بال ٹھاکرے نے جس وقت شیوسینا کا آغاز کیا تھا تو وہ
ہٹلر کے مداح اور الیکشن کے دشمن تھے۔ بعد میں انہوں نے دس فیصد سیاست اور
نوےّ فیصد خدمت خلق کا فارمولا بنا کر انتخابی میدان میں بڑے احتیاط سے قدم
رکھا ۔ انہیں شاید پتہ تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ آج شیوسینا بیس فیصد
سیاست اور اسیّ فیصد سماجی خدمت کا دم بھرتی ہے مگر صورتحال اس سے متضاد ہے۔
خیر بیس سال قبل جب پہلی بار شرد پوار کی بیجا خود اعتمادی جب شیوسینا کو
اقتدار کی کرسی پر فائز کیا تو بال ٹھاکرے نے ایک ایسا قدام کردیا جس کا
یہاں تصور بھی محال تھا ۔ انہوں نے اپنے سب سے وفادار براہمن منوہر جوشی کو
وزیراعلیٰ بنا دیا۔ مہاراشٹر میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا لیکن بال
ٹھاکرے جو سوچتے تھے وہ کر گذرتے تھے ۔ انہوں نے انجام کی فکر صرف اسی وقت
کی جب جیل جانے کی نوبت آئی ورنہ جو من میں آیا بغیر کسی پاس و لحاظ کے
کہہ دینا ان کی فطرت تھی ۔
اپنے ہی کوہِ نور انسٹی ٹیوٹ کے خودساختہ پرنسپل منوہر جوشی کی حلف برداری
کے وقت بالاصاحب ٹھاکرے نے شیوسینکوں کو مخاطب کرکے کہا تھا اگر یہ
وزیراعلیٰ تمہارےکام نہیں کرے گا تو میں اس کی کمر پر لات مار کر اسے بھگا
دوں گا۔ اس طرح کی ذلت سرِ عام کوئی مراٹھا رہنما برداشت نہیں کرتا لیکن
منوہر جوشی نے زہر کا وہ پیالہ ہنس کر پی لیا۔ اپنے سے طاقتور کے آگے جھک
جانا یہ براہمن سماج کی خصوصیت ہے ۔ وزیراعظم کے سامنے موہن بھاگوت بھی یہ
کرتے ہیں۔ چار سال گزر جانے بعد بالا صاحب ٹھاکرے کو احساس ہوا کہ ان کا یہ
وفادار سپہ سالار دن رات دنڈوت تو بجا لاتا ہے لیکن پھر سے انتخاب نہیں جیت
سکتا۔ اس کی ایک وجہ تو مہاراشٹر میں براہمنوں کی مختصر آبادی اور دوسری
ان کے خلاف دیگر طبقات کے اندر پنپنے والے نفرت کے جذبات ہیں جو ان کے اپنے
ہاتھ کی کمائی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے طبقات کو اپنے سے کمتر سمجھنے والے
براہمنوں کے لیے انہیں ساتھ لے کر چلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
بال ٹھاکرے نے اسی لیے جوشی کی جگہ مراٹھا سماج کے نارائن رانے کو
وزیراعلیٰ بنا دیا ۔ ان کا انتخاب غلط تھا۔ وہ اگر چھگن بھجبل پر اعتماد
کرتے تو شاید شیوسینا انتخاب نہیں ہارتی اور بھجبل جیسا رہنما شیوسینا سے
الگ نہیں ہوتا ۔ بالا صاحب ٹھاکرے نے جو غلطی کی تھی اس کو مودی جی نے
دوہرادیا۔ دیویندر فردنویس نے اپنی فطرت کے مطابق داخلی حریفوں کا ایک ایک
کرکے صفایہ کردیا۔ اس نقصان کی بھرپائی کے لیے باہر سے کمک درآمد کی اور
اپنے ساتھ ان ابن الوقتوں کا سیاسی مستقبل بھی تاریک کردیا جو اقتدار کی
خاطر اپنی جماعتوں کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ شاہ جی نے
انتخابی مہم سے لے کر حکومت سازی تک دیویندر فرد نویس پر خوب اعتماد کیا
اور انہیں پوری چھوٹ دی مگر دونوں مرحلوں میں انہیں مایوسی ہاتھ لگی ۔
سنگھیوں نے چانکیہ کہہ کہہ کر ایک بنیا کو براہمن بنا دیا ہے ورنہ بالا
صاحب ٹھاکرے سے شاہ جی سیاست کا بنیادی سبق ضرور سیکھ لیتے ۔ انتخاب کے بعد
بھی اگر بی جے پی ہائی کمان نے ایکناتھ کھڑسے یا کسی پختہ کاررہنما کے
ہاتھوں میں حکومت سازی کی ذمہ داری سونپ دی ہوتی تو اسے یہ دن نہیں دیکھنا
پڑتا۔ یہ حسنِ اتفاق ہے سب سے پہلے جن ۷ وزراء نے حلف لیا ان میں دلت اور
اوبی سی تو ہے مگر ایک بھی براہمن نہیں ہے۔
انتخابی نتائج کے بعد جب دباو بنانے خاطر شیوسینا نے کہہ دیا کہ ہم سبھی سے
بات کریں گے تو اس میں برا ماننے کی کوئی بات نہیں تھی اس لیے ان سب میں بی
جے پی بھی شامل تھی بلکہ سب سے اوپر تھی ۔ دیویندر فردنویس کے دل میں
شیوسینا کے خلاف اتنی ہی کدورت بھری ہوئی تھی تو وہ علی الاعلان اجیت پوار
بلکہ پارٹی سپریمو شرد پوار سے معاملات طے کرتے ۔ بات بن جاتی تو آن بان
شان کے ساتھ حلف برداری کی رسم ادا ہوتی جیسا کہ ابھی ہوئی ہے۔ یعنی ترتیب
کے لحاظ سے پہلے تو صدر راج کے خاتمہ کا اعلان ہوتا پھر ارکان اسمبلی حلف
اٹھاتے اور تیسرے مرحلے وزرائے اعلیٰ سمیت دیگر وزیر رازداری کی قسم کھاتے
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نصف شب میں اچانک وزیراعظم نے کابینہ کا اجلاس طلب کیے
بغیر اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرکے صدر راج کا خاتمہ کیا اور اسی
وقت صدارتی مہر لگا کر گورنر کے لیے احکامات جاری کردیئے ۔ گورنر صاحب نے
مرکزی حکومت کے حکم کی تعمیل میں سورج کے طلوع ہونے کا انتظار تک نہیں کیا
اور ترتیب الٹ کر سب سے پہلے وزیراعلیٰ اور ان کے نائب کی حلف برداری
کروادی ۔ اس کے فوراً بعد وزیر اعظم اور وزیرداخلہ کی طرف سے ان کے نام
مبارکباد کا پیغام بھی آگیا۔
یہ عجیب رات تھی کہ جس میں عوام تو گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے لیکن صدر
مملکت، وزیر اعظم ، وزیرداخلہ ، گورنر، وزیراعلیٰ اور ان کے نائب سب جاگ
رہے تھے ۔ کاش کے وہ بھی سوئے رہتے تاکہ آگے چل کر ہونے والی ہزیمت ان کی
نیند نہیں اڑاتی۔ ایک وہ حلف برداری تھی جس میں راج بھون کے اندر وزیراعلیٰ
پاکٹ مار اور ان کا نائب گرہ کٹ نظر آرہا تھا اور ایک یہ شیواجی پارک کے
وسیع و عریض میدان میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں رسمِ حلف برداری ہے کہ
جس میں ملک بھر کے رہنما موجود تھے ۔ ان دونوں کے فرق کی بنیادی وجہ نیت کا
فرق ہے۔ گودی میڈیا عام طور پر حزب اختلاف کی خبروں کو نظر انداز کردیتا ہے
۔ ادھو ٹھاکرے کی حلف برداری اگر راج بھون میں ڈنکے کی چوٹ پر ہوتی تب بھی
ہریانہ کی مانند اسے دو تین منٹ میں نمٹ لیا جاتا اور پھر نظریاتی تضادات و
عدم استحکام کے اندیشوں پر مباحثہ کرکے ماحول کو بگاڑ دیا جاتا لیکن اس
عظیم الشان اہتمام نے میڈیا کو تقریباًڈھائی گھنٹے تک شیواجی پارک سے ہٹنے
نہیں دیا ۔ اس لیے کہ اگر وہ وہاں سے ہٹنے کا خطرہ مول لیتے تو ناظرین کسی
اور چینل کی جانب کوچ کرجاتے ۔ اس کو کہتے ہیں نہلے پر دہلا ۔ اس طرح میڈیا
پر دباو بنایا جاتا ہے اور عوام کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کیا جاتا ہے۔
بی جے پی تو خیر ایک بڑی پارٹی بن گئی ہے اس لیے اس کا قلعہ آہستہ آہستہ
منہدم ہوگا لیکن بیچارے دیویندر فردنویس کے ستارے تو اسی دن گردش میں آگئے
جب ممبئی میں ادھو ٹھاکرے کی حلف برداری ہونی تھی۔ سابق وزیراعلیٰ پر یہ
الزام ہے کہ انہوں نے اپنے انتخابی حلف نامہ میں ان پر دائر دو تعذیری
مقدمات کی پردہ داری کرنے کا جرم کیا ہے ۔ یہ شکایت ناگپور کے صدر تھانے
میں درج ہے اور اس کا نوٹس لیتے ہوئے یکم نومبر کو مجسٹریٹ نے کارروائی کا
آغاز کیا۔ دیویندر فردنویس جب اقتدار پر فائز تھے تو وکیل ستیش اوکے کی
درخواست کو نچلی عدالت نے مسترد کردیا تھا اور ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے
کی تائید کی تھی لیکن ستیش نہیں مانے اور انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
یکم اکتوبر کو عدالت عظمیٰ نےدفع ۱۲۵ اے کے تحت قابل تعذیر معاملے پر سماعت
کا حکم دے دیا۔ اس کی پاسداری کرتے ہوئے مجسٹریٹ ایس ڈی مہتا نے دیویندر
فردنویس کے خلاف عدالت میں حاضر ہونے کا سمن جاری فرمادیا ۔ دلچسپ بات یہ
ہے کہ دیویندر فردنویس پر دھوکہ دھڑی اور جعلسازی کے الزامات ہیں ۔ وہ اس
فن میں کتنے ماہر ہیں اس کا نظارہ تو ساری دنیا نے کرہی لیا ہے ۔فی الحال
دیویندر فردنویس کی قابلِ رحم حالت کو دیکھ کر بے ساختہ معروف
محاورہ’سرمنڈاتے ہی اولے پڑے‘ یاد آتا ہے ۔
|