وفاقی وزیر امور کشمیر منظور وٹو
نے اپنی رہائش گاہ میں منعقدہ ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں آزاد کشمیر کی
سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور چیف الیکشن کمشنر شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں
آزاد کشمیر میں عام انتخابات کی تاریخ کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی
کوشش کی گئی اور اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن
جون کے آخر سے جولائی کے دوسرے ہفتے کے دوران کرائے جا سکتے ہیں۔ الیکشن کی
تاریخ کا اعلان چیف الیکشن کمشنر الیکشن شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کریں گے۔
پیپلز پارٹی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق نے ان
سے معاہدہ کیا ہے کہ الیکشن مئی کے آخری ہفتے کرائے جائیں گے۔ جبکہ حکومت
کی طرف سے کہا گیا کہ موجودہ اسمبلی کی معیاد مکمل ہونا آئینی تقاضا ہے اور
اس طرح الیکشن نہیں کرائے جا سکتے کہ جس سے موجودہ اسمبلی کی پانچ سالہ
معیاد پوری نہ ہو ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما زور و شور سے مئی میں الیکشن
کرانے کے وعدے کی بات کرتے رہے تاہم اس طرح کے کسی معاہدے کی تحریر سامنے
نہ لائی جا سکی۔
وفاقی وزیر امور کشمیر کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس کی کوئی آئینی
قانونی یا اصولی حیثیت نہیں ہے۔ آزاد کشمیر پر وزیر امور کشمیر کی نگرانی
قائم کرتے ہوئے ایک ایسی غلط روایت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس سے
کشمیر سے متعلق قومی مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے آزاد
کشمیر کی مفاداتی سیاست نے پیپلز پارٹی کو آزاد کشمیر میں مضبوط بنانے کا
موقع فراہم کیا اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے دھڑلے سے آزاد کشمیر میں
پیپلز پارٹی کو مضبوط بنانے کی کاروائیاں کیں۔بیرسٹر سلطان محمود چودھری کی
شمولیت کے بعد پیپلز پارٹی میں گروپوں کے اختلافات تیز ہو گئے ہیں جسے
چھپانے کے لئے بھی وفاقی حکومت کے وزراء آزاد کشمیر کی سیاست میں متحرک ہیں۔
ہماری رائے میں آزاد کشمیر کے امور پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے پیپلز
پارٹی کی وفاقی حکومت کی یہ مداخلت ہر لحاظ سے غلط ہے اور اس سے آزاد کشمیر
کے متنازعہ حساس علاقے میں منفی رجحانات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر
کے سیاست کار جس طرح نفاق٬ انتشار اور مفادات کی سیاست کرتے چلے آرہے ہیں
اس سے اب آزاد کشمیر کے معاملات کے فیصلے اسلام آباد سے ہونے لگے ہیں۔ اور
اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس عمل کا اگلا مرحلہ آزاد خطے کی خصوصی
حیثیت کی تنزلی ہے۔ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت اپنی کشمیر پالیسی بنانے
میں ناکام رہی ہے اور بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے بھی زرداری و گیلانی
حکومت سابق مشرف حکومت کی پالیسی پر ہی قائم نظر آرہی ہے۔ تاہم آزاد کشمیر
کے امور کے حوالے سے پی پی کی وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی
کا راج قائم کرنے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا ہے اسے کسی طور بھی کشمیر کاز
اور قومی مفادات کے حق میں قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس سے اس انداز کو تقویت
دی جارہی ہے کہ پاکستان میں جس کی بھی حکومت ہو وہ آزاد کشمیر کو سیاسی طور
پر بھی فتح کر لے۔ |