نجکاری: ایک مشکل مگر ناگزیر فیصلہ

حسیب اعجاز عاشر
پاکستان میں نجکاری (Privatization) کا لفظ سنتے ہی عوام کی ایک بڑی تعداد کے ذہن میں خوف، بے یقینی اور شکوک و شبہات ابھر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری قومی تاریخ میں نجکاری کے تصور کو کبھی درست انداز میں عوام کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً قومیانے (Nationalization) کو حب الوطنی اور نجکاری کو قومی مفاد کے خلاف سازش سمجھ لیا گیا۔ حالانکہ دنیا کا تجربہ اس کے بالکل برعکس کہانی سناتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو قومیانے کے فیصلوں سے جو نقصان پہنچا، اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ 1970 کی دہائی میں صنعتوں، بینکوں، تعلیمی اداروں اور بڑی کارپوریشنز کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ بظاہر عوامی مفاد میں کیا گیا تھا، مگر عملی طور پر اس نے معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ نجی شعبے کی مسابقت، جدت اور کارکردگی کی جگہ سرکاری بابو شاہی، سیاسی مداخلت اور نااہلی نے لے لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ادارے جو کبھی منافع بخش تھے، آہستہ آہستہ خسارے کا گڑھ بن گئے۔
قومیانے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اداروں میں جواب دہی ختم ہو گئی۔ خسارہ بڑھتا گیا، مگر کسی کے لیے جواب دینا لازم نہ رہا۔ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ان اداروں کو سہارا دینے میں جھونک دیا گیا، جبکہ عوام کو نہ بہتر سروس ملی اور نہ ہی معیشت کو استحکام نصیب ہوا۔ پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے اور دیگر کئی ادارے اس پالیسی کی زندہ مثالیں ہیں۔
پی آئی اے کی تاریخ دراصل پاکستان کی معاشی تاریخ کا آئینہ ہے۔ 1955 میں قائم ہونے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن صرف ایک قومی فضائی کمپنی نہیں تھی، بلکہ یہ پاکستان کی پہچان اور وقار کی علامت تھی۔ ایک وقت تھا کہ پی آئی اے ایشیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی۔ اس کے پائلٹس، انجینئرز اور انتظامی ماہرین دنیا بھر میں مانے جاتے تھے۔ یہی پی آئی اے تھی جس نے مشرقِ وسطیٰ میں نئی بننے والی ایمریٹس ایئر لائن کے قیام اور تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا۔
یہ تاریخ کا ایک ناقابلِ تردید باب ہے کہ ایمریٹس کے ابتدائی پائلٹس، ٹرینرز اور انتظامی ڈھانچے میں پی آئی اے کے ماہرین شامل تھے۔ پی آئی اے نے اپنی مہارت اور تجربہ دیگر ممالک کو منتقل کیا، مگر بدقسمتی سے خود اپنے ادارے کو اسی معیار پر نہ چلا سکی۔ سیاسی بھرتیاں، یونینز کا دباؤ، میرٹ کی پامالی اور ناقص حکمرانی نے اس عظیم ادارے کو آہستہ آہستہ زوال کی طرف دھکیل دیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ پی آئی اے خسارے میں ڈوبتی چلی گئی۔ اربوں روپے کی سبسڈی، قرضوں کا پہاڑ اور ناقص سروس اس کا مقدر بن گئے۔ حکومت ہر سال عوام کے ٹیکس کا پیسہ اس ادارے کو بچانے میں لگاتی رہی، مگر اصلاحات کے نام پر محض بیانات دیے گئے۔ یوں ایک قومی اثاثہ، جو ملک کے لیے زرمبادلہ کما سکتا تھا، بوجھ بن کر رہ گیا۔
ایسے میں پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کاروباری اقدام نہیں، بلکہ ایک قومی ضرورت بن چکا تھا۔ عارف حبیب کنسورشیم کی جانب سے 135 ارب روپے میں پی آئی اے کی خریداری ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ فیصلہ اس امر کا اعلان ہے کہ پاکستان اب خسارے کے ماڈل سے نکل کر کارکردگی اور منافع کے ماڈل کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔
نجکاری سے سب سے بڑا فائدہ حکومت کو ہو گا۔ حکومت کو نہ صرف پی آئی اے کے سالانہ خسارے سے نجات ملے گی، بلکہ وہ وسائل بھی آزاد ہوں گے جو تعلیم، صحت اور سماجی بہبود پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرضوں کا دباؤ کم ہو گا اور بجٹ خسارہ قابو میں آئے گا۔عوام کے لیے اس نجکاری کے فوائد بھی کم نہیں۔ ایک نجی انتظامیہ کے تحت پی آئی اے کو مسابقتی ماحول میں کام کرنا ہو گا، جہاں سروس کا معیار بہتر بنانا ناگزیر ہو گا۔ وقت کی پابندی، جدید سہولیات، بہتر رویہ اور عالمی معیار کی خدمات عوام کو میسر آئیں گی۔ ٹکٹوں کی قیمتوں میں شفافیت آئے گی اور مسافروں کا اعتماد بحال ہو گا۔ جب ایک ملک اپنے خسارے میں ڈوبے اداروں کو اصلاح کے ذریعے منافع بخش بنانے کا فیصلہ کرتا ہے، تو دنیا اسے سنجیدگی سے لیتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے اور عالمی منڈی میں ملک کا تشخص بہتر ہوتا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری پاکستان کے لیے ایک مثبت پیغام ہے کہ اب ہم مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نجکاری کے نتیجے میں نئے مواقع بھی جنم لیں گے۔ ایوی ایشن کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی، بہتر تربیت اور عالمی شراکت داری کے دروازے کھلیں گے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور مقامی افرادی قوت عالمی معیار کے مطابق تیار ہو سکے گی۔ سیاحت کے فروغ میں بھی یہ قدم اہم کردار ادا کرے گا، کیونکہ ایک مضبوط قومی ایئر لائن ملک کے مثبت تشخص کی سفیر ہوتی ہے۔
دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ برطانیہ، جرمنی، ترکی اور خلیجی ممالک نے نجکاری اور نجی شراکت داری کے ذریعے اپنے اداروں کو منافع بخش بنایا۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نجکاری کا مطلب قومی اثاثے بیچ دینا نہیں، بلکہ انہیں زندہ کرنا ہے۔ جب ایک ادارہ ریاست کے لیے بوجھ بن جائے تو عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ اسے ایسے ہاتھوں میں دیا جائے جو اسے ترقی دے سکیں۔ پی آئی اے کی نجکاری اسی سوچ کی عکاس ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کو اب ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔ قومیانے کے نعروں نے ہمیں صرف خسارہ دیا، جبکہ دنیا نجکاری اور مسابقت کے ذریعے آگے بڑھتی رہی۔ پی آئی اے کی نجکاری اگر شفافیت، میرٹ اور پیشہ ورانہ اصولوں کے تحت کی گئی تو یہ فیصلہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال بن سکتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم جذبات کے بجائے حقائق کی بنیاد پر فیصلے کریں اور پاکستان کو ترقی کے اس راستے پر گامزن کریں جو دنیا نے بہت پہلے اختیار کر لیا تھا۔
Haseeb Ejaz Aashir | 03344076757
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 152 Articles with 161853 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More