مودی حکومت کی خوبی یہ ہے کہ ایک مسئلہ اچھال کر جب وہ اس
میں ناکام ہوجاتی ہے تو کوئی نیا شوشہ اس زور شور سے چھوڑتی ہے کہ لوگ
پرانا والا بھول جاتے ہیں ۔ اس کی سب بڑی مثال تو نوٹ بندی ہے جس کو سرکار
نے ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دیا ہے اور اب کوئی بھول کر بھی اس کا
ذکر نہیں کرتا۔ کشمیر میں دفع ۳۷۰ کو ہٹائے بھی ۴ ماہ اور دس دن کا طویل
عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران حکومت اپنے بلند بانگ دعووں میں سے کچھ بھی حاصل
نہیں کرسکی اور اس بار شہریت کے قانون کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اس قانون پر بحث
کے دوران جب شیوسینا کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کشمیر میں اب تک کتنی
سرمایہ کاری ہوئی یا کتنے پنڈت لوٹ کر گئے تو امیت شاہ کی سِٹیّ گم ہوگئی۔
اس بیچ سرکار نے ریاست کی تشکیل جدید کے بعد عوام کو شدید پریشانیوں میں
مبتلا کرنے کے علاوہ صرف ایک نقشہ سازی کا کام کیاہے۔
یہ نیا نقشہ بھی نہایت دلچسپ ہے کہ جس میں پاکستان مقبوضہ کشمیر کو جموں
کشمیر کے بجائے لداخ کا حصہ بتایا گیا ۔یہ عجیب و غریب منطق بھکتوں کے سوا
کسی کے سمجھ میں نہیں آسکتی کہ سرحد کے دونوں جانب کے کشمیر ایک ساتھ کیوں
نہیں ہیں ؟ ایک طرف تو پاکستان پر یہ الزام کہ اس نے کشمیر کو تقسیم کردیا
ہے ۔ اس پر یہ دعویٰ کہ ہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو حاصل کرنے کے
لیے خون کا آخری قطرہ بہا دیں گے اور اسے حاصل کرکے لداخ کا حصہ بنادیں گے۔
ان ساری باتوں میں کوئی تال میل نظر آتا ہے؟ اس کی وجہ سرحد کے دونوں جانب
بسنے والے کشمیریوں کے یکجا ہوجانے سے رونما ہونے والا خوف کے علاوہ اور
کیا ہوسکتا ہے ؟ پہلے تو کارگل کے لوگوں کو وادی سے جدا کیا ۔ اب مقبوضہ
کشمیر کو بھی الگ رکھنا چاہتے ہیں ؟ کیا یہی ’بانٹو اور حکومت کرو‘انگریز
وں کی پالیسی نہیں تھی ؟ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگانے والےآخراس حکمت عملی
پر کیوں عمل پیرا ہیں ؟جو لوگ اکھنڈ کشمیر کے متحمل نہیں ہیں ان سے یہ توقع
کیسے کی جائے کہ وہ اکھنڈ بھارت بنائیں گے ؟
حکومت پاکستان نے نئے نقشے کو اقوا م متحدہ سے مختلف ہونے کے سبب مسترد
کردیا لیکن سابق ہندوراشٹر نیپال نے بھیاس پر احتجاج کیا ہے۔اتراکھنڈ کے
پتھوراگڑھ ضلع میں واقع کالا پانی کو ہندوستان میں دکھائے جانےپر نیپال
مضطرب ہے۔ نیپال کالاپانی کو اپنے نقشہ میں دارچولا ضلع کے حصے کی شکل میں
دکھاتا رہا ہے۔نیپال کی وزارت خارجہ نے نئے نقشے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے
کہا ہے کہ 'نیپال واضح کرتا ہے کہ کالاپانی کا علاقہ نیپالی سرزمین میں
واقع ہے۔'اپنے قریبی ہمسایہ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستانی وزارت
خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا ہے کہ 'ہمارے نئے نقشہ میں بھارت کے
خودمختار علاقوں کو درست طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ نئے نقشہ میں کسی بھی طرح
نیپال کے ساتھ ہماری حدود میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔نیپال کے ساتھ سر حد
کو واضح کرنا 'موجودہ طریقہ کار کے تحت جاری ہے' اور بھارت 'ہمارے قریبی
اور دوستانہ دوطرفہ تعلقات کے جذبے کے ساتھ بات چیت' کے ذریعے حل تلاش کرنے
کے لئے پرعزم ہے۔
حکومت ِ ہند کی وضاحت سے مطمئن ہونے کے بجائے اس کا جواب دیتے ہوئے نیپال
کی وزارت خارجہ نےکہا کہ 'فریقین نے اپنے خارجہ سکریٹریوں کو تکنیکی ماہرین
کی مشاورت سے سرحد سے متعلق بقیہ امور کو حل کرنے کا کام سونپا ہے نیز
نیپال اپنی بین الاقوامی سرحد کی حفاظت کے لئے پرعزم ہے اور کسی بھی حد سے
متعلق مسئلے کو سفارتی چینلز کے ذریعے تاریخی دستاویزات اور شواہد کی بنیاد
پر حل کرنا چاہتا ہے۔'نیپال کا یہ لب و لہجہ اس کے چین کے ساتھ قربت کا
غماز ہے۔ ویسے یہ زمینی حقیقت ہے کہ چین کے ساتھ سنہ 1962 کی جنگ کے بعد سے
یہ خطہ ہند تبتی بارڈر پولیس کے زیر کنٹرول ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن
نہیں ہے حالیہ خارجہ پالیسی کے چلتے پاکستان کے ساتھ ساتھ نیپال بھی ہم سے
دور اور چین سے قریب ہوتا جارہا ہے۔
چین کے ساتھ ہندوستان کا تنازع ارونا چل پردیش کے علاقہ میں ہے اور اس
حوالے سے چینی سرکار آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتی رہتی ہے۔ پاکستان سے
جڑے ایشوز پر سیاست کرنے اور چین کی داداگری پر خاموشی اختیار کرنے والی
مرکز کی مودی حکومت کے خلاف اسی جماعت کے رکن پارلیمان نے لوک سبھا میں
صدائے احتجاج بلند کرکے سب کو چونکا دیا۔ ایوانِ زیریں میں مشرقی اروناچل
سے بی جے پی رکن پارلیمان تاپر گاؤ نے چین کے وسعت پسندانہ رویہ کو سامنے
لاتے ہوئے اپنی ہی حکومت کی قلعی کھول دی۔ تاپر گاؤ کے مطابق اروناچل
پردیش میں چین لگاتار دراندازی کر رہا ہے۔ انھوں نےایوان میں یہ ہوشربا
دعویٰ بھی کیا کہ چین نے ہندوستان کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے، لیکن حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اپنا
دل کا درد ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ اگر میں اس ایشو کو نہیں اٹھاؤں
گا تو ہندوستان کی آنے والی نسل مجھے معاف نہیں کرے گی‘‘۔ اس دلدوز بیان
کا بھی ایوان میں موجود وزیر داخلہ یا خارجہ پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔
چین کی شرارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ماہ وزیر دفاع
راج ناتھ سنگھ اروناچل پردیش میں واقع شہر توانگ ایک پل کا افتتاح کرنے کے
لیے تشریف لے گئے۔ اس پر چین نے آفیشیل پریس کانفرنس کر کے راج ناتھ سنگھ
کے ذریعہ کیے گئے پل افتتاح پر اعتراض ظاہر کیا۔ اس سے قبل جب صدر جمہوریہ
، پی ایم مودی اوروزیر داخلہ امت شاہ کے اروناچل جانے پر بھی چین نے
ناراضگی ظاہر کی تھی ۔
اس تناظر میں بی جے پی کے رکن پارلیمان تاپر گاؤ نے اپنی دردمندانہ اپیل
قابلِ توجہ ہے انہوں نےکہا ’’آج ہمارے 50 سے 60 کلو میٹر سے زیادہ علاقے
پر چین نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس لیے میں حکومت، ایوان اور میڈیا ہاؤس سے یہ
اپیل کرنا چاہوں گا کہ اس ایشو کو اٹھائیں۔ اگر کوئی پاکستان کا ایشو آتا
ہے تو وہ اٹھتا ہے، میڈیا میں خبریں آتی ہیں، لیکن چین اگر اروناچل پردیش
میں قبضہ کرتا ہے تو وہ خبر کہیں نہیں آتی ہے۔‘‘بی جے پی رکن پارلیمان نے
واضح انداز میں خبردار کیا کہ اگر اروناچل پردیش پر مودی حکومت نے دھیان
نہیں دیا تو وہ دن دور نہیں جب اروناچل میں دوسرا ڈوکلام بن جائے گا، اور
اس وقت حکومت کے لیے( اس پر قابو پانا) بے حد مشکل ہوگا‘‘۔ اس وارننگ کے
باوجود حکومت ، ایوان اور میڈیا تو دور حزب اختلاف کے کان پر بھی جوں نہیں
رینگی اس لیے کہ یہ سیاسی اعتبار سے فائدے کا سودہ نہیں ہے۔ یہی بیان اگر
کوئی کانگریسی رکن پارلیمان منموہن سنگھ کے زمانے میں دیتا تو بی جے پی
والے آسمان سر پر اٹھا لیتے لیکن اب ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہےبلکہ سب
زیر زمین چلے گئے ہیں اور باہر آتا تو اس کو شہریت قانون میں ترمیم کا
جھنجھنا پکڑا دیا جاتا ہے۔
|