معاشی بدحالی کے منحوس سائے اور بچہ سقہ والے شوق

ملک میں معاشی بدحالی اپنے عروج پر ہے، مہنگائی بے لگا م ہے۔عوام پریشان ہی نہیں بدترین بدحا لی کا شکار ہیں لیکن میرے وطن اور قوم کی تقدیر کے خودساختہ مالک ملک کے اندر معاشی بدحالی کے منحوس سائے پھیلانے میں ایک دوسرے سے بازی لیجانے میں مکاری کے بہت سارے طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی نہیں بلکہ بچہ سقہ والے شوق پورے کیے جا رہے ہیں اور جو ملک کے وسائل کی بدولت دنیا کی بہترین طرز زندگی گذار رہے ہیں وہ ملک اور قوم کے خلاف یا تو فریق بنے ہوئے ہیں یا پھر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس صاحب نااہل حکمرانوں کو ان کے قانون اور آئین سے ماورا اقدامات پر سزا دینے اور سبق سکھانے کی بجائے ان کی غلطیوں کو درست کررہے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کے دوران ریمارکس دیئے کہ ماضی میں پانچ ،چھ جرنیل خود کو دس دس سال ایکسٹینشن دیتے رہے، اس سے قبل یہ سوال اٹھایا نہیں گیا،اب جب کہ معاملہ سامنے آیا ہے اور اٹھایا گیا ہے تو اس کے تمام قانونی پہلووں کا جائزہ لیں گے۔ سپریم کورٹ نے موقف اختیار کیا ہے کہ وزیراعظم کو تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو صدر مملکت کا استحقاق ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے جس پر پوری قوم کو میڈیا کے ذریعے متوجہ کر دیا گیا ہے جب کہ ملک کے اندر معاشی بدحالی کا اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا ہے۔گوڈ گورنس کا خواب بکھر چکا ہے میری قوم تعبیریں کہا ں سے تلاش کرے، امیدیں کیا وابستہ کی جائیں کہ اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگ ہی مسائل کی اصل جڑ ہیں۔اٹارنی جنرل انور منصور خان وفاق کی جانب سے او رگذشتہ روز وزیر قانون کے منصب سے استعفی دینے والے فروغ نسیم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ہیں، فروغ نسیم نے عدالت میں وکالت نامہ جمع کروا دیا ہے۔ کچھ وقت کیلئے ان کی ممبر شپ پاکستان بار کی جانب سے معطل کی گئی تھی لیکن بحال کر دی گئی ہے اور اب وہ پروٹوکول کے ساتھ کیس کی پیروی کر رہے ہیں جس کی سمجھ ہی نہیں آتی کہ ایسے لوگوں میں کون سے جیولز فالتو لگے ہوئے ہیں کہ وہ ہر جگہ خوشامدانہ اطوار اپنا کر مفادات سمیٹنے میں کامیاب رہتے ہیں۔واضع رہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس نہیں لیا۔ ہمارے ہاں یہ خبر عام کر دی گئی تھی کہ یہ سپریم کورٹ کا پہلا سوموٹو ہے۔ایسا نہیں ہوا بلکہ حنیف راہی کی درخواست پر یہ کیس سنا جا رہا ہے اور اس کے قانونی پہلووں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔اس کی وضاحت خود چیف جسٹس نے کی ہے۔وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے یہ بات صرف کہی جا رہی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس دن میں دو بار ہوا، جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری منظوری کرلی گئی۔ حکومت کی ان حرکات سے اس کی اہلیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ صرف دو دن میں ملک قوم اور افواج پاکستان جیسے منظم ادارے کو اقوام عالم کے سامنے تماشہ بنا دیا گیا ہے۔وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا پہلا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ۔19 اگست 2019 کو وزیراعظم کے دستخط سے جاری ہونے والا نوٹیفکیشن کابینہ نے واپس لے لیا جسے جہالت اور فتنے کی جڑ کہا جا سکتا ہے۔ذرائع کے مطابق کابینہ نے ڈیفنس ایکٹ 255 میں ترمیم منظور کرلی ہے ،اس ایکٹ میں لفظ ایکسٹینشن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات اگر کابینہ کے دائرے میں آتے ہیں تو ان کو قابل عمل اور آئین کا حصہ بنانے کیلئے کیا کیا اقدامات ضروری ہیں واضع رہے کہ یہ ایکٹ آرمی چیف کے لیے ہے ہی نہیں بلکہ افواج پاکستان کے افسران کے لیے ہے۔وزیراعظم کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد سمری صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوادی گئی ۔یہ چند ہی گھنٹوں میں کابینہ کا دوسرا اجلاس تھا، کابینہ کے پہلے اجلاس میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل ہونے کا معاملہ چھایا رہا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کا سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف سے متعلق وفاق کی درخواست کی پیروی سے انکار اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ حکمرانوں کی جانب سے پرویز مشرف کی بیجا اور غیر قانونی حمایت کے حق میں نہیں ہیں۔اسی لیے سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کی پیروی سے انکار پر انھوں نے کہا کہ ان کا ضمیرجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کیس کی پیروی کریں جب کہ حکومت پرویز مشرف کی حمایت میں سرگرم ہے۔گزشتہ روزحکومت اور پرویز مشرف کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں الگ الگ درخواستیں جمع کرائیں، جن میں استدعا کی گئی ہے کہ خصوصی عدالت کو 28 نومبر کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔وزیر داخلہ اعجاز علی شاہ نے کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کو عدالت میں سنا نہیں گیا اور کیس میں بہت زیادہ غلطیاں ہوئیں۔سوچنے کی باتہے کہ ایک ملزم اشتہاری ہے اس کی درخواست کیسے لی جا سکتی ہے۔لیکن ڈھول بجائیں کہ ہماری عدالت نے پرویز مشرف جیسے شخص کی خواہش و مرضی کا فیصلہ دیا ہے لیکن اﷲ تعالی جبار و قہار ہے کاش پرویز مشرف کو براہ راست ویڈیو لنک پر ایک بار دکھا دیا جائے۔مسلم لیگ ق کے صدر اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ جنرل مشرف والا معاملہ کھولنے کا کیا فائدہ؟ نئے گورکھ دھندوں میں نہ پڑیں، اس سے عوام کو کوئی فائدہ ہوگا نہ ہی مہنگائی، بیروزگاری اور دیگرخرابیوں کا خاتمہ ہوگا۔ سینئر مسلم لیگی رہنما نے کہا کہ مہنگائی اور بیروزگاری کے اصل ذمہ داروں کے تعین کے لیے قانونی ماہرین سے مشورہ کر رہے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں مشاورت کے بعدایوان کے اندر تبدیلی کا آپشن بھی مسترد کردیا گیا، فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن اب صرف نئے انتخابات کا مطالبہ کرے گی اور جب تک ملک کے اندر فوری طور پر عام انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا اپوزیشن اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ ان سے کہا گیا ہے کہ اگلے سال بجٹ تک کا وقت دیا جائے۔ جب انہوں نے انکار کیا تو اگلے سال اپریل تک کا وقت مانگا گیا ہے۔بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ اگر ایوان کے اندر تبدیلی سے پی ٹی آئی کی حکومت ہی بنتی ہے تو اس کا فائدہ کیا ہوا۔ان کے سر پر تو عمران خان ہی سوار رہے گا۔جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی کفایت اﷲ اور انکے بیٹوں پر حملہ پولیس کے مطابق بیدڑہ انٹرچینج کے قریب نامعلوم ملزمان نے مفتی کفایت اﷲ کی گاڑی کو ٹکر مار کر روکا اور 5 افراد نے آہنی راڈ سے حملہ کر کے مفتی کفایت اﷲ، انکے 2 بیٹوں اور ایک ساتھی کو زخمی کردیا۔حملے میں مفتی کفایت اﷲ کے ہاتھ میں فریکچر ہوگیا، تمام زخمیوں کو کنگ عبداﷲ ٹیچنگ اسپتال منتقل کردیا گیا ، مقدمہ درج ہو چکا اور دیکھنا یہ ہے کہ یہ سنگین شرارت کس نے کی ہے کہ ان دنوں مفتی ساحب پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کر رہے تھے۔میں صرف ایک سادہ سوا ل پر ختم کرتا ہوں کہجس ناہلی اور جگ ہنسائی کا مظاہرہ مسلط کردہ حکمرانوں بالخصوص وزیراعظم عمران نیازی کی جانب سے کیا جارہا ہے اس بارے میں خود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور میرے وطن کی پانچ لاکھ سے زائد پاک آرمی کیا سوچتے ہوں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

Malik Ansar Mehmood
About the Author: Malik Ansar Mehmood Read More Articles by Malik Ansar Mehmood: 11 Articles with 8706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.