چائینہ نظام بھی آ گیا تو کیا ہوگا؟

چائینہ نظام بھی آ گیا تو کیا ہو گا؟

دنیا میں برباد تباہ حال کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کرتی قوم کو وقار عزت ترقی خوشحالی کے انقلاب برپا کرنے کے حیرت انگیز مناظر دیکھنے ہوں تو پھر چائینہ کا سفر بہترین انتخاب ہے‘ چین جا کر واپس آنے والے وہاں کے نظام کو دیکھنے کے بعد یہاں کے حالات پر شرمسار ہوتے ہیں‘ چین ملک بھر سے دیگر اپنے مفاد والے ممالک کے سرکاری غیر سرکاری شعبہ جات سے منسلک خصوصاً نوجوانوں طلبہ کو خود اپنے ملک بلاتا ہے تاکہ اس کا انقلاب دیکھ کر اس کی حمایت میں دنیا بھر میں تائید و حمایت کے جذبات کی فضا ہموار ہو یعنی وہ ایک ایجنڈے پر کام کر رہا ہے جس کے عزائم تمام دنیا پر اپنی جڑیں مضبوط کر کے بالا دستی قائم کرنا ہے مگر اس سے پہلے اس نے خود اپنے ملک میں برباد حال کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کرتی‘ عوام کو ایک قوم بنا کر اس کی اجتماعی محنت کام کام اور کام کر کے ترقی خوشحالی فلاح کا انقلاب بر پا کیا‘ چین میں داخل ہونے کے بعد ہر شخص مانیٹرنگ‘ سکریننگ کے سسٹم کے اندر ہوتا ہے آپ ایک کونے سے آخری کونے جس جگہ بھی زیر زمین یا کسی بھی محفوظ ترین مقام پر ہوں یہ سسٹم آپ کا چند لمحوں میں پتہ بتا دیتا ہے کہ آپ کہاں ہیں یہی حال اس کے اپنے ہر شہری کا ہے کہ وہ جہاں بھی ہے اس کی نقل و حرکت اس کے لیے فلیٹ کے گیٹ کے باہر تک کیمروں کی نظر میں ہے اس لیے جرائم کا ہونا انہونی سی بات ہے کسی تحقیق تفتیش گواہ کیس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے یہ نظام خود ساری گواہی دے دیتا ہے گھر سے لیکر سڑک اور چوک چوراہے‘ ہر جگہ صفائی کا ایسا نظام ہے کہ گندگی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی ایک بلدیاتی طرز نظام سے باقی سب محکمانہ نظام کا جنجال یہاں نظر نہیں آئے گا۔ یہاں کی اپنی نجی کمپنیوں کو تمام اُمور تقسیم ہیں جو فرائض سرانجام دیتی ہیں اور تمام انکم خزانہ سرکار کو مل جاتی ہے بجلی‘ ٹیلی فون سمیت تمام نیٹ ورک زیر زمین ہیں اور مواصلاتی نظام ایسا ہے کہ آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں پہاڑوں کو چیر کر سرنگوں سمیت دریاؤں سمندروں سے گزرتے پلوں کے ساتھ ہموار زمین پر سڑک ایک رُخ پر ناک کی سیدھ میں جا رہی ہے ٹرینوں‘ بسوں سے لیکر ہوائی جہازوں تک بجلی کی طرح طے ہوتا سفر ہے تو دفاتر سے لر کر صنعتوں تک کا نظام بڑے بڑے رقبوں کے بجائے مختصر‘ طویل‘ بلند عمارتوں میں ہے‘ ٹیکنالوجی کا استعمال ان کی مشینری کے لمحوں میں ہزاروں مصنوعات تیار کرکے دریا کے پانی کی طرح اچھا لتاہے،بجلی لوڈشیڈنگ کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘ سوئی گیس ہر ایک کو میسر ہے‘ ہر ایک کام کر رہا ہے‘ ایسا کیوں ہے کہ اب چین دوسرے ملکوں میں جا کر سرمایہ کاری کے بڑے بڑے منصوبہ جات لگا رہے ہیں‘ چین سے منصوعات تیار ہو کر باہر جاتی ہیں باہر سے اندر نہیں آ سکتیں‘ یہاں سے کوئی خود باہر جا کر سرمایہ نہیں لگا سکتا تاہم باہر سے جو آئے گا اس کا سرمایہ پہلے آئے گا یہ انقلاب ماوازے تنگ لایا جس نے جاگیردارانہ‘ سرمایہ دارانہ‘ دولت‘ اختیار چند خاندانوں اور ان کے آگے ہاتھوں میں جکڑے آقاؤں کو چیلنج کیا اور غلام عوام کوشعور دیا‘ تائیوان اور اس کے حواری فوج سمیت سسٹم کو خلق کی طاقت سے شکست دیکر بھگایا اب چین میں ریاست عوام ہے اور عوام ریاست ہیں روٹی کپڑا مکان سب کو میسر ہے کہ ہر کنبہ کو سرکاری فلیٹ حاصل ہے ذاتی مکان کوئی نہیں بناتا ہے نہ بنا سکتا ہے‘ سب کچھ سرکار یعنی ریاست کی ملکیت ہے اور ریاست عوام کی ہے معیار زندگی میں اونچ نیچ ختم ہے اس میں بہتری کیلئے محنت محنت اور محنت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے یعنی انصاف کی بالادستی ہے ایک کونے سے آخری کونے تک ایک ہی زبان چینی اور ایک ہی نظام تعلیم ہے‘ باہر سے آنے والے کو ترجمان کے ذریعے یا پھر موبائل ٹیکنالوجی سے اس کی زبان میں بات سمجھائی جاتی ہے اپنی زبان پر سمجھوتہ کسی صورت قبول نہیں ہے‘ ملک کا چالیس فیصد حصہ جنگلات پر محیط ہے جس کی حفاظت مقدس ہے تو نیچرل ماحول بھی مقدم ہے‘ یہاں ایک ہی جماعت ہے جس کی ایگزیکٹو کونسل کے ارکان فیصلہ ساز ہیں یعنی بات آسانی سے سمجھانے کیلئے کہہ سکتے ہیں اس کو مجلس شوریٰ جیسی طاقت حاصل ہے جس کے ارکان اہلیت‘ دیانت‘ فہم و فراست سمیت اُمور میں کمال دسترس رکھتے ہیں ان کو ہی ووٹر کا حق حاصل ہے جو حکومتوں کا انتخاب کرتے ہیں‘ یہاں سوشل میڈیا کی کوئی بھی جنس نہیں ہے ای میل سرکار کے بغیر ممکن نہ ہے نہ ہماری طرح سیاست کا حال ہے نہ میڈیا کا جال ہے سرکاری ٹی وی اور اخبارات اپنی ریاست کے بین الاقوامی اور قومی سطح پر کارناموں،کامیابیوں کے بارے میں قوم کو بتاتے ہیں۔حکومت اور ریاست ایک ہی چیزہیں اس لیے ان کے خلاف بات بھی کوئی نہیں کرتا ہے کہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک اور برتاؤ ہے تاہم چینی باشندگان اپنے ملک کے اندر کے اوصاف کے برعکس بیرون ملک جا کر مختلف ہو جائیں تو یہ ان کا تضاد ہے جس سے ان کی ریاست کو غرض نہیں ہے یہ چین جو اب دنیا میں معاشی اور فوجی ہر لحاظ سے سپر پاور بننے جا رہا ہے اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ممبر پاکستان نے بنوایا مگر خود اس کا کیاحال ہے یہ چین سڑکات‘ صنعتوں اور مصنوعات سمیت یہاں آ گیا ہے اگر اس کا نظام بھی آ گیا تو پھر کیا ہو گا شاید 2005 کے زلزلے کے بعد زلزلہ زدہ علاقوں میں جس طرح ہرامیر اور غریب بڑا چھوٹا حکمران رعایا سب ایک جیسے ہو گئے تھے ویسا ہی ہو جائے؟

 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.