بھارت میں آج کل عوام سڑکوں پر ہے، لاکھوں افراد مظاہرہ
کررہے ہیں، متعدد یونیورسٹی و کالجز کے لاکھوں طلبہ سراپا احتجاج ہیں، آسام
سے نکل کر یہ احتجاج پورے بھارت میں پھیلتا جارہا ہے اور شدت اختیار کرتا
جارہا ہے، یہ احتجاج متعصبانہ CAB شہریت بل کے زریعے مسلمانوں کو شہریت سے
محروم کیے جانے اور تیسرے درجے کا انسان بنائے جانے کیخلاف کیا جارہا ہے،
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے والے ملک میں احتجاج کو طاقت کے زور پر
روکنے کے لیے بھارت کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، انٹرنیت
و موبائل سروسز معطل کردی گئیں، اس کے علاوہ کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کو
130 روز ہوگئے ہیں، کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے بھارت ستر سالوں سے
جبر و طاقت کا استعمال کرتا آرہا ہے اور اپنے ظلم و جبر کو چھپانے کے لیے
پاکستان پر کراس بارڈر دہشتگردی کا الزام لگاکر دنیا کے سامنے خود کو صاف
بناکر پیش کرتا آرہا ہے جبکہ آسام میں حالیہ کرفیو نے بھارت کے ڈھول کا پول
کھول دیا ہے، جس طرح کشمیر میں ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں، آسام
میں پولیس کی فائرنگ سے احتجاج کرنے والے دو نوجوان ہلاک اور متعدد زخمی
ہوے یہ کشمیری مسلمانوں پہ ظلم کا عشر عشیر بھی نہیں جبکہ اس کا رد عمل
اتنا شدید آیا ہے کہ اب بھارت کی مشرقی ریاستوں کے متعدد اضلاع میں کرفیو
لگانا پڑا، موبائل و انٹرنیٹ بند کرنا پڑا لیکن اس کرفیو کے باوجود حالات
کنٹرول سے باہر ہیں، عوام کا پرزور مطالبہ ہے کہ وہ اس متنازعہ و متعصبانہ
بل کو تسلیم نہیں کرینگے لیکن مودی سرکار بضد ہے کہ وہ بھارت کو عملی طور
پر ہندو راشٹر بناکر رہینگے، CAB بل درحقیقت ہندو راشٹر بنانے کا عملی طور
پر اعلان ہے جوکہ RSS کا دیرینہ خواب اور نظریہ ہے، جیسا کہ نریندر مودی نے
اپنے ٹویٹ میں اعلان کیا کہ ''The Bill is in line with India's centuries
old ethos of assimilation and belief in humanitarian values'' اس ٹویٹ
میں مودی نے RSS کے نظریہ دو قوم کا واضح عملی اعلان کردیا ہے، RSS کے
نظریہ کے بارے میں ڈاکٹر امبیڈکر نے قرارداد پاکستان منظور ہونے سے پہلے ہی
بیان کردیا تھا کہ ''ہندوتوا کے نظریات کے مطابق ہندو اور مسلمان دو الگ
الگ قومیں ہیں'' اور تقسیم ہند کا پلان بھی سب سے پہلے ہندوتوا مائنڈسیٹ نے
ہی اجاگر کیا، ہندو انتہا پسند بھائی پرمانند جوکہ RSS کے لیے ہیرو کی
حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے فرزند کو RSS نے گورنر بھی لگایا، بھائی پرمانند
نے 1908-1909 میں ہندو مہاسبھا کے اجلاس کے دوران پلان پیش کیا کہ ''سندھ
فرنٹیئر پراونس و ملحقہ علاقوں پر عظیم مسلم سلطنت قائم ہونی چاہئے اور
باقی ہندوستان پر ہندووں کی عظیم سلطنت، ہندو اکثریتی علاقوں سے مسلمان
وہاں چلے جائیں اور ہندو یہاں منتقل ہوں'' بھائی پرمانند کی اس بات سے یہ
بالکل واضح ہے کہ BJP کا موجودہ CAB بل اور مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کا
ایجنڈہ ایک ہندو راشٹریہ بنانے کا عمل ہے اور ہندوتوائی انڈیا کو سیکیولر
انڈیا یا جمہوریت کہنا جمہوریت کی توہین ہے، اس کے علاوہ RSS بانی کے قریبی
ساتھی B.S Moonje نے اودھ ہندو مہاسبھا کے اجلاس 1923 میں خطبہ دیا کہ ''جیسے
انگلینڈ انگریزوں کا، فرانس فرنچ کا اور جرمنی جرمنوں کا ہے بالکل اسی طرح
ہندوستان صرف ہندووں کا ہے، ہندو اگر ایک پلیٹ فارم پر آگئے تو انگریز و ان
کے اتحادیوں کی چھٹی ہوجائیگی، مسلمانوں کو بھی نکال سکتے ہیں، تب ہی انڈیا
ہندو دیش بنے گا'' BJP کے موجودہ عزائم و عمل بالکل اسی سوچ و فکر کی عکاسی
ہے ایسے میں ہندوتوا کے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دینا
جمہوریت پہ سب سے بڑا الزام ہے جب نظریہ ہندوتوا ہی مشکوک ہو تو اس کے بطن
سے نکلنے والا ہر بچہ ناجائز ہی ہونا ہے خواہ وہ ایڈوانی ہو، مودی ہو یا
امیت شاہ اور دنیا نے دیکھا کہ ہندوتوا کے ابھرنے کے بعد انسانیت کا خون
ہوا جو آج بھی جاری ہے، نظریہ ہندوتوا 1923 میں ساورکر نے پیش کیا اور
دلچسپ ترین بات یہ کہ جیل میں انگریز سرکار نے اسے یہ لکھنے اور شایع کرنے
کی اجازت دی، ہندوتوا کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت تیزی سے ہندوتوا
ریاست کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا اجیرن
بنادیا گیا ہے جوکہ مستقبل قریب میں کسی بھیانک تصادم میں تبدیل ہوسکتا ہے،
پانچ اگست کو کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر
کا فیصلہ اور اب CAB کی آڑ میں مسلمانوں کو اپنی ہی زمین پہ اجنبی بناکر
بیدخل کرنے کا اقدام اٹھایا گیا ہے جس پر ایک طرف تو بھارت کے مسلمانوں میں
غم و غصہ پایا جارہا ہے جبکہ دنیا میں ہندوتوا کے خطرناک عزائم کو تشویش کی
نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، امریکی ممبر کانگریس آندرے گارسن نے خبردار کیا ہے
کہ اگر BJP کو اس کی ناپاک حرکتوں و جارحانہ سوچ سے باز نہ رکھا گیا تو
کوئی بعید نہیں کہ ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگی، اب دنیا کے طاقتور
ممالک کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ دنیا کو تباہ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں
یا بھارت کو باز رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھاتے ہیں۔
|