قومی خزانے سے بے حس حکمرانوں کی عیاشی

حکمرانوں سنو! ملک میں جیت گئی مہنگائی اور مر گئے عوام.....
ویلڈن چوہدری نثارعلی خان اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی......

اَب تک عوام کے لئے روٹی ، کپڑا اور مکان کا دلکش اور دل فریب نعرہ دے کر مسندِ اقتدار پر اپنے قدم رنجا کرنے والی حکمران جماعت پی پی پی اپنی ناقص پالیسیوں کے ساتھ سوائے اپنے لئے وہ سب کچھ کرنے کے جس کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا یہ اپنی عوام کے لئے کچھ نہیں کر پائی ہے جس کے لئے عوام کا اِس سے گلہ ہے اور شائد ہمیشہ ہی رہے کیونکہ اَب عوام یہ بات سمجھتے ہیں کہ :۔
جس کا دعویٰ تھا کہ غربت کو کریں گے نابود
آج وہ لوگ بنے بیٹھے ہیں یارب معبود
خدمتِ قوم ووطن خاک کریں گے وہ لوگ
جن کا مقصود ہو صرف اپنی فلاح و بہبود

اور اِس کے ساتھ ہی اَب مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اپنی ناقص پالیسیوں کے ساتھ ملک میں توانائی کے بحرانوں سمیت مہنگائی بڑھانے اور عوام کو زندہ درگور کرنے کا اپنا ایک ایسا جامع منصوبہ لے کر آئی ہے کہ اگر یہ مزید رہ گئی تو یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی اور توانائیوں کے بحرانوں کے سوا اور کچھ نہیں بچے گا اِس لئے بھی کہ اَب ملک میں بڑھتی ہوئی گرانی اور توانائیوں کے بحرانوں سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس میں حکومت کی ناقص پالیسیاں اور حکمرانوں کی نااہلی ہی بڑی وجہ ہیں۔

جبکہ گزشتہ تین سالوں کے دوران موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے حوالوں سے ایشیائی ترقیاتی بینک کا پاکستان سے متعلق یہ انکشاف کہ آئندہ سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مزید 16فیصد اضافہ تک اضافہ ہوسکتا ہے جو اِس خطے میں مہنگائی کا سب سے بلندترین گراف ہوگا اور اِسی طرح اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) کا اجلاس جو بنیادی طور پربجٹ 2011-12کی تیاری کے لئے تجاویز کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا اِس سے خطاب کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر شاہد ایچ کاردار نے حیران کن انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں موجودہ افراط زر کی شرح جو 14.2فیصد ہوچکی ہے موجودہ مالی سال 30جون 2011کے آخر تک یہ مزید بڑھ کر 15فیصد ہوجائے گی اور اِس کے ساتھ ہی اِنہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اِس کا مطلب یہ ہے آئندہ دنوں میں 173ملین عوام مزید اقتصادی مصائب سے دوچار ہوں گے کیونکہ اِن کی آمدنی تیزی سے کم ہورہی ہے اور اِن کا کہنا تھا کہ عوامی اجناس کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اِس موقع پر اجلاس کے شرکاء نے حکومت سے سفارش کی کہ اگر وہ آر جی ایس ٹی نافذ کرنا چاہتی ہے تو زراعت پر انکم ٹیکس لگائے کیونکہ شہری سیاسی پارٹیاں آر جی ایس ٹی کے تحت حکومت کو مزید ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دینا چاہتیں جب تک زراعت سے واپستہ لوگ ٹیکسوں میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے۔ اور یہ بات درست ہے کہ زراعت سے وابستہ افراد ٹیکسوں کی ادائیگیوں سے مستثنیٰ ہوں اور دوسرے آرجی ایس ٹی اور دوسری شکل میں ٹیکس ادا کرتے رہیں اور یہ کہاں کا اِنصاف ہے کہ ایک طبقہ تو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرے اور دوسرا ٹیکس نہ دے کر بھی مزے کرتا پھرے ۔

بہرحال ! اِس پر اَب دیکھنا یہ ہے کہ اِس گراں قدر سفارش کے بعد حکومت اپنی آر جی ایس ٹی کے نافذ کرنے والی ضد سے پیچھے ہٹتی ہے اور زراعت سے وابستہ لوگوں پر ٹیکسوں کا نفاذ کر کے اپنے وسائل میں اضافہ کرتی ہے یا اِنہیں چھوٹ دے کر آر جی ایس ٹی کا ملک میں نفاذ کرتی ہے ۔بہرحال یہاں ٹیکس کی ادائیگی سے کنی کاٹنانے والوں کے لئے عرض ہے کہ :۔
تاجرانِ حیلہ پرور ہوں کہ صنعتکار ہوں
ٹیکس دیتے ہیں حکومت کو کہاں یہ نفع خور
کیوں خساروں کا بجٹ آئے نہ اپنے ملک میں
جبکہ ہر آجر ہماری قوم کا ہو ٹیکس چور

اگرچہ اِس شعر اور ایشیائی ترقیاتی بینک اور گورنر اسٹیٹ بینک کے یہ ہولناک انکشافات میں صداقت موجود ہے اور یہ حقیقت پر مبنی ہیں کہ یہ دونوں انکشافات جہاں عوام کے لئے پریشانیوں کا باعث بنے ہیں تو وہیں اِنہیں ہمارے اِن بے حس حکمرانوں کے لئے بھی نوشتہ دیوار ہونا چاہئے کہ جن کی ناقص پالیسیوں اور فرسودہ حکمت عملیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا سیلاب آمڈ آیا ہے اور مزید یہ کہ اگر ہمارے اِن عیاش پسند حکمرانوں کی یہی روش قائم رہی تو آنے والے دنوں میں ملک میں مہنگائی کی شرح ایک خطرناک حد تک مزید بڑھ بھی سکتی ہے اِس لئے اِن پر اَب یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ ملک میں ایسی صورت حال پیدا ہونے سے پہلے ہی اپنے اندر چھپی اُن صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں جنہیں یہ اَب تک باہر نہ لاکر اِنہیں استعمال نہیں کرسکے ہیں اور اللے تللے میں پڑے ہیں جس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ ہمارے حکمران جو قومی خزانے پر ایسے قبضہ کر کے بیٹھ گئے ہیں کہ جیسے کوئی ناگ خزانے کی حفاظت پر بیٹھ کر دوسروں کو تو اپنے پھن سے ڈراتا ہے مگر خود خزانے پر بیٹھ کر مزے کر رہا ہوتا ہے یکدم اِسی طرح ہمارے حکمرانوں نے جو قومی خزانے سے اپنی اور اپنے ملکی اہم چاہتی شخصیتوں کو بھی عیاشیاں کروانے میں مگن ہیں جس کے ذریعے یہ ملک کی ممتاز سیاسی شخصیات کے لئے کروڑوں روپے سے بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کا منصوبہ ایک بار پھر پورے زوروشور سے شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے متعلق اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت نے اپنے اِس منصوبے کو جلد ازجلد عملی جامہ پہنانے کے خاطر جائزے کے لئے ایک وزارتی کمیٹی قائم کردی ہے اور اِسے خصوصی طور پر ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اہم شخصیات کی فہرست کا عمل جلد مکمل کرے تاکہ قومی خزانے سے اِن شخصیات کے لئے بلٹ پروف گاڑیاں خریدی جاسکیں ۔یہاں توجہ طلب اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اِسی نااہلی کے باعث اِنہیں ملکی اور عالمی میڈیا پر تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر یہ بے حس اور بے پرواہ بنے قومی خزانے سے اپنی اور اپنے پیاروں کی عیاشیوں کے لئے وہ سب کچھ گزرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کے قومی خزانہ خالی ہو گا اور ملک کے ساڑھے سترہ کروڑ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔

جبکہ دوسری جانب حکمرانوں کے اسی لچھن کو دیکھتے ہوئے آج ملک کا ایک ایک فرد اِن سے انتہائی عاجزی اور اِنکساری سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ یہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اُن عیاشیوں کو کم کرنے کا ضرور کوئی نہ کوئی ایسا سامان پیدا کریں جس سے ملک میں مہنگائی کے سیلاب کا زور ٹوٹے اور عوام کو ریلیف ملے مگر باوجود ایشیائی ترقیاتی بینک اوراقتصادی مشاورتی کونسل کے اِن انکشافات کے بعد کہ پاکستان کے نااہل حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور اِن کی عیاشیوں کے باعث پاکستان میں آئندہ سال مہنگائی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں بند ہیں جبکہ اِنہیں اپنی یہ بند آنکھیں کھول لینی چاہئیں اور اپنے اِس سمیت ایسے وہ تمام منصوبے ختم کردینے چاہئیں جس سے قومی خزانے پر اِن کی عیاشیوں کے لئے اضافی بوجھ پڑے ۔

اگرچہ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت کا ملکی اہم شخصیات کے لئے بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کے منصوبے کی بھنک جیسے ہی فاٹا کے منتخب اراکین کے کانوں تک پہنچی تو اِن کے بھی کان کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے بھی اپنے سینے پھولا کر اور گردنیں تان کر اِس بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کے لئے اپنے لئے بھی بلٹ پروف گاڑیوں کا مطالبہ کر ڈالا جس کے بعد حکومتی سطح پر اَب ایک بار پھر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کا یہ حکومتی منصوبہ متنازع شکل اختیار کرجائے گا اور جو کہ اَب بند کردیا جائے گا۔یہاں ہماری یہ دعا ہے کہ کاش اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو جائے اور یہ منصوبہ بند ہو جائے اور ہمارے حکمرانوں کے مردہ ضمیر زندہ ہوجائیں ۔جن کے لئے یہ شعر عرض ہے کہ:۔
غریب شہر امیر و کبیر ہوجائے
اِلہی قوم مری بے نظیر ہو جائے
ضمیر بیج رہے ہیں جو مال وزر کے لئے
خدا یا اِن کا بھی زندہ ضمیر ہوجائے

بہرکیف!اِس حقیقت کو بھی جھٹلانا شائد موجودہ حکمرانوں کے لئے ممکن نہ ہو کہ موجودہ حکومت نے اپنے لئے تو سوفیصد فقیدالمثال کامیابیاں حاصل کیں ہیں مگر ملک کے غریب اور مفلوک الحال عوام کے ریلیف کے لئے یہ کچھ بھی نہ کرسکی ہے مگر اِس کے باوجود بھی اِس کا یہ کہنا ہے کہ اِس نے ملک کے غریب اور پریشان حال عوام کے لئے اتنا کچھ کردیا ہے کہ اِس کے ثمرات اِن کی دہلیزوں تک عنقریب پہنچیں گے اور ملک میں خوشحالی آئے گی ۔جبکہ ملک کے غریب عوام مہنگائی، بے روزگاری اور چودہ سے سولہ گھنٹے بجلی کے لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں اتنے بیزار ہوچکے ہیں کہ وہ اِس حکومت کے خاتمے کے لئے دن رات ربِ کائنات سے دعائیں مانگ رہے ہیں مگر اِن کی یہ دعائیں ابھی یوں پوری نہیں ہورہی ہیں کہ اِن کے اپنے اعمال بھی کچھ درست نہیں ہیں اللہ سزا کے طور پر اِن کی یہ دعائیں فوراََ قبول نہیں کر رہا ہے جس روز عوام اللہ سے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ لی تو اُسی دن اللہ اِن حکمرانوں کی رسی بھی کھینچ لے گا جو عوام پر بے تحاشہ مہنگائی کی شکل میں ظلم کر رہے ہیں اور اِن کی ایسی پکڑ کرے گا جس سے یہ چھوٹ بھی نہیں پائیں گے اور ایسا کڑا احتساب کرے گا کہ ساری دنیا اِن کو نشانِ عبرت بنتا دیکھ کر اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر اللہ کی پناہ مانگے گی۔

جبکہ دوسری جانب یہ امر قابلِ تحسین ہے کہ قائد حرب اختلاف چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں قائم پارلیمانی احتساب کے سب سے بڑے ادارے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پچھلے اڑھائی سالوں کے دوران سرکاری اداروں سے مالی بدعنوانیوں کے ضمن میں 68ارب روپے کی ریکوری کا نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے جس کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے کہ اِس کمیٹی نے اِسی طرح پچھلے سال سرکاری اداروں سے 24ارب روپے وصول کیے گئے اور موجودہ مالی سال کے 7ماہ کے دوران اَب تک 24ارب روپے کی ہی ریکوری کی ہے اِس طرح ریکوریوں کا یوں ہونا ملک اور قوم کے لئے ایک انتہائی حوصلہ افزا امر ہے جس کے لئے قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کی خدمات قابلِ تعریف اور لائق تحسین ہیں۔جس کے لئے قوم کہہ پڑی ہے کہ ویلڈن ....ویلڈن چوہدری نثارعلی خان ....ویلڈن اِسی طرح اپنی ذہانت اور خدمات سے اُن تمام ملکی لٹیروں سے ملکی دولت کی ریکوری کا عمل جاری رکھیں جو قومی خزانے سے ملک کی دولت کو لوٹ لوٹ کر اپنی جیبیں اور اپنے ذاتی خزانوں کو بھر رہے ہیں جو کہ ایک انتہائی شرمناک عمل ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971188 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.