اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم ایک ایسے دور سے
گزر رہے ہیں جہاں دو زمانے ملتے ہیں یعنی قدیم اور جدید ہم اب مشینی دور
میں قدم رکھ چکے ہیں اور سائنسی ایجادات کی کثرت نے تمام شعبہ ہائے زندگی
کو اپنی دسترس میں لے لیا ہے کہنے کو تو یہ بھی کہا جارہاہے کہ انسان ترقی
کے نقطہ عروج کو چھو رہا ہے اور ہر چیز اب فنگر ٹپس پر آگئی ہے مگر سوچنے
کی بات یہ ہے کہ کیا یہ ترقی صرف ہمیں ہر طرح کی سہولیات ہی فراہم کررہی ہے
یا ہم سے کچھ چھین بھی رہی ہے ؟۔
اگر اس مادی ترقی کے دور میں سائنسی ایجادات کی وجہ سے مختلف اشیاء کے
کارخانوں کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف ان سے نکلنے
والا فاضل مادہ ہماری ماحولیات کو بری طرح متاثر بھی کررہاہے ماہرین کے
بقول سینکڑوں بیماریاں ان فیکٹریوں کی رہین منت ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ
ان سے نکلنے والا دھواں ماحولیاتی تبدیلی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے
ہونے والے نقصان سے ہر جاندار متاثر ہورہا ہے۔
اسی طرح گاڑیاں ہیں جہاں ان کی مدد سے ہفتوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوجاتا
ہے اپنوں کی خوشی اور غمی میں بروقت پہنچا جاسکتا ہے اورمنڈیوں تک رسائی
بہت آسان ہوگئی ہے وہیں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور ان کا شورہمارے
ماحول میں بہت سی بیماریوں کا موجد بھی ہے ۔
موبائل فونز نے تو بزنس کو آسان سے آسان تر بنادیا ہے اب ویڈیو کالز کے
ذریعہ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر میٹنگ میں شرکت کی جاسکتی ہے ،لاکھوں
روپے کی ترسیل صرف ایک کلک پر ہوجاتی ہے ،پوری دنیا کی خبروں سے آگاہی
ہوجاتی ہے مگر اس موبائل نے ہمارے رشتوں کو شدید متاثر کیا ہے ہم اکھٹے
بیٹھے بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں سوشل میڈیا ایپس نے دور کے
فاصلے کم کردیئے ہیں مگر نزدیک کے عزیزوں کو کوسوں دور کردیا ہے اوررہی سہی
کسر موبائل گیمز نے نکال دی ہے اور نوجوان نسل کو فزیکل ایکٹیوٹیز سے محروم
کردیا ہے جس کی وجہ سے انہیں برگر یونٹ قرار دیا جارہا ہے۔
ایک اور بات جسے ہم نے شاید کبھی نوٹس نہیں کیا وہ یہ ہے کہ ہمارا ملک عزیز
پاکستان بھی ان دس ممالک میں شامل ہے جو آنے والے وقت میں پانی کی شدید قلت
کا شکار ہونگے اس کی جہاں دوسری بہت سی وجوہات ہیں وہاں ایک وجہ یہ بھی ہے
کہ ہماری شہری زندگی میں پختہ سٹرکوں ،پختہ صحن اور پختہ گلیوں کی وجہ سے
پانی کی وہ مقدار جو زمین کو چاہئے ہوتی ہے نہیں مل رہی اسی وجہ سے گرمیوں
میں زمین کے حبس میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے اور نت نئی بیماریاں جنم
لے رہی ہیں(ہمارے دیہی علاقے ابھی تک ان چیزوں سے محفوظ ہیں) ماہرین کا
کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو چند سالوں میں پانی کا شدید بحران اس
ملک پر اپنے شکنجے گاڑ چکا ہوگا ۔
شعبہ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کی مددسے آنے والے انقلاب نے فصلوں کی
پیداوار میں بے پناہ اضافہ تو کردیا ہے مگر پھل اور سبزیوں میں موجود خالص
اجزاء کو شدید متاثر بھی کیا ہے جس کی وجہ سے غذائی قوت میں شدید کمی واقع
ہوئی ہے اسی لئے مغربی دنیا دوبارہ آرگینک چیزوں کی طرف آرہی ہے۔
ایٹم نے جہاں انسانوں کو بہت سے فائدے پہنچائے ہیں وہیں ایٹم بم ،ایٹمی
مزائلوں نے انسانیت کو جس بے دردی سے قتل کیا اور نسلوں کو اپاہج کیا ہے اس
سے ہلاکو اور چنگیز خان کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں ۔
یہ اور اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہمارے سامنے ہیں یہ تبدیلی ہم اپنی آنکھوں
سے دیکھ اور محسوس کررہے ہیں ،کیا ہمارے اخلاقی اقدار بدل رہے ہیں اورہماری
اخلاقیات ،رویوں میں مشینی انداز در آیا ہے؟ ہم صحیح رخ پر جارہے ہیں ؟اور
کیا یہ مشینی دور بہت سارے مزدوروں کو بیروزگار بھی کررہا ہے؟اگر یہی
صورتحال رہی تو ہم ماحولیاتی تبدیلی سے کیسے نمٹ سکتے ہیں ؟فطرت اور مادیت
کی اس کشاکش میں انسان یا ہر جاندار کتنے فائدہ اور کتنے نقصان میں ہوگا ؟اگر
ہم اس صورتحال کو کنٹرول کرنا چاہیں تو کیا اقدامات کرنے ہونگے ؟ اور سب سے
بڑھ کر ہماری نئی نسل کس ماحول میں سانس لے گی ؟انہیں کن مسائل کا سامنا
کرنا پڑے گا ؟اور ان مسائل سے نمٹنے کیلئے کو ئی پلیٹ فارم ہم مہیا کررہے
ہیں ؟اور کیا یہ بات سہی نہیں کہ اس ٹیکنالوجی سے ہمیں جو فائدہ لینا چاہئے
وہ نہیں لے رہے مثلا سوئی سے لیکر جائے نماز ،تسبیح سمیت ہوائی جہاز اور
بحری جہاز تک کون سی چیز پاکستان میں بنتی ہے؟۔
اور سب سے اہم سوال کیا سائنسی ایجادات کا مقصد صرف مالی منفعت ہی ہے ؟یعنی
یہ جو کچھ بھی بنایا جارہاہے وہ صرف اور صرف بزنس کرنے کیلئے ہے ؟میرے خیال
میں اس سوال کا جواب بہت اہم ہے ،بہرحال یہ نہایت سنجیدہ موضوع ہے جس پر
بہت گفتگو ہونا باقی ہے ابھی تک شاید ہم وہ پیمانے مقرر نہیں کرپائے یا ان
پر عملدرآمد کروانا باقی ہے کہ کس عمر میں کس سائنسی ایجاد کو کس طرح
استعمال کیا جاسکتا ہے خاص کر سوشل میڈیا اور گاڑی،موٹر سائیکلوں کا
استعمال ہماری اخبارات ان دونوں چیزوں کے غلط استعمال کے نتائج سے بھری پڑی
ہیں ۔ |