ظلم کو قیامت کی تاریکی کا نام دیا گیا ہے ، اس تاریکی کو
دنیا میں ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہئے مگر ہم کمزور ہیں ظلم کا خاتمہ کیسے
کریں اور ظالموں کو کیفرکردار تک کیسے پہنچائیں؟آج ہندوستان میں مسلمانوں
پر جس قدر ظلم ڈھایا جارہا ہے اس کی مثال انگریزی سامراج میں بھی نہیں ملتی
ہے ۔ ہم ظلم اس لئے سہتے آرہے ہیں کہ ہم کمزور ہیں ، ہم تعداد اور طاقت
وقوت ہراعتبار سے کمزور ہیں ۔ہم بلامزاحمت قتل ہوتے رہے ، ہندوستان میں
مختلف حصوں میں ہمارا خون پانی کی طرح بہایا گیا، دوسرے مسلمان بھائی اس
خونی منظر کو دیکھتے رہے اور خاموش رہے ۔ گجرات میں تین ہزار مسلمانوں کو
دن کے اجالے میں قسم قسم کی اذیت ناک موت سے دوچار کیا گیا ، مجرم سرے عام
گھوم رہے ہیں مگرہم سراپا خاموش رہے ، کہاں جائیں اورکیا کریں ؟ حکومت ظالم
ہے ، کورٹ کچہری سب پر ظالم حکومت کا قبضہ ہے ، ایسے میں ہم قتل ہوتے رہیں
گے اور حکومت تماشہ دیکھتی رہے گی بلکہ مجرموں کی نہ صرف پشت پناہی کرتی
رہے گی انہیں اس مجرمانہ کام پر اکسانے والی بھی یہی ہوگی ۔ دن کے اجالے
میں بابری مسجد منہدم کردی گئی ، مجرم موجود ہیں ، ان کے خلاف ساریثبوت
موجود ہیں مگر ان مجرموں کو کوئی سزا نہیں مل سکتی کیونکہ حکومت ظالم ہے
اور عدالتوں سے مجرم کو راحت تو مل سکتی ہے سزا نہیں مل سکتی ہے ۔ جب حکومت
نے ہمارے پرسنل لاء میں دخل اندازی کی ،طلاق پر پابندی عائد کی اورعدالت نے
بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کا فیصلہ سنا یا اس وقت یہ اندازہ ہوگیا
کہ اب ہندوستان کے کورٹ کچہریوں سے مسلمانوں کے حق میں بچا کچا انصاف بھی
ملیامیٹ ہوگیا۔
جب بی جے پی کی حکومت ہی لاشوں اور ظلموں کے ڈھیر پر بنی ہواس حکومت کا
پارلمنٹ سے سی اے بی کا پاس کرانا کوئی امر محال نہیں ہے ۔ ہم کمزور ہوتے
ہوئے ابتک سارے ظلم سہتے رہے مگر سوچ وفکر کا مقام یہ ہے کہ کیا یہ ظلم بھی
پہلے کی طرح سہہ لیں گے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سہنے والا ظلم نہیں ہے ۔
اس قرار سے ہم سب مسلمانوں کی جان ومال داو پر لگی ہے ، جہاں سارے مسلمان
کی جان داو پر ہو وہاں کیسے خاموش رہ سکتے ؟ جہاں دستور ہند ہمیں عزت
وآبرو، جان ومال اور دین وملت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے وہیں شرعی اعتبار
سے بھی حق رکھتے ہیں کہ اپنی جان، عزت اور دین کی حفاظت کریں ، بایں طور
قتل بھی کردئے گئے تو شہید کہلائیں گے ۔
پہلے ہمیں اپنی ایک غلطی کی اصلاح کرنی ہوگی ، مسلمان این آر سی کے ڈر سے
جگہ جگہ کیمپ لگارہے ہیں اور اپنے اپنے کاغذات درست کررہے ہیں ، ہمیں اس کی
ضرورت نہیں ہے ۔ کیا ہمیں اپنے ہندوستانی ہونے پر شک ہے ؟ بالکل شک نہیں ہے
پھر حکومت کے ظالمانہ قانون سے ڈر کر ہندوستانی ہونے کا کیوں ثبوت پیش کریں
؟میں داد دیتا ہوں ان تمام صوبہ جات کے وزراء کو جنہوں نے این آر سی کی سخت
مذمت کی ہے اور اپنے اپنے صوبوں میں اسے لاگو نہ ہونے دینے کا اعلان کیا ہے
۔ حکومت کو قطعی اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ سارے ہندوستانیوں سے
ہندوستانی ہونے کا ثبوت مانگیں ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنی ہوگی اور اپنے
ساتھ غیرمسلموں کو بھی اس بھروسے میں لینا ہوگا۔ اگر کسی گاوں میں چوری
ہوتو حکومت کا کام ہے چور پکڑے، وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ سارے گاوں والے
ثبوت پیش کریں کہ ہم چور نہیں ہیں ۔ لہذا این آر سی کا سرے سے بائیکاٹ کریں
جس طرح سی اے بی کا بائیکاٹ کررہے ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی بھی تعداد کم نہیں ہے مگر آپس میں مسلکی
ٹولیوں میں بٹنے کی وجہ سے ہم کمزور لگ رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ہم اتنے
کمزور بھی نہیں ہیں جتنا رونا روتے ہیں ۔ہم سب ایک دین کے ماننے والے ہیں
،ہمیں اس دین پر ایک ہونا ہوگا۔ ہم کو ایک کرنے کا طریقہ بھی وہی ہوگا جس
طریقہ سے ہم جدا جدا نظر آتے ہیں ۔ عوام کو گروہوں میں ان کے علماء نے
تقسیم کیا ہے وہی علماء عوام کو ایک جگہ جمع ہونے کا درس دے کر جمع کرسکتے
ہیں ۔ یہاں امیرالمومنین چننے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک جگہ جمع ہوکر
مشترکہ کوششوں سے ظالمانہ قرار داد کی مخالفت کرنی ہے اور دستوری طور
پراپنا حق بحال رکھنا ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ بہت سارے علماء ابتک یہ بیان جاری کرچکے ہیں کہ اس وقت
ہمیں متحد ہونا چاہئے، ہمیں کیب کی مخالفت کرنی چاہئیاور ہم یہ بھی جانتے
ہیں کہ جمہوری ملک میں حقوق طلبی اور ظالمانہ قرارداد مسترد کرنے کے لئے
عموما مظاہرے ہی کرنا پڑتا ہے ، باشعور ہندوستانیوں نے اس بات کو محسوس کیا
اور ہند کے اکثر علاقوں میں پرامن مظاہرے کررہے ہیں حتی کہ عصر ی طالب
علموں نے اس میدان میں نمایاں اقدام کیا جس کی وجہ سے ان پر مظالم ڈھائے
گئے، وہ سب طالب علم شکریہ کے حقدار ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ مظاہرین کی
صفوں میں علمائے امت ، رہنمائے ملت اورقائدین اسلام نظر نہیں آرہے ہیں ۔جنگ
آزادی میں علماء کی قیادت و شجاعت اور جان ومال کی قربانیاں ہمارے سامنے
ہیں ۔ اس لئے صرف بیان بازی سے کام نہیں چلے گا ، اپنی اپنی جماعت وجمعیت
لیکرقائدین وعلماء کوگھروں سے نکلناپڑیگا اور عوام کے شانہ بشانہ ہوکر
پرامن مظاہرے میں حصہ لینا ہوگا۔
سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ کیب کی مخالفت میں پورا ملک بشمول ہندو، سکھ،
عیسائی ہمارے ساتھ ہے ، اپنوں میں او ر غیرمسلم بھائیوں میں یہ شعور پیدا
کرنا ہوگا کہ این آر سی ہم سب کے لئے خطرناک ہے ، ہم سب لوگوں کو پہلے یہ
ثابت کرناہوگا کہ ہندوستانی ہیں اور ظاہر سی بات ہے یہ کام سب کے لئیبڑا
دشوار ہے ، خاص طور سے غریب ومزدور لوگوں کے لئے جن کے پاس کاعذات محفوظ
نہیں ہوتے، سیلاب زدہ علاقوں کے لئے جن کا کوئی سامان محفوظ نہیں
ہوتااورہندومسلم عورتوں کے لئے جن کے نام سے سرکاری کاعذات کم ہی ہوتے ہیں
۔ جب یہ شعور تمام لوگوں میں پیداہوجائے گا تو ان سب کے لئے کیب کی مخالفت
کرنا آسان ہوگا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ کیب کے خلاف پورے ہندوستان میں مظاہرے ہورہے ہیں ، ان میں
مسلم علماء اور قائدین کی بھی شمولیت ضروری ہے، ساتھ ساتھ لوگوں کو خصوصا
غیرمسلموں کو این آر سی کی مشکلات کا احساس دلانا ہے اور ہمیں کوئی کاغذ
تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ ہندوستان ہمارا ہے ، ہم یہاں پیدا ہوئے ،
ہمارے باپ دادا نے انگریزوں کی غلامی سے ملک آزاد کرایا اور ان سب نے مل کر
سیکولربھارت بنایا جس کا آئیں سیکولر ہے ، اس آئین کے تحت سب کو ملک میں
رہنے اور اپنے اپنے مذہب کے حساب سے جینے کا حق حاصل ہے ۔ کوئی اس
سیکولربھارت اور سیکولرآئین کو توڑنے کی کوشش کرے توہمیں اسے اس ملک سے
باہر کرنا چاہئے یا ایسے ظالم کے ہاتھوں حکومت نہیں سونپنی چاہئے یاکم ازکم
سیکولرزم کو ٹوٹنے سے روکنا چاہئے ، آخری کام تو ہمیں ہرحال میں کرنا ہوگا۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا |