کرپشن کے مخالف محافظ نکلے․․․!

چند برسوں سے ملک کی سیاست عجیب رخ اختیار کر چکی ہے ۔پورا ملک مختلف حوادث کی زد میں ہے،عوام سیاست دانوں ،اداروں کی کارکردگی سے مایوس ہو چکی ہے ۔حالیہ حکومتی کارکردگی کی المناکی اور ناکامی عوام کے دل وجگر چیر چکی ہے ۔عمران خان کی گلی محلے جیسی سیاست نے پاکستان کی دنیا بھر میں بہت جگ ہا سائی کروا لی ہے ۔برطانیہ میں میاں محمد نواز شریف کے گھر پر اپنے کارکنوں سے حملہ،احتجاج کروانے کی حرکت سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ جس کسی نے بھی ایسی حرکت کروائی ہے اس کی دماغی حالت کسی صورت درست نہیں ہے ۔عمران خان کو میاں نواز شریف فوبیا ہے اس سے تمام لوگ آشنا ہیں ۔

تحریک انصاف فوج اور نیب کی مدد کے ساتھ چل رہی ہے۔کیوں کہ مولانا فضل الرحمان کے تاریخی دھرنے کے سامنے کسی حکومت کا قائم رہنا،فوج کی مدد کے بغیر ممکن نہیں اور حزب اختلاف کے سامنے نیب کی بھر پور مدد کے بغیر چلنا خواب ہے ۔یہ ادارے کیوں ایسا کر رہے ہیں؟یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں گونجتا ہے ۔حالاں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک و قوم کا جتنا نقصان کر لیا ہے اس کا خمیازہ کئی نسلوں نے بھگتنا ہے،لیکن پھر بھی یک طرفہ احتساب کر کے عوام کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے ۔نیب ان لوگوں سے کیوں چشم پوشی کرجاتی ہے جو پچھلی کرپٹ حکومتوں میں سرکاری عہدوں پر رہ کر مراعات کے مزے اڑاتے رہے ہیں ۔ان کے اثاثے آمدن سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں بلکہ بہت سارے لوگ نیب کو مطلوب ہیں۔نیب کی بے انصافی اور مجرمانہ منصوبہ بندی شدید افسوس ناک ہے ۔اس کے دوررس نتائج آج نظر نہ آتے ہوں،لیکن مستقبل میں بڑے حادثات کا باعث بنیں گے ۔اس وقت ملک جس قیادت میں چل رہا ہے،اس سے خیر کی امید کرنا بیوقوفی ہے ۔اسی لئے مختلف سیاسی پارٹیوں اور تھنک ٹینک حرکت میں آ چکے ہیں ۔عمران خان کا مکافات عمل سے گزرنے کا وقت آ چکا ہے ۔ایک میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف لندن پلان بنا تھا ۔جس میں پنجاب کے گورنر چوہدری سرور پیش پیش تھے ۔ایک بار پھر لندن پلان بن چکا ہے ۔جس کے تحت ان ہاؤس تبدیلی اور چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ممکنہ طور پر ہونے والی قانون سازی پر تفصیلی فیصلے ہو چکے ہیں ۔
عمران خان سے جان چھڑانے کے لئے تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائدین یک جان ہو چکے ہیں۔ان ہاؤس تبدیلی کے لئے پس پردہ کوششیں ہو رہی ہیں اس لئے عمران خان نے حلیف جماعتوں اور اتحادیوں کے خدشات اور تحفظات دور کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے ،لیکن حکومتی اتحادی جماعت بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے حکومت کو کھل کر کہہ دیا ہے کہ انہیں مذید وقت نہیں دے سکتے ۔چوہدری پرویز الٰہی بھی حکومت سے نالاں ہیں،ایم کیو ایم کے تحفظات زیادہ ہوتے جا رہے ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ صورت حال تبدیل ہونے جا رہی ہے اور حکومتی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں ۔اتحادیوں کی ناراضگی ایسے وقت سامنے آئی جب ملک کے اندر ان ہاؤس تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے ۔ایم کیوایم،مسلم لیگ(ق)اور جی ڈی اے اسٹیبلشمنٹ کے قریب تر جماعتیں ہیں ۔

حکمران جماعت کے اندر کے اختلافات بھی ان ہاؤس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔حزب اختلاف کی کوشش ہو گی کہ اقتدار اس کے ہاتھ میں آ جائے ایسی کوششیں بھی ہو رہی ہیں کہ قومی حکومت بنے،جس کو حکومتی ارکان اور حزب اختلاف کی حمایت حاصل ہو ،ملک کے اندر تبدیلی میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ان ہاؤس تبدیلی کے بارے میں گرماگرم بحث ملک بھر میں جاری ہے ۔دوسری جانب میاں نواز شریف اور مریم نواز کو بڑا ریلیف تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

عمران خان کے ساتھ ایسا تو ہونا ہی تھا ،کیوں کہ انہوں نے بلا امتیاز احتساب کے ایجنڈاپر اقتدار سنبھالا تھا ۔اگر ایسا ہوتا تو وہ ہیرو ہوتے،لیکن اقتدار ملتے ہی یو ٹرن لیا اور یک طرفہ بلکہ سیاسی انتقام کے لئے احتساب کی بنیاد رکھ دی ۔ڈکٹیٹر کا انداز اپنایا ۔ہٹلر کی سوچ پر چلے،چائینا اور سعودی بادشاہت کے انداز کو پسندیدہ کہا۔افسوس کیا کہ کاش مجھے ڈکٹیٹر شپ ملتی اور میں من مانی کر سکتا تو پہلا کام کرتا کہ پانچ سو افراد کو قتل کر دیتا۔جمہوری نظام کے تحت اقتدار سنبھالنے والے وزیر اعظم کی سوچ پر افسوس ہوتا ہے۔چناں چہ عمران خان کا کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان دم توڑ چکا ہے۔ان کا اپنا دامن خود کرپشن سے داغدار ہے ۔جب الیکشن کمیشن نے ان سے فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے دوران ثبوت اور شواہد مانگے تو وہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور دوسری عدالتوں کے حکم امتناعی کے پیچھے چھپ گئے ۔فارن فنڈنگ کیس بڑا سکینڈل ہے،عمران خان پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بیرونی ممالک اور اوورسیز پاکستانیوں سے ملنے والے فنڈز کے شواہد نہیں دے رہے ہیں۔عمران خان کرپشن کی بات کرتے ہوئے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ،لیکن جیسے ہی پانچ دسمبر2019ء کو بی آر ٹی کی تحقیقات ایف آئی اے کے حوالے کیں ،لیکن حکومت نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے اور تحقیقات رکوانے کا فیصلہ کیا،وہاں احتساب کا ایجنڈا ہوا ہو گیا۔عمران یوں توکرپشن کے خلاف ہیں،مگر اپنے اور قریبی ساتھیوں کو کرپشن کی تحقیقات سے بچانے کے لئے عدالت کے سامنے کیوں ڈٹ جاتے ہیں ۔وزیر اعظم ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے دیں ۔اگر بی آر ٹی کے حوالے سے پرویز خٹک،محمد اعظم خان ،شہاب علی شاہ اور صوبائی حکومت کا دامن صاف ہے تو تحقیقات سے خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔عمران خان اگر واقعی کرپشن کے خاتمے میں مخلص ہیں تو اپنی ہمشیرہ علیمہ خان کے خلاف بھی تحقیقات ہونے دیں،ان کے پاس اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں ۔انہوں نے بھی تمام وہی کام کیے ہیں، جس کا الزام شریف فیملی یا آصف علی زرداری پر کاروباری ہونے کی حیثیت سے لگائے جا رہے ہیں یا زائد اثاثہ جات کی بنیاد پر الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی قیدوبند کی ازیت مخالفین کو دی جا رہی ہیں۔

یہ صاف تصویر نظروں کے سامنے ہے کہ عمران خان کرپشن کے خاتمے میں مخلص نہیں محض بھڑکیں مارتے ہیں ۔اگر وہ کرپشن کے خلاف ہیں تو ملک کی طاقت ور شخصیت ملک ریاض کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ کیوں درج نہیں کراتے ۔یہاں تو پوری کابینہ کو خاموش رہنے کا حکم صادر ہو جاتا ہے اور دیانتداری و نیک بختی کے پیکر وزراء سعادت مندی سے خاموش ہیں ۔جناب برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض سے 190ملین پاؤنڈ برآمد کر کے پاکستان کے حوالے کئے ہیں،یہ منی لانڈرنگ کی رقم ہے ۔برطانوی ایجنسی این سی اے کی جانب سے پلی بارگین سے برآمد ہونے والی رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئی ہے ،جس سے ملک ریاض کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوا ہے ۔انہوں نے عدالت عظمیٰ کے ساتھ جو معاہدہ کیا برآمد ہونے والی رقم اس کھاتے میں جمع ہوئی۔برطانیہ میں ان کی بلیک منی وائٹ ہوئی اور وہ رقم 460ارب روپے کی مد میں ایڈجسٹ ہوئی ۔ملک ریاض نے 460ارب روپے جمع کرنے کا بیان حلفی دیا ہے ۔ملک ریاض نے ایک ٹکٹ میں دو مزے لئے ہیں،یہ اس حکومت میں جرم کرنے والوں کے مزے ہیں۔عمران خان کی کرپشن کے خلاف جہاد اور بلا امتیاز احتساب کی بڑھکیں کہاں پر دم توڑ گئیں ہیں ۔پورے ملک کے اداروں کو سانپ سونگ گیا ہے ۔میڈیا خاموش ہے ۔ورنہ زرا سی بات پر میڈیا ٹرائل کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے۔اس سے بڑی مثالیں نہیں مل سکتیں کہ وزیرا عظم خود کرپشن کو تحفظ دے رہے ہیں ۔ان کے ارد گرد کرپٹ لوگ جمع ہوئے ہیں ۔ان کے اتحادی اور حلیف بھی کرپشن میں ملوث ہیں ،محض نعرے بلند کرنے سے کرپشن ختم نہیں ہوتی ۔عمل انتہائی متضاد ہے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 94859 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.