تحریر: محمد ارسلان رحمانی
آج اتوار تھا، معمول کے مطابق اساتذہ کی قیمتی نصیحتیں سننے گھر سے صبح صبح
ہی نکل پڑا۔ تقریبا 10 منٹ کی مسافت پر مرکزی شاہراہ ہے، اسی درمیان ایک
بازار بھی پڑتا ہے، روڈ کی طرف جاتے ہوئے اپنے خیالوں میں گم سم بازار سے
گزررہا تھا، اتنے میں محسوس ہوا کہ پیچھے سے کوئی موٹرسائیکل والا ہارن کے
ساتھ ساتھ مجھے آوازیں بھی دے رہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو دنگ ہی رہ گیا۔ میلے
اور پھٹے کپڑے، خستہ حال یہ عبداﷲ تھا۔ ار ے آپ؟ یہ کیا حال بنارکھا ہے؟
کہاں سے آرہے ہیں؟ میں نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے ایک ساتھ پوچھا۔ حالت
دیکھ کر سلام کرنا بھی یاد نہیں رہا اور سوالات کی بھرمار لگا دی۔ اس نے
مجھے اپنے ساتھ بیٹھایا اور پھر جو باتیں ہوئیں سو وہ تو ہوئیں۔
عبداﷲ میرا کلاس فیلو تھا ، جس کا شمار ذہن طلبہ میں ہوتا تھا، کئی
امتحانات میں عبداﷲ پوزیشن ہولڈر بھی رہا۔ مجھے یاد ہے کہ جس کتاب کو ہم 10
بار پڑھ لینے کے بعد بھی یاد نہ کر پاتے عبداﷲ صرف ایک بار ہی پڑھتا اور اس
کو یاد ہوجاتی۔ ایسے ہونہار ذہین طالبعلم کو اس حال میں دیکھ کر تو کوئی
بھی حیران ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔ وہ وجہ کیا تھی جو عبداﷲ کو یہاں تک لائی۔
ہم دوران درس اپنے اساتذہ سے 2 باتیں بہت سنتے آئے تھے کہ دین میں قابلیت
نہیں، قبولیت شرط ہے اور کامیابی ادب کے بنا ممکن نہیں۔ اس وقت یہ بات سمجھ
نہیں آتی تھی کہ بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ذہین طالبعلم، تمام علوم
و فنون میں مہارت رکھنے والا بھی کبھی ضائع ہوجائے گا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن کلاس میں استاد محترم سبق پڑھا رہے تھے۔ چھٹی کا وقت
ہوگیا، سبق کچھ لمبا تھا تو چند منٹ اوپر ہوگئے۔ سبق ابھی جاری ہی تھا کہ
ایک زوردار دھماکے کی آواز گونجی (ایک طالبعلم نے ڈیسک پر زوردار ہاتھ
مارکر کہا) بس کردیں استاد جی! ٹائم اوپر ہوگیا ہے۔ استاد جی نے کتاب بند
کی اور کچھ کہے بنا خاموشی سے باہر نکل گئے۔ آج میرے سامنے کھڑا یہ وہی
طالبعلم تھا جس نے یہ بے ادبی کی تھی۔ شاید یہ ساری حالت و محرومی اس بے
ادبی کا نتیجہ تھا۔
عبداﷲ کو دیکھ کر مجھے اساتذہ کی ان باتوں پر یقین ہوگیا تھا دین میں
قابلیت و ذہین ہونا شرط نہیں ہے، اﷲ کے ہاں قبولیت شرط ہے اور یہ قبولیت تب
حاصل ہوگی جب استاد کا ادب و احترام ہوگا، واقعی سوفیصد سچ کہا گیا تھا۔
|