تصویر کا دوسرا رخ

ہر انسان میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی ۔کسی میں خوبیوں کا پلڑا بھاری ہوتا ہے تو کسی میں خامیوں کا ۔ کسی انسان کے بارے میں رائے قائم کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اس کے دونوں رخ سے آگاہ ہوں ۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مخالفین کی کمزوریوں کے باعث پی پی قیادت ملک میں ایسا ماحول تیار کرنے کی کوشش کررہی ہے جس میں قوم کو پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کی صرف اچھائیاں ہی نظر آئیں۔اپنی تین سالہ خراب کارکردگی کو بھٹو جیسے لیڈر کی شخصیت کے مثبت پہلو اجاگر کر کے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے قوم میں ختم ہوتی ہوئی بھٹو اور اینٹی بھٹو کی تقسیم دوبارہ پیدا کرنے کیلئے کوششیں ہورہی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو کہ ایک بڑے لیڈ ر تھے ۔انہوں نے کچھ ایسے کام کئے جو تاریخ میں انہیں امر کر گئے ۔ان میں قادیانیوں کو کافر قرار دینا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلامی کانفرنس تنظیم بنوا کر مسلم ممالک کو متحد کرنے کی کوشش کی،عوام کو سیاسی شعور دیا،انہی کے دور میں پاکستانیوں کے لئے بیرون ملک روزگار کے دروازے کھلے ۔۳۷۹۱ کا متفقہ دستور بنا جس میں اسلام کو بنیادی اساس قرار دیا گیا ۔شراب پر پابندی لگی۔تازہ تازہ جنگ ہارنے اور ملک دولخت ہونے کے باوجود انہوں نے بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کی ۔ قوم میں انہوں نے نیشنلزم کا جذبہ بیدار کیا جس کی اس وقت اشد ضرور ت تھی۔ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا۔وہ عام آدمی کی سوچ کے قریب تھے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔بھٹو مرحوم سے غلطیاں بھی ہوئیں اور انہی غلطیوں کے باعث ہی ان کے خلاف تحریک چلی جس کا انجام ان کے حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا اور بعد میں وہ پھانسی بھی چڑھا دیئے گئے۔انہی غلطیوں کے باعث ہی قوم میں اینٹی بھٹو ووٹ بینک قائم ہوا ۔ چاہے کوئی لاکھ انکار کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پی این اے کی تحریک کے بعد بھٹو مخالف جو ووٹ بینک بن گیا تھا وہ ہمیشہ پیپلزپارٹی کے حامیوں سے زیادہ رہا اور یہ صورتحال آج بھی قائم ہے۔آج بھی دائیں بازو کی جماعتیں ہر الیکشن میں پیپلزپارٹی سے زیادہ ووٹ لیتی ہیں۔یہ اور بات ہے کہ وہ اپنا ووٹ تقسیم کر کے پی پی کی کامیابی کی راہ وقتاً فوقتاً ہموار کرتی رہتی ہیں۔اگر بھٹو مرحوم کی غلطیوں کا جائزہ لیا جائے تو معاشی میدان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا نا ان کا ایسا اقدام تھا کہ اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں جس میں خود بھٹو مرحوم بھی وزیر کی حیثیت سے شامل تھے پاکستان تیزی سے ترقی کرتا ہوا ایک صنعتی ملک بن رہا تھا ۔ لیکن صنعتوں ،بینکوں اور دیگر نجی اداروں کو سرکاری تحویل میں لے کر اس کامیابی کو ریورس گئیر لگا دیا گیا۔وہ ادارے جو ٹیکسوں کی ادائیگی اور روزگار فراہم کر کے ملکی معشیت کی مضبوطی کا سبب بنے ہوئے تھے ۔جن کی برامدات کے ذریعہ ملک کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہورہا تھا۔جو نجی شعبے میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی کررہے تھے جب سرکاری بابووں کے ہاتھوں میں دیئے گئے تو انہوں نے ان کا حشر نشر کردیا ۔کرپشن اس قدر بڑھی کہ سرکار کے ماتحت چلنے والے پٹرول پمپ تک خسارے میں چلے گئے۔ ان اداروں کو حامیوں کو نوازنے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔وہ ادارے جو ملکی اقتصادیات کا سہارا تھے ملک کیلئے ایسا بوجھ بنے کہ آج تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی قوم ا سے اٹھانے پر مجبور ہے ۔وہ جو اربوں روپے ٹیکس کی صورت میں قومی خزانے میں جمع کراتے تھے ۔ سرکاری تحویل میں آنے کے بعد خسارے سے دوچار ہوکر سالانہ اربوں روپے الٹا خزانے سے لینے لگے۔ان کی ترقی رکی تو روزگار کے مواقع بھی بڑھنے بند ہوگئے۔جن سرمایہ کاروں کے اداروں پر قبضہ کیا گیا تھا ایک طرف وہ ملک سے باہر چلے گئے تو دوسری جانب نئے سرمایہ کاروں کی آمد کے راستے بھی بند ہوگئے۔وہ پاکستانی بینک جن کی کامیابی کی دنیا میں مثالیں دی جاتی تھیں سیاسی بنیادوں پر قرضوں کی منظوری اور پھر انہیں معاف کرنے کا ذریعہ بن گئے۔جن کی بیلنس شیٹ میں ہر سال اربوں روپے کا اضافہ ہوتا تھا ۔ وہ اربوں روپے کے قرضوں کی معافی دکھانے لگے ۔ اس طرح سوشلزم کے نام پر وہ مرغی ذبح کردی گئی جس کے انڈوں سے اس ملک کی گاڑی چل رہی تھی اور چلنی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں ملک چلانے کیلئے غیرملکی قرضے لینے پڑے ۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہم عالمی ساہوکاروں کے چکر سے نکل ہی نہیں پائے۔اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ قرضے اتارنے کیلئے بھی قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ ادارے قومیانے کی پالیسی ایک طرف ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھوانے کا سبب بنی ہے تو دوسری طرف بیروزگاری کا آسیب بھی اسی پالیسی کا بالواسطہ نتیجہ ہے ۔اگر بھٹو ادارے نہ قومیاتے تو پاکستان آج معاشی میدان میں کہیں آگے ہوتا ۔

سیاسی میدان میں دیکھیں تو سانحہ مشرقی پاکستان میں ان کا کردار کلئیر نہیں تھا ۔ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ انہوں نے ہی لگایا تھا۔جنگ بندی کیلئے سلامتی کونسل کی قرارداد پھاڑنا بھی ان کا ایسا اقدام تھا جس سے ان پر الزام لگا کہ وہ مشرقی پاکستان کو ساتھ رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔اسی طرح اس کے باوجود کہ بھٹو ایک جمہوری رہنما تھے لیکن ان کے بارے میں تاثر یہی تھا کہ آمروں کی طرح وہ بھی مخالفین کو برداشت کم ہی کرتے تھے۔آج لوگ جنرل ضیاالحق کے دور میں صحافت پر پابندیوں کا تو ذکر بہت کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان پابندیوں کی روایت بھٹو دور میں پڑی تھی۔اس دور میں مخالف صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ۔ان پر تشدد کیا گیا ۔یہی سلوک مخالف سیاستدانوں کے ساتھ بھی کیا گیا ۔لاڑکانہ سے بھٹو کو بلامقابلہ جتوانے کیلئے جماعت اسلامی کے مرحوم رہنما جان محمد عباسی کو اغوا کرایا گیا حالانکہ وہ کسی بھی طرح پی پی قائد کیلئے سیاسی خطرہ نہیں تھے ۔پھر ایف ایس ایف جسے بھٹو مرحوم کی ذاتی وفادار فورس سمجھا جاتا تھا کی کاروائیاں بھی اس وقت پی پی حکومت کے خلاف اشتعال کا اہم سبب بنی تھیں۔آج پنڈی سے دو لاشیں سندھ آنے کا تو بہت ذکر کیا جاتا ہے لیکن بھٹو دور میں ۳۷۹۱ میں اسی شہر میں پیپلزپارٹی نے بھی لیاقت باغ میں اپوزیشن کے جلسے پر حملہ کرایا تھا اور درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ان میں سے بیشتر موجودہ اے این پی جو اس وقت نیپ کے نام سے جانی جاتی تھی کے کارکن تھے اور زیادہ تر لاشیں اس وقت کے صوبہ سرحد میں گئی تھیں ۔اسی دور میں چوہدری شجاعت کے والد چوہدری ظہور الہیٰ ،خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق ،جماعت اسلامی کے ڈیرہ غازی خان سے ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد اور نواب احمد رضا قصوری کو قتل کیا گیا ۔اس وقت ان تمام افراد کے قتل کا الزام ایف ایس ایف پر لگا اور بھٹو کو احمد رضا قصوری کے قتل کے مقدمے میں ہی پھانسی ہوئی۔ اس مقدمے میں ایف ایس ایف کا سربراہ مسعود محمود ہی وعدہ معاف گواہ بنا تھا ۔اگرچہ اب پی پی حکومت نے اس معاملے پر نظرثانی کیلئے ریفرنس سپریم کورٹ بھیج دیا ہے اور عدالت ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ کرسکتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ احمد رضا قصوری کی لاش موجود تھی اور مدعی کا دعویٰ بھی بھٹو مرحوم پر ہی تھا۔ وعدہ معاف گواہ بننے والا مسعود محمود بھی ان کا قریبی آدمی تھا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پی پی کو تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد اس ریفرنس کی یاد کیوں آئی ہے تو اس کی ایک وجہ تو سیاسی ضرورت ہے۔تین سال سے حکومت میں ہونے کے باوجود پارٹی اپنی قائد بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو گرفت میں لانا تو درکنا ر انہیں کھل کر بے نقاب بھی نہیں کرسکی ۔ہر بار بھٹو یا ان کی دختر کی برسی پر یہ معاملہ چند روز کیلئے سامنے آتا ہے کیونکہ نوڈیرو میں کارکنوں نے یہی سوالات کرنے ہوتے ہیں اس لئے پہلے سے ایسی فضا بنائی جاتی ہے کہ جیسے کوئی بڑی پیشرفت ہوگئی ہے یا انکشاف کیا جانے والا ہے لیکن چند دنوں بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔حالت یہ ہے کہ عدالت سابق آمر پرویز مشرف کو واپس لانے کے بار بار احکامات دے رہی ہے لیکن ابھی تک ا س ضمن میں کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔ چونکہ پرویز مشرف والا پتھر فی الحال بھاری نظر آتا ہے لہٰذا اس طر ف جانے کے بجائے ۲۳ برس پرانے معاملے کو چھیڑ دیا گیا ہے جس کے تقریباً تما م کردار اس جہان فانی سے جاچکے ہیں اور ان کا مقدمہ ایک ایسی عدالت میں پیش ہوچکا ہے جہاں کسی گواہ کی ضرورت ہے اور ناں سیاسی ضرورتوں کیلئے بیان بدلنے والے نسیم حسن شاہ جیسے ججوں کی ۔بھٹو کیس کھولنے ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ قوتیں جو روائتی طور پر پی پی مخالف رہی ہیں وہ اس وقت تقسیم نظر آرہی ہیں۔چوہدری ظہور الہیٰ کے جانشین چوہدری شجاعت اور پرویزالہیٰ ہوں یا خواجہ رفیق کے سپوت سعد رفیق ، ڈاکٹر نذیر کی سیاسی وارث جماعت اسلامی ہو یا ضیاالحق کا سیاسی ورثہ سنبھالنے والے نواز شریف سب اس وقت خاموش ہیں ۔روائتی اتحادی یہ قوتیں اپنے نظریاتی مخالفین کے بجائے آپس میں برسرپیکار ہیں جس کا فائدہ پی پی اٹھا رہی ہے۔ وہ ایک طرف تین دہائی پرانا فیصلہ تبدیل کروانے کی کوشش کر کے اپنے روائتی مخالفین پر اخلاقی برتری حاصل کرنے کی سرگرداں ہے تو دوسری طرف عدلیہ کو تنہا کرنے اور دباؤ میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔لیکن ضروری نہیں انسان جیسا سوچے ویسا ہی ہو۔پی پی کے مخالفین جو تمام تر کوششوں کے باوجود اکٹھے نہیں ہو پا رہے تھے وہ اس کی کسی ایک غلطی سے متحد ہو سکتے ہیں ،اور یہ غلطی بھٹو کیس کھولنا بھی بن سکتا ہے۔پاکستان میں سیاسی منظر بدلتے دیر نہیں لگتی ۔آج جو قوتیں بظاہر غیرجانبدار یا کسی حد تک حکومتی پلڑے میں وزن ڈالتا نظر آرہی ہیں ہوسکتا ہے بھٹو کیس کا پنڈورا بکس کھلنے سے کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوجائے کہ ان کیلئے مزید ایسا کرنا ممکن نہ رہے ۔بظاہر تو پی پی کیلئے ریفرنس قبول ہونے یا مسترد ہونے دونوں صورتیں میں سیاسی فائدے کی پوزیشن بن رہی ہے لیکن اگر معاملے نے طول پکڑا اور دائیں بازو کی جماعتیں اکٹھی ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوگئی تو اس کیلئے یہ کیس سیاسی جوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
Amjad Chohdury
About the Author: Amjad Chohdury Read More Articles by Amjad Chohdury: 11 Articles with 6376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.