقین ہے کہ رام مندر کی
تعمیر کی ذمہ داری حکومت اس کو سونپے گی کیونکہ نرموہی اکھاڑے کے لیےٹرسٹ
میں سربراہی نہیں بلکہ نمائندگی دینے کی سفارش کی گئی ہے۔
اس بیچ یہ خبر آئی کہ ایودھیا میں رام مندر تحریک میں فعال کردار ادا کرنے
والے بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان رام ولاس ویدانتی نے’تپسوی جی چھاونی‘
کے مہنت پرم ہنس داس سے دورانِ گفتگو مندر ٹرسٹ کا سربراہ بننے کی خواہش
ظاہر کی۔ اتفاق سے یہ اظہار ایک آڈیو کلپ میں قید ہو گیا ۔ اس اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ کل یگ کے یہ راہب دورِ جدید کےوسائل ابلاغ استعمال کرنے میں
کس قدر ماہر ہیں؟اس دلچسپ آڈیو کلپ میں ویدانتی نے پرم ہنس سے کہا کہ، ’’آپ
یا تو میرے یا رامانند فرقے میں سے کسی ایک کے نام کی تجویز پیش کر سکتے
ہیں، ورنہ گورکش پیٹھ کا کوئی رکن (یوگی آدتیہ ناتھ) ٹرسٹ کا سربراہ بن
جائے گا‘‘۔ اس جملے سے پتہ چلتا ہے کہ ویدانتی اور وزیراعلیٰ کے تعلقات
ٹھیک نہیں ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یوگی کا کوئی آدمی ٹرسٹ کا سربراہ
بنے ۔ اس کے جواب میں پرم ہنس داس کو یہ کہتے سنا گیا کہ ، ’’نرتیہ گوپال
داس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ وہ رام مندر کی تعمیر کا پیسہ استعمال کرتے ہیں‘‘۔
اس کے علاوہ غیر مصدقہ آڈیو میں ان دونوں کو نرتیہ گوپال داس کے خلاف گالی
گلوچ تک کا استعمال کرتے ہوئے سنا گیا ۔
اس کے بعد انکشاف ہوا کہ خود پرم ہنس داس کے حامیوں نے اس آڈیو کو مشتہر
کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ویدانتی ٹرسٹ کی سربراہی حاصل کرنے کے
لئے سادھو سنتوں کو اکسا رہے ہیں۔ اس پیش رفت کے بعد نرتیہ گوپال داس کا
موقف بدل گیا۔ ویدانتی و پرم ہنس کو کنارے لگانے کی خاطر وہ سیدھے سیدھے
یوگی آدتیہ ناتھ کو مندر ٹرسٹ کا سربراہ بنانے کا اعلان کرنےلگے۔ انہیں پتہ
ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ بھلا کیوں ٹرسٹ کی صدارت قبول کریں گے مگر اس سے ان
کی سیاسی پوزیشن خاصی مضبوط ہوگئی ۔ اس آڈیو نے نرتیہ گوپال داس کے حامیوں
کو مشتعل کردیاا ور ساھو سنتوں کے درمیان ٹکراو شروع ہوگیا ۔ چھوٹی چھاؤنی
کے۲ درجن سے زائد سنتوں نے تپسوی چھاؤنی پہنچ کر ہنگامہ مچانے کے بعد مہنت
پرم ہنس داس کے گھر پر حملہ کر دیا۔ انہیں جبرا گھر سے باہر نکالنے کی کوشش
کی، لیکن وہاں موجود پولس فورس کی موجودگی کے سبب اپنے عزائم میں کامیاب نہ
ہوسکے ۔ انتظامیہ پرم ہنس کو باہر نکال کر اپنے ساتھ محفوظ مقام پر ضلع سے
باہر لے گیا ساتھ ہی تپسوی چھاؤنی اورویدانتی کے ہندو دھام کی حفاظت بڑھا
دی گئی ۔
پرم ہنس داس پھر بھی نہیں مانے بلکہ انہوں نے ایک ویڈیو جاری کرکے رام جنم
بھومی ٹرسٹ کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس پر اپنے شاگردوں کی مدد سے انہیں
قتل کروانے کی کوشش کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے کا الزام لگادیا۔ پرم ہنس نے
نرتیہ داس پر تپسوی چھاؤنی سمیت کئی مندروں پر غیر قانونی طور پر قبضہ
کرنے کا بھی الزام لگایا ۔ اس بیان کو آسانی سے مسترد نہیں کیا جاسکتا
کیونکہ ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی ان لوگوں کے اندر ایسی ہی
کشیدگی پیدا ہوئی تھی ۔ اس وقت رام جنم بھومی کے سابق پجاری اور سنگھ
پریوار کے ناقد بابا لال داس منشی کو ہٹا کر ان کی جگہ آچاریہ ستیندر داس
کو بابری مسجد کی شہادت سے چند ماہ قبل اس عہدے پر فائز کیا گیا تھا ۔ بابا
لال داس نے اس وقت مدھو کشور کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ
ایودھیا میں ۵۰ تا ۶۰ سنتوں کو قتل کردیا گیا ہے اور انہیں خود اپنے زندہ
بچ جانے پر حیرت ہے۔ نومبر ۱۹۹۳ کی ایک رات میں کسی نے ان کو بھی گولی مار
کر ہلاک کردیا۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں
بھی کس قدر خونخوار ہیں؟
پرم ہنس کو وزیراعلیٰ کے حامی رام جنم بھومی نیاس کے سربراہ نرتیہ گوپال
داس پر توہین آمیز تبصرہ کرنے کی یہ قیمت چکانی پڑی کہ انہیں تپسوی چھاؤنی
کے مہنت سرویشور داس نے چھاؤنی سے خارج کردیا ۔ سرویشور داس کا کہنا تھا
کہ انہوں نے پرم ہنس داس کو جانشین بنایا تھا لیکن ان کی بیان بازی چھاونی
کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتی اس لیے اب تپسوی چھاؤنی سے ان کا کوئی
تعلق نہیں ہے۔ اس عبرتناک انجام سے سبق سیکھ کر ڈاکٹر رام ولاس ویدانتی نے
اپنا ایک ویڈیو جاری کیا جس میں مہنت پرم ہنس داس پر الزام لگایا گیا کہ
مذکورہ آڈیو ٹیپ میں کسی اور ان کی آواز میں بات کی ہے اور اس آڈیو سے
ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔. اس طرح کا آڈیو وائرل کرکے مہنت پرم ہنس
داس نے انہیں بدنام کرنے کی سازش کی ہے۔انہوں نے کبھی بھی نرتیہ گوپال داس
کے لئےنازیبا الفاظ استعمال نہیں کئے۔
ویدانتی کا بیان دودھاری تلوار ہے ۔ یہ اگر درست ہے پرم ہنس کو کاذب قرار
پاتے ہیں اور اگر غلط ہے تو ویدانتی کو بزدلاور ابن الوقت ٹھہرتے ہیں ۔ سچ
کیا ہے ان دونوں کے علاوہ تیسرا نہیں جانتا ۔ اس سے متاثر ہوکر اکھل
بھارتیہ اکھاڑا پریشد کے صدر نریندر گری نے رام مندر کے لئے بننے والے ٹرسٹ
میں اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ اور گئو رکشک پیٹھا دھیشور یوگی
آدتیہ ناتھ کو شامل کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔’رام جنم بھومی نیاس‘ نے پہلے
ہی نہ صرف یوگی کی شمولیت بلکہ صدارت سونپنے کے لیے تیار بیٹھا ہے ۔ جو
سیدھے سادے لوگ رام مندر کے معاملے کو اپنی آستھا کا مسئلہ سمجھتے ہیں ان
کی آنکھیں ان واقعات کو پڑھنے کے بعد کھل جانی چاہیے ۔ انہیں اس سوال پر
غور کرنا چاہیے کہ آیا یہ کو ئی سیاسی تحریک ہے یا مذہب و روحانیت سے اس
کا کوئی دور کا بھی واسطہ ہے؟ ملک کا باشعور طبقہ اگر اہل وطن کو حکمت کے
ساتھ اگر ان حقائق سے آگاہ کرے تو جلد یا بہ دیر عوام معاملے کی تہہ میں
پہنچ جائیں گے اور انہیں اپنے حقیقی دوستوں اور دشمنوں کی پہچان ہوجائے گی۔
بقول شاعر؎
دوست دشمن سے زیادہ تیز رکھتے ہیں چھری
برہمن بھی پیشہ اب کرنے لگے قصاب کا
|