خنجر نے کہامیں زیادہ گہرا زخم لگاتا ہوں ،نیزے
کی آواز آئی نہیں نہیں میرالگایازخم بہت گہراہوتا ہے۔اس بات پر
تلوار،نیزے،خنجر اوربندوق کے درمیان زوردار بحث جاری ہے ،سبھی اوزارایک
دوسرے کا دعویٰ چیلنج کررہے ہیں جبکہ پاس کھڑی زبان نے خطرناک ہتھیاروں کی
باتیں سن کرزوردار قہقہہ لگایا اوربولی تمہارے لگائے زخم پرتومرہم
لگایاجاسکتا ہے لیکن میرالگایا گھاؤ کبھی نہیں بھرتا۔ہم سچائی تک رسائی کی
سنجیدہ کوشش کئے اورملزم کوسنے بغیر اپنا اپنافیصلہ سنادیتے ہیں۔پی آئی سی
پرلائرز کادھاوا توسب کو یادہے مگروہ شرپسند ڈاکٹرجس کا نام عرفان ہے مگراس
کام شیطان سے بدترتھا،اس کی زبان نے جو زخم لگائے وہ کیوں فراموش کردیے
گئے،یہ ڈاکٹر سنیل نامی شہری کوتشدد کرکے قتل کرنے کی ایف آئی آر میں بھی
نامزدرہامگراس نے مقتول کے ورثا کورقم اداکرکے خودکوتختہ دار سے
بچالیاتھا،اس طرح کے عناصرصرف زبان دراز نہیں ہوتے بلکہ ان کی رسی بھی دراز
ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں نیب ہر بدعنوان کے تعاقب میں ہے جبکہ بدزبان
مسنداقتدارپربراجمان ہیں ۔باب العلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کابیش قیمت قول ہے
،''حکومت،طاقت اوردولت ملنے سے کوئی انسان بدلتا نہیں بلکہ بے نقاب ہوتا ہے
''،تواس اصول کے تحت عمران خان اوران کے ٹیم ممبرز بھی دن بدن بے نقاب
ہورہے ہیں۔اگروزیراعظم ''بردبار''ہوتے تو''بزدار'' ان کاٹیم ممبر نہ ہوتے۔
اگرکسی میں بنیادی طورپر کوئی کارخیرکرنے کی صلاحیت نہیں ہے تووہاں بیچاری
نیت کیاکرے گی ۔پی ٹی آئی کے چندوزراء اورکچھ سرکاری سیکرٹری جس وقت
میڈیاٹاک یاکسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ،''وزیراعظم عمران کے ویژن
اوروزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کے ویژن''کا''تڑکا''لگاتے ہیں تومجھے
ان کے مردہ ضمیراورخوشامدی ہونے پرکوئی شبہ نہیں رہتا۔عمران خان ہرگزمردم
شناس نہیں ،میں ان کے ٹیم ممبرز دیکھتے ہوئے اس نتیجہ پرپہنچا ہوں ۔میں
سمجھتاہوں اناپرست اورخودپسندعمران خان نے اپنے نجی قصرکاماحول
خوشگواررکھنے کیلئے عثمان بزدار کامنصب بچاتے بچاتے بہت کچھ گنواجبکہ باقی
داؤپرلگادیا، پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ راکھ کاڈھیر بن گئی ہے مگرعمران خان
اپنے کندھوں سے بزدارکوبوجھ اتارنے کیلئے تیار نہیں۔پنجاب میں مسلم لیگ (ن)
اورمسلم لیگ (ق)کو عثمان بزداربہت سوٹ کرتا ہے اوردونوں پارٹیاں اس صورتحال
سے بہت خوش ہیں۔میں نے عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے فوری بعدانہیں
مخاطب کرتے ہوئے لکھاتھا وہ اپنی اہلیہ سے بہت محبت کریں اورانہیں بہت عزت
دیں لیکن امورحکومت ،جماعت اورسیاست سے انہیں بہت دوررکھیں لیکن انہیں راقم
کا یہ مشورہ پسند نہیں آیا۔
''وفاق اورپنجاب کے حکمرانوں کا شروع دن سے''تبدیلی'' نہیں ''تبادلوں''
پرزورہے''، راقم نے یہ بات چندروزقبل بھی لکھی تھی ۔پنجاب میں چیف سیکرٹری
اورآئی جی پنجاب کی حالیہ تبدیلی کے سواباقی تبادلے بے سود رہے ۔
ذوالفقارحمید ڈی آئی جی ہیں مگرانہیں سی سی پی اولگادیا گیا ،اس تقرری
کیلئے ایڈیشنل آئی جی ہوناضروری ہے۔پی ٹی آئی والے میرٹ کے نام پرمیرٹ
کاقتل عام کررہے ہیں۔عمران خان کی تقریروں میں میرٹ کی رَٹ سن کرمیں ہنس
پڑتا ہوں،عثمان بزدارکوتخت لاہورپربراجمان دیکھتے ہوئے میرٹ کامفہوم سمجھ
آجاتا ہے۔پی آئی سی کاسانحہ یقینا بزدار کی بیڈگورننس اورلاہور
پولیس(آپریشنزونگ) کی نااہل قیادت یعنی سی سی پی اولاہورذوالفقارحمید ،ڈی
آئی جی آپریشنز رائے بابرسعیداورایس ایس پی آپریشنز محمدنوید کی مجرمانہ
غفلت کاشاخسانہ ہے،کس طرح شاخسانہ ہے ہم آگے چل کر ان ایشوز پر بات کرتے
ہیں۔پی آئی سی میں ایس پی اورایس ایچ اوزحضرات سمیت پولیس اہلکارسینہ
سپرتھے مگران سے پیشہ ورانہ کام نہیں لیا گیا،یعنی بحران میں کمانڈکافقدان
تھا۔یقینا اہل آئی جی پنجاب لاہورمیں نااہل ٹیم کے ساتھ کس طرح ڈیلیورنہیں
کر سکتے ،شعیب دستگیربھی یقینااس بارے میں سوچ رہے ہوں گے۔لاہورپولیس کو پی
آئی سی میں آنسوگیس استعمال کرنے کامشورہ کس نے دیا،وہاں جوآنسوگیس کے شیل
استعمال ہوئے سناہے وہ ایکسپائر تھے۔پی آئی سی میں ہونیوالی حالیہ''
بدامنی'' کے ڈانڈے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اورلاہورپولیس کی نااہلی
اور''بدانتظامی ''سے جاملتے ہیں،سانحہ پی آئی سی کے نتیجہ میں ریاست کی''
بدنامی'' پنجاب کے منتظم اعلیٰ اورلاہورپولیس کی بدترین ''ناکامی''
بلکہ''بدانتظامی ''کاشاخسانہ ہے ۔لاہورپولیس میں پچھلے دنوں ہونیوالی
تبدیلی کافیصلہ ہرگز درست نہیں تھاتاہم پی آئی سی آپریشن کے دوران انتہائی
بدانتظامی ، بدترین ناکامی اوربدنامی کے بعدسی سی پی اولاہور،ڈی آئی جی
آپریشنز لاہوراورایس ایس پی آپریشنز لاہور کی دوبارہ تبدیلی ناگزیرہوگئی
ہے۔لاہورکے زیرک اورتجربہ کار سی سی پی اوبی اے ناصر،پروفیشنل اور انتھک ڈی
آئی جی آپریشنز اشفاق احمدخان کو ماہ محرم ،ماہ صیام ،عیدین اورسیاسی
اسیران کی پیشیوں سمیت مختلف ایونٹس کے دوران سکیورٹی کے بہترین انتظامات
کے باوجودہٹانا بزدار حکومت کومہنگا پڑگیا،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور
ڈاکٹرانعام وحیدخان اورسی ٹی اولاہورکیپٹن (ر)لیاقت علی ملک اپنے اپنے منصب
سے انصاف کررہے ہیں۔اگرڈی آئی جی اشفاق احمدخان لاہورائیرپورٹ پردوہرے قتل
میں گرفتار مبینہ قاتل کوانسداددہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے وقت وہاں
خفیہ طورپر فیلڈنگ لگا نیوالے دس مسلح شرپسندوں کوبروقت گرفتارکرکے
شہرلاہورکوایک بڑے کشت وخون سے بچاسکتے ہیں توان کے بعدآنیوالے وکلاء کی پی
آئی سی کی طرف اعلانیہ پیش قدمی روکنے میں کیوں ناکام رہے۔لاہورپولیس کے
اہلکارمشتعل وکلاء کوگرفتارکرنے سے زیادہ ان پر تشددکر کے انہیں انتقام
کانشانہ بنارہے تھے ۔جس طرح کچہریوں میں وکلاء کاپولیس اہلکاروں پرتشدد
جائز نہیں اس طرح پولیس اہلکاروں کالائرز پرتشدد ہرگز مناسب نہیں تھا۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں لائرزاورڈاکٹرز کے درمیان حالیہ تصادم
کی صورت میں جوکچھ ہواوہ اچھا نہیں ہوامگر وہاں سے انسانوں اورانسانیت کا
جنازہ اٹھ جانے کے بعد جوکچھ ہورہاہے اسے بھی اچھا نہیں کہاجاسکتاکیونکہ
لکیرپیٹنا کمزوروں کاکام ہے،اس گھمبیر معاملے کو درست انداز سے سلجھانے
اوراس کے مستقل اورموثرحل کاراستہ'' مقدمات'' نہیں بلکہ ''مکالمے'' سے
ہوکرجاتا ہے۔میں سمجھتاہوں اسیرلائرز کیلئے انہیں کسی شرط کے بغیر معاف
کرنے سے بڑھ کرکوئی سزانہیں ہوسکتی،تاہم ریاست انہیں رہاکرے نہ کرے
مگررسواہرگز نہ کرے۔اسیروکلاء کوجس اندازسے چہروں پرکالے کپڑے ڈال کر ججوں
کے روبرو پیش کیا جارہا ہے وہ مناسب نہیں ۔پی آئی سی میں اموات ہماری تاریخ
کا انتہائی دلخراش واقعہ ہے لیکن یہ واحد سانحہ نہیں بلکہ ہماری قومی تاریخ
سانحات سے بھری پڑی ہے۔پاکستان کے اندرسے نظریہ پاکستان اورقائداعظم ؒ سمیت
بانیان پاکستان پردلخراش حملے کون فراموش کرسکتا ہے،منتخب ایوانوں میں
پارلیمنٹرین گتھم گتھاہوجاتے ہیں ،عدالت عظمیٰ پردھاواہماری تاریخ کاسیاہ
باب ہے ،مٹھی بھرنااہل اورعاقبت نااندیش سیاستدان ہرروزپاک فوج پر لفظی
حملے کرتے ہیں ،ملزم چھڑانے کیلئے کئی بار تھانوں پرحملے ہوئے ،عدالتوں میں
ججوں پرحملے کس کویادنہیں ،باوردی پولیس اہلکاروں پرحملے ،ڈسکہ میں ایک ایس
ایچ اوکے ہاتھوں دووکلاء کاقتل، ہسپتالوں میں بیماروں سمیت ان کی تیمارداری
کرنیوالے ورثاپربہیمانہ تشدداور زیرعلاج خواتین پرجنسی حملے ،تعلیمی اداروں
میں طلبہ سیاست کے نام پرکشت وخون، اساتذہ پرحملے ،خواتین اوربچوں پرجنسی
حملے،تھانوں میں تشدداورجعلی اِن کاؤنٹرز کے نتیجہ میں بیگناہ شہریوں کی
اموات،شادیوں میں جب کھانانہیں بلکہ بندے کھلتے ہیں وہاں بھی جھڑپ ہوجاتی
ہے ،ہمارے ملک میں مساجد،مدارس، مزارات اورامام بارگاہوں اورمیڈیاہاؤسز
پرحملے ہوتے رہے،ہرگاؤں کاوڈیراوہاں کافرعون ہے،قاتل ڈور نے بیسیوں
بیگناہوں کی جان لے لی ،کس کس حملے اوربلوے کی بات کروں ،ہماراپورامعاشرہ
عدم برداشت کاشکاراور تشدد پسند ہے،ہسپتال پرحملے کی بات ہویا آرمی پبلک
سکول پشاور میں دہشت گردعناصر کے حملے کامعاملہ ہوجارحیت ہرصورت ناقابل
برداشت ہے۔امریکا نے جس وقت جاپان پرایٹم بم گرایا تواس نے کسی ہسپتال کو
استثنیٰ نہیں دیا تھا ۔ ڈاکٹرز باربارتنخواہ بڑھانے کیلئے ہڑتال کرتے رہے
ہیں ، اس دوران بھی اموات ہو ئیں،ڈاکٹرزکی مجرمانہ غفلت سے بھی کئی بیمار
بے موت مرتے رہے ہیں مگرآج تک کسی کوسزانہیں ملی ۔بحیثیت قوم عدم برداشت ہم
رگ رگ میں سرائیت کرگئی ہے کیونکہ ہمارے ہاں فلمساز دانستہ وحشی گجر
اورمولاجٹ جیسی پرتشدد فلمیں بناتے رہے ہیں۔چندماہ قبل سمن آباد میں
دوخواتین نے اپنے گھرکام کرنیوالی بچی کوقتل کرکے اس بدنصیب کی نعش گندے
نالے میں پھینک دی تھی ،اتوار کے روزایک بنک منیجرنے کینٹ کی شاہراہ عام
پربندوق کی نوک پرایک عام شہری کوتشدد کانشانہ بنایا جوبعدازاں گرفتارکرلیا
گیا۔چندروزقبل ایک مدرسہ کے مولوی نے بیوہ ماہ کااکلوتابیٹا تشدد سے قتل
کردیاتھا۔تھانوں کے اعدادوشمار کے مطابق دوچار کے سوا ہزاروں مقدمات میں
عام شہری نامزد ہیں،عدالتوں میں 99%مقدمات میں پیش ہونیوالے عام لوگ ہیں
اوران کے دم سے عدالتی نظام پربوجھ ہے،صرف لائرزیاڈاکٹرزنہیں معاشرے کے
ہرفرداورطبقہ کو اصلاح کی ضرورت ہے اسلئے صرف لائرزکامیڈیااورعدالتی ٹرائل
انصاف نہیں۔لائرز،ڈاکٹرزاورپولیس اہلکارایک ہی معاشرے کاحصہ ہیں ۔کاش قاتل
ڈور کے نتیجہ میں ہونیوالی اموات کیخلاف بھی معاشرہ اس طرح بیداری
اوربیزاری کامظاہرہ کرے جس طرح ان دنوں سانحہ پی آئی سی کے بعدہمارامعاشرہ
اورسوشل میڈیا وکلاء کیخلاف مزاحمت کاربناہوا ہے ۔
سانحہ پی آئی سی کے دوران صوبائی وزیراطلاعات کے صرف بال نوچے گئے اورموصوف
کووہاں سے نکال باہرکیاگیالیکن موصو ف کاوہاں کیا کام تھا،کیا صوبائی
وزیراطلاعات پولیس کواحکامات دے سکتاہے۔اگرخدانخواستہ موصوف کو کچھ ہوجاتا
تواس کی قیمت کون چکاتا۔تعجب ہے وزیراعظم عمران خان اپنے صوبائی
وزیراطلاعات سے وضاحت طلب کرنے کی بجائے الٹانہیں شاباش دے رہے تھے ۔پی آئی
سی میں بھڑکنے والی آگ اچانک نہیں بھڑکی کیونکہ اس چنگاری سے کئی دنوں سے
دھواں اٹھ رہاتھا مگروزیراعلیٰ عثمان بزدار سمیت ارباب اقتدارواختیار کی
طرف سے اس کوبجھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں گئی بلکہ ان کی مجرمانہ غفلت نے
اسے آگ میں تبدیل کردیا اورجیل روڈ پرلاہورپولیس کی ایک وین بھی اس کی
زدمیں آگئی۔عثمان بزداراپنے آفس کی بجائے زیادہ وقت وزیراعظم ہاؤس میں ہوتے
ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان کووفاق سے زیادہ پنجاب کے معاملات میں دلچسپی
ہے، کپتان دوکشتیوں میں سوار ہیں۔عثمان بزدارکے پاس منصب ضرور ہے مگروہ بے
اختیار ہیں اوریہ بے اختیاری پنجاب کے اندربدانتظامی ،بے یقینی اور بے چینی
کی روٹ کاز ہے۔پنجاب کوبنی گالا کے کسی وفادار ''بزدار''کی نہیں بلکہ ایک
''بردبار'' ،بااختیار اورخودمختار وزیراعلیٰ کی ضرورت ہے جواپنے منصب کے
ساتھ انصاف اورگڈگورننس کیلئے اپناآئینی کرداراداکرے۔لائرزاورڈاکٹرزدونوں
ہمارے معاشرے کی ضرورت اورزندہ حقیقت ہیں مگربدقسمتی سے ان دونوں طبقات
کی'' انا''نے پی آئی سی کو''فنا''کردیا ۔پی آئی سی سانحہ کے بعد
لائرزکامیڈیا ٹرائل جبکہ ڈاکٹرزکوکلین چٹ انصاف نہیں،اگرجس ڈاکٹرکی
ویڈیووائرل ہوئی وہ اشتعال انگیز تقریرنہ کرتا بلکہ لائرزکونہ للکارتا تویہ
سانحہ رونما نہ ہوتا۔اس عاقبت نااندیش ڈاکٹر کی تقریر پرقہقہے لگانیوالے
لوگ بھی شریک مجرم ہیں، یقینالائرز کا پی آئی سی پردھاوا ناقابل فہم،ناقابل
برداشت بلکہ قابل مذمت ہے،اگرریاست لائرز کے ساتھ نرمی کیلئے تیار نہیں
توپھر پی آئی سی میں مشتعل لائرز کاانتظار کرنے اوران کیلئے'' فیلڈنگ
''لگانیوالے ڈاکٹرزاورپیرامیڈیکس اورخاص طورپر چھتو ں سے خشت باری کرنیوالی
خواتین اہلکاروں کوبھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکیاجائے۔کسی ایک فریق
پرقانون کااطلاق اوردوسرے کیلئے کلین چٹ یانرمی مناسب نہیں بلکہ اس سے
دونوں طبقات میں ''گرماگرمی ''مزید بڑھ جائے گی ۔لائرزاورڈاکٹرزدونوں ہڑتال
پر ہیں جبکہ عدالتوں اورہسپتالوں میں عام آدمی کاکوئی پرسان حال نہیں۔ریاست
ماں کی طرح اپنے دونوں بیٹوں کے درمیان پائیدار مفاہمت کیلئے
اپناکرداراداکرے۔لائرزکی گرفتاریوں کیلئے چادروچاردیواری کاتقدس پامال
اوران کے چہرے چھپاکرانہیں دہشت گردوں کی طرح عدالت میں پیش کرنے سے یہ
معاملہ سلجھے گانہیں بلکہ مزیدالجھے گا۔
|