حکمرانوں سنو! تمہارے اختلافی
جمہوری حُسن نے عوام کے حُسن کا بیڑا غرق کر دیا ہے.......
اِس سے انکار ممکن نہیں کہ جب سے موجودہ جمہوری حکومت نے اپنا اقتدار
سنبھالا ہے ہمیں تو ایسا ہی محسوس ہوا ہے کہ جیسے ہمارے حکمران اپنے قول و
فعل سے خود یہ چیخ چیخ کہہ رہے ہیں کہ”آؤ اختلاف ....اختلاف کھیلیں اور
اِسی کھیل کے سہارے ہی ہم اپنی (حکومتی )مدت پوری کرجائیں کیونکہ اِن
جمہوری حکمرانوں کے نزدیک اختلاف جمہوری حُسن ہے جس کا خود برملا اظہار
گزشتہ دنوں صدر ِ مملکت سید آصف علی زرداری نے اپنے خطابات اور ہونے والی
ملاقاتوں میں کرتے ہوئے کیا ہے کہ اختلافِ رائے سے جمہوریت مزید مضبوط ہوگی
کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اختلاف جمہوری حُسن ہے اور پاکستان میں سیاسی
قیادت پختہ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے بغیر اکثریت کے جمہوریت کامیابی سے چل
رہی ہے اور اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کا ہر ادارہ دوستانہ
ماحول میں اپنے اپنے حصے کا کام انتہائی خندہ پیشانی اور خوشدلی سے کر رہا
ہے جس سے جمہوریت کی ریل بھی سست رفتاری سے ہی صحیح مگر چل ضرور رہی ہے اِس
کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اِس کا اِس طرح سے چلنا ہی ملک میں
آمریت کا راستہ روکنے کا طریقہ اور مزید جمہوریت ہے جو ایک اچھا عمل ہے اور
اپنے اِسی عمل سے ہم دوسروں کو برداشت کرنے پر یقین رکھتے ہیں علاوہ ازیں
صدر کے اِن خیالات کے بعد ملک کی سیاسی جماعتیں بھی یقیناً اِس سے متفق ہوں
گی کہ اختلاف جمہوری حکومت کا جمہوری حُسن ہے کیونکہ ہماری تمام سیاسی
جماعتیں بھی اِسی اختلافی جمہوری بناؤ سنگھار کے حُسن سے آگے نہیں بڑھ سکی
ہیں۔جبکہ ہمارے خیال میں ہماری اِس نووارد جمہوریت میں یہ کیسا اختلافی
حُسن ہے ....؟؟کہ جِسے ہمارے حکمران اور سیاست دان ملک میں جاری جمہور اور
جمہوری عمل کے لئے جمہوری حُسن قرار دے رہے ہیں اور اِس سے اپنا کام چلا
رہے ہیں کیونکہ گزشتہ تین سال کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ اِن کے اِس
جمہوری اختلافی حُسن نے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے حُسن کو تو دوبالا
کردیا ہے مگر عوام کے باہم متحد اور منظم ہوکر ووٹ کی طاقت استعمال کرنے
والے اپنے اُس حُسن کا جس پر عوام کو کبھی بڑا ناز ہوا کرتا تھا اِس کا
ایسا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے کہ اَب تو عوام اپنے اِس حُسن سے بھی ڈرنے
لگے ہیں جس کی ایک جھلک دکھا کر عوام حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنا
گرویدہ بنا لیا کرتی تھی اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ آج ہمارے یہاں کا یہ جو
جمہوری حُسن ہے وہ شکر میں لپٹی ہوئی وہ زہریلی گولی ہے جِسے جب ہمارے
حکمران اور سیاستدان نگلتے ہیں تو یہ نہ صرف اِن کے لئے میٹھی محسوس ہوتی
ہے بلکہ جو اِن کی درازِی عمر کا بھی باعث بنتی ہے مگر جب ہمارے حکمران اور
سیاستدان اپنی سیاسی بازی گری سے یہ ہی گولی عوام کے سامنے نگلنے کو پیش
کرتے ہیں تو یہ شکر میں لپٹی ہوئی بظاہر حسین نظر آنے والی گولی عوام کے
حلق سے نیچے اُتارتے ہی اِن کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے جیسے اِن دنوں
ہمارے یہاں یہ جمہوری اختلافی حُسن کی گولی اپنا دوطرفہ کام کچھ اِسی طرح
کر رہی ہے جیساہم اِس کی خصوصیات کے بارے میں مندرجہ بالا سطور میں بیان
کرچکے ہیں ۔
اِس منظر اور پس منظر میں اَب ہمارے قارئین یہ بات بھی ذہن نشین رکھیں کہ
بعض چیزیں جو کسی کے لئے انتہائی خُوب صُورت ہوتی ہیں مگر درحقیقت یہ اِن
کے لئے بھی بالکل بے فائدہ ہوتی ہیں جیسے ہمارے یہاں کے سیاسی اختلافات
جنہیں ہمارے حکمران اپنی بڑی ڈھٹائی سے اِنہیں جمہوری حُسن قرار دے کر
اِنہیں خُوبصورت گرداننے کی اپنی اپنی کوششوں میں مگن ہیں حالانکہ اِسی
جمہوری اختلافی حُسن نے اِن کے لئے قدم قدم پر کیسی کیسی مشکلات پیدا کر
رکھی ہیں اِس کا اندازہ اِن سے بہتر کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ہے۔ مگر چونکہ
یہ بھی ایک سیاسی حربہ ہے کہ اگلے تک پریشانیوں کے دلدل میں دھسنے کے باجود
بھی دنیا کے سامنے خود کو ایسا بنا کر پیش کیا جائے کہ جیسایہ کوئی مسئلہ
ہی نہیں ہے ۔ جبکہ جن اختلافات کو ہمارے حکمران جمہوریت اور اپنی حکومت کے
لئے حُسن قرار دے رہے ہیں یہ خود بھی اِس حُسن سے بیزار ہیں ۔
کیا سیاست نے دیا قوم کو نفرت کے سِوا
کیا سیاست نے دیا ہم کو عداوت کے سِوا
کیا ملا فِکر کو جزفکرِ خصومت کے سِوا
کیا ملا دید کو جُز دہدہ عبرت کے سِوا
اگر دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں اِس جمہوری حکومت کے ابتدائی اختلافات
اِپنی اتحادی جماعتوں سے تو اُس وقت سے ہی کھل کر سامنے آنے شروع ہو گئے
تھے جب اِسی جمہوری حکومت نے ملک پر گیارہ سال حکومت کرنے والے سابق آمر
صدر صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ملک سے رخصت کیا
تھا اِس وجہ سے اُس وقت ہی اہلِ دانش کے ذہنوں میں یہ خیال ایک سوال کی طرح
امڈ آیا تھا کہ کیا اِس جمہوری حکومت کو آئندہ دنوں، ہفتوں، مہینوں اور
سالوں میں صحیح معنوں میں جمہوری حکومت کو رول ماڈل کہا جاسکے گا۔جو اپنے
ابتدائی دنوں سے ہی آمر کے لئے اتنا کچھ کر گئی ہے جس سے اِس کے اتحادی
نارض ہوگئے ہیں یہاں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکمران اختلاف کو جمہوری حُسن
کہنے کے بجائے عوام کی خدمت کو اپنا زیور اور حقیقی حُسن کہتے تو کتنا اچھا
ہوتا بہرکیف !اَب آخر میں اپنے کالم کے اختتام پر اِس جمہوری حکومت کے
جمہوری حکمرانوں کے ہاتھوں باعزت طریقے سے ملک کے سابق آمر صدر جنرل
(ر)پرویزمشرف کی رخصتی کے حوالے سے مجھے فاروق بشیر کا یہ قطعہ یاد آگیا کہ
لہو انسانیت کے پینے والے
بنے ہمدرد ہیں اِنسانیت کے
جنہوں نے آمریت کو جِلا دی
بنے ہیں چیمیپئن جمہوریت کے |