آج کی خاموشی نسلوں کو بھگتنی پڑجائے گی !

ہمارے وزیر اعظم عمران خان ابھی تک خوابوں کی دنیا میں بسے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ مسلسل حزب اختلاف پر کرپشن کے الزامات اور کیچڑ اچھالنے سے عوامی حمایت جاری رہے گی اور ان کی جانب سے دیئے جانے والے ’’لولی پاپ‘‘ کو کھا کرعوام صبرو شکر کر لے گی۔عمران خان نے عوام کو دلاسوں ،وعدوں اور یو ٹرن کے علاوہ کیا دیا ہے؟خود کو محب الوطن اور عوام کا ہمدردکہنے اور حز ب اختلاف میں دنیا بھر کی برائیاں گنوانے والے عمران خان کی دائمی گمراہی یہی ہے کہ وہ جتنا کہتے ہیں، اس قدر کرتے نہیں ہیں ۔ان کا عمل قول سے متضاد ہوتا ہے ،اگر متضاد نہیں ہوتا تو مختلف ضرور ہوتا ہے ۔قرآن حکیم نے جا بجا اس بات کو واضح کیا ہے ۔ترجمہ:’’ مسلمانو۱ تم کیوں ایسی بات منہ سے نکالتے ہو جو کرتے نہیں ؛اﷲ کے حضور یہ بات بڑی ہی نا راضگی کا موجب ہے کہ تم کہو ،مگر کرو نہیں ۔‘‘

اگر عمران خان واقعی حق و باطل کی جنگ لڑتے تو خود اپنے عمل کو قول کے مطابق کر کے دکھاتے،لیکن ان کا عمل کسی سے پوشیدہ نہیں ۔انہوں نے ہر عہد کو توڑا ،ان کے تمام وعدے جھوٹ پر مبنی رہے اور اپنی ہٹ دھرمی سے ملک اور غریب عوام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔کیا عمران خان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے پاس وقت محدود ہے اور اسے انہیں بہترین طریقے سے بروئے کار لانے کی کوشش کرنا ہے ،لیکن وزیر اعظم نے تمام وقت اور صلاحیت سب سیاسی حریفوں سے دشمنی کرنے میں گزار دیا ہے ۔انہیں کوئی غرض نہیں کہ غریب عوام کس حال میں گزر بسرکر رہی ہے ۔غریب عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ،حکمران نمک چھڑکنے پر لگے ہیں ۔یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے۔

ایک جانب عوام معاشی مشکلات کی چکی میں پس چکے ہیں،لیکن دوسری جانب عمران خان اپنی معاشی ٹیم کو شاباشی دیتے نہیں تھکتے ۔اسی لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ حکمران نا اہلی اور نا لائقی کے ریکارڈ توڑ چکے ہیں ۔حکومت باتوں یا تعریفی کلمات سے نہیں بلکہ اچھی حکمت عملی اور فہم و تفہیم سے چلا کر نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔لوگ پریشان ہیں کہ ان کا ماہانہ بجٹ قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔ماہانہ بجٹ مقامی منڈی سے جڑا ہوتا ہے ۔جیسے ہی حکومت پیٹرول ،بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان کرتی ہے ،ہر پاکستان کی جیب سے خاطر خواہ رقم نکل جاتی ہے ۔ٹرانسپورٹ کے کرائے پیٹرول کی قیمتوں سے بڑھنا لازمی ہیں ۔مصنوعات کا منڈی تک پہنچنے کے کرائے میں اضافے سے مصنوعات کی قیمت بڑھ جاتی ہے ۔یوٹیلٹی بلز میں اضافے کی بنا پر عام آدمی کی آمدنی ساکت ہونے کی وجہ سے ہر ماہ اس کی قوت خرید کم ہوتی ہے ۔ملک بھر میں عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے ۔جب بجلی کے بل میں ایک روپے فی یونٹ کا اضافہ ہوتا ہے تو عام آدمی جیب سے اربوں روپے قومی خزانے میں منتقل ہوتے ہیں یہ حکومتی مشکلات میں تو کمی کا سبب بنتے ہیں،لیکن اس رقم نے غریب خاندانوں کے منہ سے کتنے نوالے چھینے ہوتے ہیں ۔

دوسرے مالی سال کا نصف ختم ہو چکا ہے ،لیکن مہنگائی میں اضافہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔حکومتی وزیر کا کہنا ہے کہ پاکستان گنا اور گندم اگانے سے ترقی نہیں کرے گا۔اب اس نا اہل وزیر کو کون سمجھائے کہ انسان کی خوراک دنیا بھر میں گندم ،آلو ،سبزی اور پھلوں پر مشتمل ہے ،ہمارا ملک زرعی وسائل سے مالا مال ہے ،اگر ملک زرعی ہے تو زرعی وسائل کے بل پر ہی ترقی کرسکتا ہے ۔زرعی معیشت کو ترقی دیئے بغیر ترقی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو گا۔

ویسے عمران خان کو دو تین دن کی چھٹیاں لے کر بنی گالا میں چلے جانا چاہیے اورانہیں اقتدار میں آنے سے پہلے کی اپنی تمام تقاریر غور سے سننی اور دیکھنی چاہیے ،پھر موازنہ کریں کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد کوئی ایک کام بھی ہوا ہے جو وہ ان تقاریر میں کہتے رہے ہیں․․․جواب نہیں میں ملے گا۔ان کی وہ تقاریر جس میں ماؤں کو خوراک کی کمی پر خوب بھاشن دیا تھا،ضرور دیکھ لیں ․․․پھر اندازہ کریں کہ میرے اقتدار میں آنے کے بعد کتنی ماؤں کو اچھی خوراک ملی ہے؛پیدا ہونے والے بچوں سے کتنے بچے صحت مند دماغ کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں․․․بھوک ہوش و ہواس ،تہذیب و ثقافت اور سلیقہ سب چھین لیتی ہے ۔اب غریب عوام عمران خان سے شکایت کی بجائے انہیں بددعائیں اور کوسنے لگ گئے ہے ۔ملک کی 70فیصد آبادی لنگر خانوں سے نہیں پالی جا سکتی ۔اس کے لئے زراعت ، صنعت اور تجارت سمیت تمام شعبے فعال کرنے کی ضرورت ہے ،لیکن اس کے لئے اپنے ارد گرد لوگوں میں تبدیلی اور سنجیدہ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس پر توجہ مرکوز کرنے کی بھی ضرورت ہے ؛کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن تیار کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کی جائیں ۔
عوام کو موجودہ حکومت پر امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہیے ۔اس نا اہل حکومت سے چھٹکارا ہی حیات ہے ۔اس کے لئے سفر شروع کرنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔ہمیں امن ،مستحکم اور خوش حال ملک چاہیے تو کامل خود فروشی اور قربانی کے ساتھ سرشار ،دل میں ایمان کی لازوال روح ،صبر کی ان تھک اور اٹل طاقت رکھنے ،شوق اُن کا رفیق و دمساز ہو،غرم قدم قدم پر ہمت بڑھائے اور ہمت آگے بڑھ کر راہ صاف کرے ۔ایسے ہی ہزاروں جانبازوں کو اجتماعی طور پر قدم بڑھانا ہو گا۔اگر ملک قربانی و خودفروشی کا یہ رحلہ طے کر لے گا تو پھر اُس کی طاقت نا قابل تسخیر ہو جائے گی،تب کوئی ہتھیار اُس پر اثر نہ کرے گا،کوئی فوج اُس کو فتح نہیں کر سکتی ہے۔آسمان کی تمام بجلیاں بھی اگر اتر آئیں تب بھی قربانی کی قہر مان طاقت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔یہی وقت ہو گا جب ملک کے نظام کو آئین اور قانون کے مطابق چلایا جا ئے گا۔تبھی اقتدار پر براجمان شخصیات کا گھمنڈ چکنا چور ہو گا۔انہیں حق و انصاف کے سامنے جھکنا پڑے گا۔کیوں کہ نا اہلی سے بھر پور حکومت سے جان چھوڑانے کے لئے باہر حال قربانی تو دینا پڑے گی ۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ با قاعدہ تحریک چلائی جائے،جس میں مولانا فضل رحمان جیسا انداز نہیں بلکہ کامل قربانی ، استقامت اور نظم پیدا کیا جائے ۔قربانی سے مقصود ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں خود فروش تیار ہوں ،جو کامل ایمان و یقین کے ساتھ سچائی کے ہاتھ بک چکے ہوں۔استقامت سے مقصود ہے کہ اُن کا جذبہ عارضی و ہنگامی نہ ہو،بلکہ اس میں پوری طرح قرار و جماؤ پیدا ہو جائے ۔وہ سمندر کی طرح لبریز ہو جائیں ،پہاڑ کی طرح خود اپنے سہارے کھڑے ہو جائیں ۔نظم سب سے بڑی شرط ہے ،مقصود اس سے یہ ہے کہ تمام حلقہ ایک رشتہ میں منسلک ہو جائیں ،کوئی کڑی اس سے باہر جانے نہ پائے ۔سب کے دل اور جذبات ایک ہی سانچے میں ڈھل جائیں ۔یہی ضبط اور اپنے اوپر قابو کا ملکہ حاصل کریں ۔اشتعال ان کو ہلا نہ سکے اور غیظ و غضب اُن پر قابو نہ پا سکے۔یہی جذبہ ہماری بقا کے لئے مقصود ہے۔

ہمارے وطن عزیز کو چاروں طرف سے خطرات لاحق ہیں ۔خارجی دشمن اتنے خطرناک نہیں جتنے داخلی دشمنوں نے نقصان پہنچا رکھا ہے ۔ملک و قوم کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ کھوکھلا کر دیا ہے ۔اسے بچانے کے لئے ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔یک زبان ہو کر ایک تحریک کے طورپرجدوجہد شروع کر دینی چاہیے اور کسی مقتدر طاقتوں کے خوف سے اپنے ملک اور حقوق کی پامالی برداشت نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ آپ کی آج کی خاموشی آنے والی نسلوں کے لئے زہرِ قاتل بن جائے گی۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109632 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.