شہریت ترمیمی بل بھی کہیں ایک پارلیمانی جملہ تو نہیں؟

تین پڑوسی ممالک میں بسنے والے غیر مسلمین کو وہاں پر ظلم و ستم سے نجات دلانے کی خاطرشہریت قانون میں ترمیم کی جارہی ہے۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر اقلیتوں کی حالت کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے۔ ان ممالک میں سرِ فہرست پاکستان ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد کل آبادی کے دو فیصد سے بھی کم ہے ۔ ان میں چالیس لاکھ ہندو اور بتیس لاکھ عیسائی ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے سکھوں کی کوئی شکایت کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔ ابھی حال میں کرتارپور کی راہداری کھول کر حکومت پاکستان نے نہ صرف ہندوستان میں بسنے والی سکھ برادری بلکہ دنیا بھر کے سکھوں کو خوش کردیا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندووں کے خلاف تقسیم ہند کے بعد نیلی ، گجرات یا دہلی جیسا کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد کبھی نہیں ہوا ۔

پاکستان کے اندر ہندو مسلم فرقہ پرستی کے نہیں پنپنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک تو ان کی بہت قلیل تعداد ہے۔ دوسرے مسلمانوں کا مزاج اپنے سے طاقتور کے ساتھ لوہا لینے کا ہے کمزور سے ٹکرانے کا نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیمات انہیں ظلم و جبر سے روکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے وہاں اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلاکر ووٹ بٹورنے کے امکانات مفقود ہیں ۔ اقلیتوں کی کم تعداد کے سبب کوئی ان کی منہ بھرائی (appeasement) کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتااس لیے وہ عافیت میں ہیں ۔ حکومتِ پاکستان اقلیتوں کا کس قدرخیال رکھتی ہے اس کی مثال شہید گنج مسجد اور گردوارے کے قضیہ میں سامنے آچکا ہے ۔ اس پر بابری مسجد کی مانند سیاست نہیں کی گئی اور فیصلہ گردوارے کے حق میں دیا گیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جن مندروں کو شرپسندوں نے نقصان پہنچایا تھا ان کی سرکاری خرچ پر مرمت کرائی گئی۔ سبھی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس حرکت کی مذمت کی ۔
پلوامہ کے بعد کشیدہ ماحول میں پاکستان کے پنجاب صوبے میں وزیر فیاض الحسن چوہان نے ہندووں کی دلآزاری کرنے والا ایک بیان دیا ۔ اس پر سوشیل میڈیا میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا تو انہوں نے صفائی پیش کی کہ ان کا تخاطب عام ہندووں کی جانب نہیں بلکہ وزیراعظم مودی اور ہندوستانی فوج کی طرف تھا ۔ یہ کہہ کر انہوں نے معذرت بھی طلب کی اس کے باوجود ان سے وزارت چھین لی گئی جبکہ ہندوستان میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جبکہ یہاں رہنے والے مختلف طبقات بشمول مسلمانوں کی اہانت نہیں کی جاتی ہو لیکن ان اس کا ارتکاب کرنے والوں کی پذیرائی ہوتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں کوئی ہندو ،عیسائی یا پارسی پاکستان سے ہندوستان آکر شہریت حاصل کرنے کی سعی کرے اس کا امکان نہیں کے برابر ہے۔
ہندوستان میں خواتین کے ساتھ حوالے سے رونما ہونے والے ہیبت ناک واقعات کو پڑھ کر کون سا ہندو اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آنے کی غلطی کرے گا ؟ مغرب کی تنقید سے ڈر کر مودی سرکار نے عیسائیوں کو تو یہ سہولت تو فراہم کردی ہے کہ وہ ہندوستان کی شہریت اختیار کرسکتے ہیں لیکن کیا پاکستان میں رہنے والے عیسائی نہیں جانتے کہ ماب لنچنگ کا شکار ہونے والوں میں آبادی کے تناسب سے ان کی تعداد مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ ان کےکلیساوں پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ان کو مذہب کی تبلیغ سے روکا جاتا ہے۔ اڑیسہ میں عیسائی مبلغ گراہم اسٹینس کو اس کے معصوم بچوں سمیت زندہ جلانے کی ترغیب دینے والے پرتاپ سرنگی کی عزت افزائی کے لیے وزیر اعظم مودی نے اسے مرکزی وزیر بنا یا ہے ۔ پاکستان میں تو اہانت رسول ؐ کی ملزمہ آسیہ بی بی کوافضل گرو کی طرح اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کا بہانہ بناکر سزا دینے کے بجائے عدالت نے بری کردیا ۔ مسلمانوں کی مانند عیسائیوں کو بھی گھر واپسی پر مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ایسے میں کون پاگل عیسائی ہندوستانی شہریت لینے کی کوشش کرے گا؟

اس بل میں مسلمانوں کو شہریت نہیں دینے کی بات کی گئی لیکن اگر مودی سرکارعام پاکستانی مسلمانوں کے سرخ قالین بچھا کر بھی شہریت نوازنے کا فیصلہ کرے تب بھی شاید ہی کوئی غیرتمند پاکستانی مسلمان اسے لینے کا خیال اپنے دل میں لائے گا ۔ اس پابندی کا مقصد صرف اور صرف ہندو شدت پسندوں کو احمق بنانا ہے۔ ویسے عدنان سمیع جیسے مسلمان اپنا کاروبار چمکانے کے لیے یہاں آتے ہیں اور اڈوانی جیسے لوگ بغیر کسی آئینی ترمیم کے انہیں شہریت سے نواز نے کی سفارش کردیتےہیں ۔ افغانستان کی کرزئی اور اشرف غنی حکومت سے بھارت سرکار کا قریبی تعلق رہاہے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ وہاں برسوں تک جاری خانہ جنگی میں فرقہ واریت کا رنگ کبھی نہیں آیا ۔ بامیان میں بودھ کا مجسمہ سیاحتی مرکز تھا وہاں گوتم بدھ کی عبادت نہیں ہوتی تھی اور اسے مذہبی بنیاد پر نہیں گرایا گیا ۔ کابل میں ہندو مندر آج بھی موجود ہیں اور انہیں کبھی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ افغان مجاہدین بیرونی حملہ آوروں اور ان کے حواریوں سے لڑتے رہے ہیں ۔ اس بابت وہ مذہب کی بنیاد پر غاصبوں اور ان کے معاونین میں تفریق نہیں کرتے۔

بنگلا دیش میں ہندووں کی آبادی 8 تا 10 فیصد ہے۔ وہاں سے ایک زمانے میں لوگ نقلِ مکانی کرکے مغربی بنگال یا شمال مشرقی ہندوستان آتے تھے ۔ ان میں ہندو مسلمان سب ہوتے تھے اور اس کی وجہ فرقہ وارانہ تعذیب نہیں بلکہ معاشی خوشحالی تھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آسام اور اس کے آس پاس چائے کے باغات اور دیگر کاموں کے لیے مزدوروں کی ضرورت ہوتی تو بنگال سے انہیں خصوصی مراعات دے کر لایا اور بسایا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ بنگلا دیش کے مقابلے ہندوستان خوشحال تھا کہ سرحد کے اُدھر سے لوگ روزی روزگار کے لیے اِدھر آ جاتے تھے لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے ۔ فی الحال بنگلا دیش کی جی ڈی پی ہندوستان سے بہتر ہے اور وہاں خوشحالی وطن عزیز سے زیادہ ہے یہی وجہ ہے بنگلا دیشی سفیر نے ایک بیان میں کہا ہمارے لوگوں کو نقل مکانی کرنا ہوتو برطانیہ، اٹلی اور امریکہ جائیں گے۔ یہاں کیوں آئیں گے؟

ہندوستان سے بہتر معاشی مواقع اور امن تو فی الحال مشرق وسطیٰ میں ہے ۔ وہاں کوئی شمبھولال کسی محمد افزاز ل جیسے بنگالی کو زندہ نذرِ آتش کرکے اس کی ویڈیو بناکر نہیں پھیلاتا۔ بنگلا دیش نے ابھی حال میں مردم شماری کے جو اعداوشمار جاری کیے اس کے مطابق وہاں پر ہندووں کی آبادی آٹھ سے بڑھ کر دس فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجہ معکوس نقل مکانی ہے ۔ پہلے جو لوگ وہاں سے یہاں آتے تھے اب لوٹ کر جانے لگے ہیں ۔ ایسے میں اب تو بنگلا دیش سے لوگوں ہندوستان آنے کا امکان بہت کم ہے ۔ ہندوستان کے اندر اقلیتوں کے علاوہ دلتوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ بھی باہر سے آکر یہاں بسنے والے کے پیش نظر رہے گا اور وہ اس بات پر غور کریں گے کہ ان مہاجرین کے ساتھ بھی وہی ہونے لگے تو ان کا کیا ہوگا؟ ویسے اس ترمیم کا حال بھی پندرہ لاکھ روپئے جیسا ہونے والا ہے کہ چار سال بعد جب امیت شاہ صاحب سے پوچھا جائے گا پڑوسی ممالک سے کتنے غیر مسلمین نے اس سے فائدہ اٹھایا تو وہ کہیں گے وہ تو ایک پارلیمانی جملہ تھا ۔ ہم نے تو سہولت فراہم کردی لیکن یہ کب کہا کہ کوئی اس خدمت سے استفادہ کرے گا بھی نہیں ؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449330 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.