مگر تم کیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

چند روز قبل بھٹو مرحوم کی برسی منائی گئی ، تقریبات بھی ہوئیں اور بھٹو ازم سے وفا کے لئے تجدید عہد بھی ،نعرے بھی لگائے گئے اور دعوؤں کا دھارا بھی حسب سابق بہتا رہا ، اس دوران جو نعرہ سب سے زیادہ سنائی دیا وہ ”یہ بازی حق کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے“ تھا اور اسی نعرے نے برسی گزر جانے کے باوجود اسی موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور کردیا کیونکہ بھٹو کی شخصیت، سیاسی بصیرت، اور حاضر دماغی کو دیکھتے ہوئے یہ نعرہ انتہائی کھوکھلا دکھائی دیتا ہے ، انفرادی خامیاں اور سیاسی غلطیاں اپنی جگہ لیکن اس مملکت خداد کے لئے مرحوم نے جو کچھ کیا وہ کسی دوسرے کے بس میں نہیں۔بتیس سال پہلے تین اور چار اپریل 1979ءکی رات کے آخری پہر اس دیپ کو بجھا دیا گیا جس نے پاکستان کے کچلے طبقات کو اپنے حقوق کے لئے لڑنے کی راہ دکھائی تھی۔ایسا کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے یہ فرض کرلیا تھا کہ چئیرمین بھٹو کے جسمانی قتل کے بعد استحصال کے خلاف لڑائی ،طبقاتی جدوجہد اور حریت پسندی بھی قتل ہوجائے گی، مگر بھٹو چونکہ کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک سوچ اور نظریے کا نام بن چکا تھا اس لئے ضیا الحق اپنی تمام تر کوششوں کے باجود بھٹو ازم کو مات نہ دے سکے۔ذوالفقار علی بھٹو کے پاس قتل گاہ میں اپنی جان بچانے کا راستہ موجود تھا،کہا گیا تھا کہ بھٹو ملک چھوڑ جائے اور سیاست سے کنارہ کشی کرجائے تو اسکے ناکردہ گناہ ، اسکے نتیجے میں قائم جعلی مقدمے اور اس سے بھی زیادہ بوگس عدالتی فیصلے کے ذریعے سنائی جانے والی موت کی سزا سے اس کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔پیغام رساں چیر مین بھٹو کی پہلی اہلیہ محترمہ امیر بیگم تک پہنچے اور وہ غیر سیاسی خاتون اپنے خاوند کی جان بچانے کے لئے سرگرداں ہوئیں۔انہوں نے بہت اصرار اور دباؤ سے بیگم نصرت بھٹو کو ”معافی نامے“کے کاغذات بھٹو صاحب تک پہنچانے پر مجبور کیا۔بھٹو نے ” معافی نامے“ کو دیکھا اور اسکو مسترد کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا کہ” میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کے بجائے فوج کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا“۔یہ ایک واضع چناؤ تھا۔موت کا راستہ چن لیا گیا تھا اور موت کے انتخاب سے اپنی پارٹی اور سیاسی لواحقین کو پیغام بھی دے دیا گیا تھا کہ جینا ہے تو لڑ کے جیو ورنہ موت بہتر ہے۔اسی راستے کا انتخاب بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس وقت کیا جب موت یقینی طور پر ان کا تعاقب کر رہی تھی۔

آج بھٹو کی شہادت کے بتیس سال بعد بھٹو کی پارٹی جس راہ پر چل رہی ہے یہ راہ تو بھٹو کے بدترین دشمنوں نے بھی پیپلز پارٹی کے لئے منتخب نہ کی تھی۔آج بھٹو کی پارٹی پر بھٹو کے قاتلوں اور انکے سیاسی بالکوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔موجودہ حکومت پر فائز ضیاء الحق کی مجلس شوری کے اراکین بھٹو کے نام کی بھیک میں ملنے والے اقتدار پر فائز بھی ہیں اور بھٹو کو گالیاں بھی دے رہے ہیں۔وہ بھٹو کے عظیم کارناموں اور اقدامات کو سنگین غلطی قرار دے کر بھٹو کے نظریات کی توہین کر رہے ہیں۔بھٹو کے تمام اقدامات کے برعکس سیاسی ،معاشی ،نظریاتی پالیساں اختیار کرتے ہوئے نہ کسی کو شرم محسو س ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ پوری پارٹی کو سانپ سونگھ گیا ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج بھٹو کے مزار کی طرف رواں دواں لاکھوں کارکنوں کے قافلے عجب تضاد کا شکار ہیں۔بھٹو کے نام کو جس بے ہودگی اور مجرمانہ انداز میں استعمال کیا جارہا ہے اس پر تاریخ ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔بھٹو جس نے پیپلز پارٹی بناتے ہوئے پارٹی کا تشخص ہی سامراج دشمن تشکیل دیا تھا اسکی پارٹی کو امریکی سامراج کی باندی بنا دیا گیا ہے۔ جس سرمایہ داری سے ٹکرانے کے جرم میں بھٹو نے مردانہ وار موت کے پھندے کو قبول کر لیا تھا اس سرمایہ داری نظام کی ظلمت سے پارٹی اور پاکستان کو اندھیروں کی طرف گامزن کیا جارہا ہے۔

ظلم یہ ہورہا ہے کہ بھٹو کے نام پر نعرے لگانے اور سیاست چمکانے والوں نے پارٹی کے تمام ڈھانچوں میں پیپلز پارٹی کے بنیادی نظریات جن کو بھٹو ازم کہا جاتا ہے کا تذکرہ کرنا تک ممنوع قرار دے رکھا ہے۔آج پارٹی کی نچلی تہیں تو ویسے ہی پامال ہوچکی ہیں مگر بالائی ڈھانچوں میں رکن بننے کی اہلیت کا پیمانہ سرمایہ داری نظام کی تابعداری اور سامراجی گماشتگی قرار پایا ہے۔کوئی سیاسی کارکن پارٹی کے کسی بھی درجے میں بھٹو شہید کے نظریات اور پارٹی کے تاسیسی نظریات کو رائج کرنے کی بات کرنے پر اپنی پوزیشن پر قائم نہیں رہ سکتا۔حیرانگی یہ ہے کہ پھر بھی بھٹو کا نام لے کر سیاست کی جارہی ہے۔ موجودہ پیپلز پارٹی اپنے دشمنوں کے راستے پر چل کر اگر کوئی کامیابی حاصل کرلیتی تو اس کے پاس اس کو اختیار کرنے کی کوئی دلیل بھی ہوتی مگر تمام تر غداریوں کا نتیجہ ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔بھٹو کے سیاسی وارث بن کر اقتدار پر قابض گروہ کا نامہ اعمال مہنگائی،بے روزگاری،جہالت،بیماریوں،بد امنی،لوڈ شیڈنگ، پسماندگی ،لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کے پھیلاؤ کے کارناموں سے بھرا ہوا ہے۔یہ سب تو” بھٹو ازم“ کو درحقیقت قتل کرنے کے مترادف ہے۔

آج ہر دوسرا ایس۔ایم۔ایس موجودہ پارٹی قیادت اور اسکی پالیسوں کے ’ہجو‘پر مشتمل ہوتا ہے۔شرمندگی کی بات یہ ہے کہ گناہ گار موجودہ حکمران اور پارٹی قیادت ہے مگر بدنام بھٹو اور اور اسکی پارٹی ہورہی ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات کی قرارداد نمبر 4کے شروع میں لکھا تھا کہ ”پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کے مقصد کو اگر ایک فقرے میں واضع کیا جائے تو یہ ہے کہ پاکستانی سماج کی غیر طبقاتی معاشرے میں بدلنا جو کہ آج کے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے“۔مگر موجودہ قیادت اور پارٹی کے بالائی ڈھانچے سوشلزم کا نام سننے کے روادار نہیں اور دوسری طرف پاکستانی سماج کو تو یہ غیر طبقاتی معاشرے میں کیا ڈھالیں گے انہوں نے پارٹی کے تمام ڈھانچوں کو طبقاتی ہیئت دے کر صرف طبقہ بالا سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

یہ نہ تو پارٹی کے بنیادی اصولوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کو ایسی باتوں سے دلچسپی ہوسکتی ہے جن پر عمل درآمد سے ان کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کے راستے بند ہوتے ہوں۔ بھٹو کی بتیسویں برسی پر اسکی پارٹی درحقیقت لاوارث ہوچکی ہے۔اسکی سیاسی میراث قابضین کی من مانیوں اور بداعمالیوں کے ہاتھوں سسک رہی رہی ہے۔کارکنوں اور اور اس ملک کے کروڑوں محکوموں کے لئے موجودہ بے ثمر اقتدار شرمندگی کا باعث ہے۔بھٹو نے اپنی جان کی قربانی موجودہ حکمرانوں کے مذموم مقاصد کے لئے تو ہرگز نہیں دی تھی وہ تو اس ملک کو سرمایہ داری اور جاگیرداری سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔بھٹو نے موت کی کوٹھری میں بھی سچ کہنے اور لکھنے سے گریز نہیں کیا تھا وہ اپنی سیاسی وصیت کے طور پر لکھی گئی تصنیف” اگر مجھے قتل کیا گیا؟“ میں لکھتے ہیں کہ”میں اس آزمائش(فوجی بغاوت) میں اس لئے مبتلا کیا گیا ہوں کیوں کہ میں نے اس ملک کے شکستہ ڈھانچے کو جوڑنے کے لئے متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان ایک آبرومندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی،مگر موجودہ فوجی بغاوت کا سبق ہے کہ متضاد مفادات کے حاملین کے مابین مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے کہ یہاں ایک طبقاتی جنگ ناگزیر ہے جس میں ایک طبقہ فتح یاب ہوگا اور دوسرا برباد“۔

یہ ہے بھٹو ازم۔یہی بھٹو کے نظریات اور اسکی سیاسی وراثت ہے مگر بھٹو کی وراثت کے دعوے دار اس پر کس قدر عمل پیرا ہیں؟ یہ اندازہ کچھ زیادہ مشکل نہیں ، آج ہر گھر سے بھٹو نکلنے کا نعرہ تو لگایا جاتا ہے لیکن کوئی بتائے تو سہی کہ کیا تم میں بھٹو کے پائے کا ایک بھی شخص موجود ہے؟بھٹو نعروں کے بجائے عمل پر یقین رکھتے تھے اور آج انکے وارث معجزات کے منتظر”اللہ ٹھیک کردے گا“ کے فلسفے کو اپنائے بیٹھے ہیں ۔گزارش ہے تو صرف اتنی کہ محض نعروں سے قوم کو بہلانے کے بجائے اپنے اجداد کے نعروں پر عمل بھی کر کے دکھائیے کہ یہ طرز عمل کسی بھی طور پیپلز پارٹی کے بانی سے محبت یا عقیدت کا مظہر نہیں، بقول اقبال ”تھے تو آباء وہ تمہارے ہی’ مگر تم کیا ہو،ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!!!!!
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 56943 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.