تعلیم نہ کھپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعلیم نہ کھپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایچ ایس سی کی تحلیل،حکومت کا ایک انتقامی فیصلہ

اسلام تعلیم اور تعلّم سے وابستہ افراد کو معاشرے کا سب سے اہم فرد قرار دیتا ہے، حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ”علم حاصل کرو،چاہے اُس کیلئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔“یہ قانون فطرت ہے کہ علم قوموں کی ترقی کی بنیاد اور اساس ہوا کرتا ہے،قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا کردار ہمیشہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے،دنیا میں وہی قومیں اور ممالک مرجع خلائق رہے جنھوں نے تعلیمی میدان ترقی کی،ایک وقت تھا جب تعلیم کی وجہ سے مسلمانوں کو دنیا کی امامت کا مرتبہ حاصل تھا،یہ وہ دور تھا جب مغرب اپنے تاریک ترین دور سے گزر رہا تھا،لیکن اُس وقت اسلام کی روشنی دنیا کو منور کر رہی تھی اور قرطبہ کی جامعات دنیا بھر میں علم وفن کا مرکز تھیں،لیکن جب تعلیم و تعلّم اور شمیشیر و سناں کی جگہ طاؤس و رباب نے لے لی تو ہماری تنزلی کا دور شروع ہو گیا،تعلیمی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے وہ جو کبھی اقوام عالم کے سردار تھے،اغیار کے غلام اور محکوم ہوگئے، آج دنیا کی بہترین تعلیمی ادارے اغیار کے پاس ہیں اور پوری دنیا سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے لوگ اُن کی طرف رجوع کرتے ہیں،جبکہ ہماری تعلیمی ترقی کا حال یہ ہے کہ دنیا کی بڑی جامعات کی لسٹ میں دور دور تک ہماری کسی جامعہ کا نام تک نہیں آتا،اِس کی بنیادی وجہ تعلیمی میدان میں حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے،ہمارے یہاں بجٹ میں صرف 2فیصد بجٹ حصہ تعلیم کے لئے مختص کیا جاتا ہے جس سے بہتری کی توقع تو کجا موجودہ سیٹ اپ کو چلانا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا شعبہ روز اوّل سے ہی عدم توجہی کا شکار رہا ہے،ہر حکومت نے تعلیمی کمیشن تشکیل بنائے،نت نئی تعلیمی پالیسیاں تشکیل دیں،تعلیمی فروغ کیلئے کاغذی ادارے بنائے، مگر ہمارا نظام تعلیم جوں کا توں ہی رہا،جبکہ دنیا کا دستور یہ ہے کہ قومیں اپنی ترقی اور کامیابی کیلئے ادارے تعمیر کرتی ہیں،اُن کی مسلسل پرورش کرتی ہیں،پروان چڑھاتی ہیں اور انہیں بہتر سے بہتر بناتی رہتی ہیں،تب جاکر نتائج حاصل کرتی ہیں،کیونکہ ادارے ہی قوموں کا اثاثہ اور میراث ہوتے ہیں جو ثمربار اور گھنے درختوں کی مانند انکی کئی نسلوں کو پھل مہیا کرتے ہیں، سایہ فراہم کرتے ہیں،اِس کے عکس ہم نے اپنی چونسٹھ سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ زور ادارے بنانے کی بجائے انہیں کمزور کرنے اور توڑنے پر دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شعبے میں ہم پیچھے رہ گئے،ہمارے حکمرانوں کا یہ شغل اب بھی جاری ہے،اگر اتفاق سے کوئی ادارہ وجود میں آ بھی گیا تو اِس کے درپے ہونا ہمارے حکمران اپنے فرض منصبی شمار کرتے ہیں،خوش قسمتی سے پچھلے آٹھ دس سالوں میں ادارہ سازی کے میدان کے اندر ہم سے ایک قابل تعریف کام سرزد ہو گیا جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام تھا،لیکن اب ہمارے حکمران اسے تحلیل کر نے کے منصوبے بنارہے ہیں ۔

پہلے ہی پاکستان میں تعلیم کا حال دگر گوں تھا،رہی سہی کسر حکومت نے ایچ ای سی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر کے پوری کردی ہے،تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ٹکڑے کر کے صوبوں میں بانٹ دیا جائے گا اور اِس کی مرکزی حیثیت ختم ہوجائے گی،حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام اٹھارویں ترمیم کے مطابق اٹھایا گیا ہے جبکہ 18 ویں ترمیم کمیٹی کے ایک رکن مسلم لیگ( ن) کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی آئینی مجبوری نہیں کہ ایچ ایس سی کو لازماً صوبوں کے حوالے کیا جائے،اُن کے خیال میں یہ انتقامی کاروائی ہے کیونکہ جعلی ڈگریوں کے معاملہ پر کمیشن نے حکومت کا دباؤ قبول نہیں کیا تھا، یہی رائے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں اور قائدین کی ہے،دوسری طرف تعلیمی اداروں کے وائس چانسلر سمیت طلبہ تنظیمیں بھی حکومت کے اِس فیصلے کے خلاف صف آراء ہوچکے ہیں،ہماری نظر میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے صوبوں کے سپرد کرنا اعلیٰ تعلیم کے مستقبل پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے،اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چلانا صوبوں کے بس کا روگ نہیں اور نہ ہی یہ ادارہ اپنی نوعیت اور آئینی حیثیت کے سبب صوبوں کے سپرد کیا جانا چاہئے ۔

اِس سے قطع نظر کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ٹکڑے کرنے کی آئینی حیثیت کیا ہے، یہ حقیقت کسی طور بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ تعلیمی کے میدان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی انتہائی متاثر کن ا ور شاندار رہی ہے،ہائر ایجوکیشن کے قیام سے پہلے دنیا بھر کی بہترین جامعات میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں تھی لیکن اب دنیا کی بہترین جامعات میں پاکستان کی دو یونیورسٹیاں شامل ہیں،یہ بھی حقیقت ہے کہ ہائر ایجوکیشن کے قیام کے بعد ریسرچ کے شعبے میں بہت ترقی ہوئی اور ہمارے اسکالر نے قابل قدر کام کیا،آج ایچ ایس سی کے تعاون سے سینکڑوں پاکستانی اسکالر پی ایچ ڈی اور اِس لیول کی تعلیم مکمل کرچکے، جبکہ سات ہزار سے زائد طلباء دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں،جن سے یہ امید کی جارہی تھی کہ جب یہ اسکالرز اور پروفیسرز مختلف مضامین میں پی ایچ ڈی کر کے وطن واپس آئیں گے تو پاکستان کا علمی و تعلیمی معیار بہتر ہوگا اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں نمایاں بہتری آئے گی ۔

لیکن حکومت کے اِس تعلیم دشمن اقدام سے ہم نہ صرف ہم عالمی بینک اور امریکہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کروڑوں ڈالر کی امداد سے محروم ہوجائیں گے بلکہ پاکستانی یونیورسٹیوں کو عالمی ریکنگ میں لانے اور پی ایچ ڈی پروفیسرز کی تعداد میں نمایاں اضافے اور ریسرچ کے ذریعے ترقی کے خواب بھی چکنا چور ہوجائیں گے،ساتھ ہی وہ طلباء جنھیں ایچ ایس سی نے 50 ارب روپے خرچ کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھجوایا تھا،وطن واپس آنے سے گریز کریں گے،جس نہ صرف تعلیمی معیار خراب ہوگا بلکہ قومی خزانے کو نقصان کے ساتھ ہماری ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوگی اور اِس ادارے کے خاتمے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاکستان کی ڈگریاں بھی مشکوک قرار پائیں گی ۔

لہٰذا ہماری ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ انہیں اپنے فیصلے کے حسن و قبح پر ضرور غور کرنا چاہیے تھا، ہماری نظر میں تعلیم کے شعبے کو صوبوں کے حوالے کرنا ایک خطرناک اور ایسا ملک دشمن قدم ہے، جس پر عمل سے چھوٹے صوبوں کے ٹیچرز اور پروفیسر اعلیٰ تعلیم کے مواقع سے محروم ہوجائیں گے، اِس ادارے کی آزادانہ حیثیت ختم کرنے سے اِس کا سب سے زیادہ نقصان اُن چھوٹے صوبوں کو ہوگا جن کے وسائل پہلے ہی بہت کم ہیں،حکومت کے اِس عمل سے صوبوں کے درمیان غلط فہمیاں بھی پیدا ہوں گی کیونکہ تمام صوبوں اور کشمیر میں معیار تعلیم ایک جیسا نہیں ہے،دوسری جانب ایک ایسا ادارہ جو پاکستان کیلئے دنیا میں قابل فخر کردار ادا کررہا ہے،کے خاتمے سے ہمارا تعلیمی معیار گرے گا اور بیرونی ممالک میں موجود ہزاروں ذہین پاکستانی طلبہ کا مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا۔

جہاں تک ایچ ای سی کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ اِس میں کچھ خامیاں ہوں لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اِس ادارے کو زندہ درگور کردیا جائے،بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ خامیاں دور کی جاتیں اور اِس کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاتا،مگر افسوس کہ اِس طرف توجہ دینے کے بجائے اِس ادارے کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا جس سے اِس اعتراض میں وزن محسوس ہوتا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی چھان بین روکنے کے لئے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے،ہم اپنے ارباب اقتدار کو یاد دلانا چاہتے کہ قوموں کا روشن مستقبل اعلیٰ تعلیم سے وابستہ ہوتا ہے،آج کوئی معاشرہ تعلیم کی تجدید سے بے نیاز ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا،اچھی اور معیاری تعلیم سماج کے زندگی بخش نظریات سے چشم پوشی نہیں کر سکتی،دونوں کا ربط ایسی افادیت پیدا کر سکتا ہے جو قومی استحکام اور سماجی فلاح کی ضمانت ہے،ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ،جدید اور فلاحی معاشرہ ہی استحکام پاکستان کی کلید ہے،اربابِ اختیار،دانشور وں،ماہرینِ تعلیم،میڈیا اور اصحاب الرائے کی یہ اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے حکومت کے اِس تعلیم کش ( تعلیم نہ کھپے) کے اقدام کے خلاف متحد ہوکر واضح لائحہ عمل اختیار کریں،وگرنہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانا ہمارا مقدر ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358425 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More