شہریت ترمیم قانون نے امیت شاہ کا پول کھول دیا

شہریت ترمیمی قانون پر وزارت داخلہ کا تازہ بیان مظاہرین کی کامیابی کا واضح اشارہ ہے ۔ وزارت نے کہا ہے کہ اس کے مسودے پر غوروخوض چل رہا ہے نیز احتجاج کرنے والوں سے بھی مشورہ طلب کیا گیا ۔ یعنی کل تک جن کو یوگی جی شرپسند فسادی کہہ رہے تھے یا شاہ جی بہکاوے میں آنے والا فریب خوردہ لوگوں کے خطاب سے نوازر ہے تھے آج ان سے مشورہ طلب کیا جارہا ہے۔ اس بیان نے امیت شاہ کی اس طاقتور شبیہ کو ملیا میٹ کردیا ہے جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ مودی سے بھی زیادہ سخت ہیں اور کسی صورت جھک نہیں سکتے اس لیے کہ وزارت داخلہ نے بیان دینے کی یہ وجہ بتائی ہے کہ حالات قابو سے باہر نہ ہوجائیں ۔

اس سے پہلے لال کرشن اڈوانی کو لوہ پوروش کہا جاتا تھا لیکن وہ تو مودی کے سامنے کپاس بن گئے اور پھر امیت شاہ میں ہوا بھری گئی جو مظاہرین نے شہریت ترمیم قانون پر احتجاج کرکے نکال دی ۔ امیت شاہ کو عصر حاضر کا چانکیہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتاہے کہ وہ نہایت چالاک انسان ہیں اور عوام کی نبض پہچانتے ہیں۔ شہریت کےقانون میں ترمیم کرنے کی اصل وجہ آسام کے صوبائی انتخاب میں اپنی پکڑ مضبوط کرنا تھا کیونکہ اس صوبے میں این آر سی کا داوں الٹا پڑ چکا تھا۔ اس رجسٹر کے اندر بنگالی بولنے والے ہندووں کی اکثریت کی ناراضگی سے بچنے کے لیے پہلے تو این آر سی کو صوبائی حکومت نے مسترد کردیا۔ نئے سرے سے این آر سی کرنے کے فیصلے نے بنگالی بولنے والے ان ہندووں کو اندیشوں کا شکار کردیا جن کے نام پہلے رجسٹر میں شامل ہوچکے تھے اور اوپر سے آسامی بولنے والے مقامی لوگ بھی ناراض ہوگئے۔

اس طرح بی جے پی کی آسام میں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی حالت بن گئی۔ ایسے میں بنگالی بولنے والوں کو فریب دینے کے لیے سی اے بی کا فریب رچا گیا لیکن مقامی آبادی کے بپھر جانے کا اندیشہ موجود تھا اس لیے امیت شاہ نے بل منظور کرانے سے قبل شمال مشرقی ہند کی سیکڑوں تنظیموں سے ملاقات کی لیکن عوام کا موڈ نہیں جان سکے اور قانون بناکر پھنس گئے۔ آسام اور اس کے پڑوسی صوبوں نے وزیرداخلہ اور وزیراعظم کو اس قدر خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ وہاں جاکر عوام کو سمجھانے کے بجائے دہلی سے ٹویٹ کرنے پر اکتفاء کررہے ہیں جبکہ وہاں انٹرنیٹ کی خدمات بند ہیں اور وہ پیغامات جن کے لیے لکھے جارہے ہیں ان کے سوا سب پڑھ رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں ۔

ماضی میں جب بھی انتخابات کے وقت شاہ جی کے ہاتھ بٹیر لگ جاتی تھی یا وہ سام ،دام ،دنڈ، بھید کے غیر اخلاقی حربے استعمال کرکے کامیاب ہوجاتے تھے تو اس کو ذرائع ابلاغ خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتا تھا لیکن سی اے بی نے ان کی قلعی کھول کر رکھ دی ۔ اس کا لے قانون کے خلاف جب شمال مشرق میں آتش فشاں پھوٹا تو وہ ہکا بکا رہ گئے اور کھسیانی بلی کی طرح لگے کھمبا نوچنے لگے اور عوام کے غم وغصے پر مرہم رکھنے کے بجائے حزب اختلاف پر الزام تراشی کرنے لگے ۔ وہ بھول گئے کہ ایسا کرکے وہ عوام کو احمق قرار دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں عام لوگ بڑی آسانی سے کسی کے بہکاوے میں آجاتے ہیں ۔ لوگوں کے جذبات کوجب اس طرح مجرو ح کیا جائے تو انتخاب کے وقت سبق سکھاتے ہیں اور بی جے پی جلد ہی تختہ ٔ مشق بننے جارہی ہے۔

سی اے اے یا این آر سی کے بارے میں امیت شاہ کی صفائی بے حد مضحکہ خیز ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ شہریت کا قانون ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے اور اس کو این آر سی جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کو ملانے کا کام کس نے کیا ؟ اس سوال سیدھا جواب یہ ہے کہ خود امیت شاہ نے بار بار ان دونوں کو جوڑنے کی غلیظ حرکت کی ہے۔ وہ بنگال کے اندربارہا عوامی خطاب میں یہ کہہ چکے ہیں کہ شہریت بل میں ترمیم کرنے کے بعد ہی این آر سی تیار کیا جائے گا اور کسی ہندو کا بال بیکا نہیں ہوگا۔ اس طرح کے بیانات پر جب تک لوگ تالیاں بجاتے رہے تو شاہ صاحب بغلیں بجاتے رہے لیکن جب عوام نے احتجاج شروع کردیا تو ان کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ شرارت کرگزرنے کے بعد شرافت کا ڈھونگ رچا نا کام نہیں آتا۔

امیت شاہ کو دوسرا اعتراض ہے کہ اس بابت افواہ پھیلائی جارہی ہے اور عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ اس بیان میں بی جے پی کے مشہور زمانہ آئی ٹی سیل کی ناکامی کا بلا واسطہ اعتراف موجود ہے ۔ ملک میں جھوٹ پھیلانے کی سب سے بڑی دوکان تو خود بی جے پی نے کھول رکھی ہے۔اس کی وزیر سمرتی ایرانی ایوان پارلیمان میں ڈنکے کی چوٹ پر راہل گاندھی کا بیان توڑ مروڈ کر پیش کرتی ہیں ۔ جے این ایو کے طلباء پر تہمت بازی کی ویڈیو پر دوسری آواز چپکانے کا کام وزارت انسانی وسائل یعنی تعلیم کی وزارت میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود حزب اختلاف عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجائے اور یہ ڈیجیٹل فوج دیکھتی رہ گئی اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے؟

امیت شاہ اور ان کے استاد نریندر مودی پہلے کہاکرتے تھے جو کام کانگریس نے ۷۰ سال میں نہیں کیا ہم نے ۷۰ دن میں کردیالیکن اب شاہ جی اپنی مدافعت میں نہرو لیاقت پیکٹ کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان دونوں نے اپنے اپنے ملک میں اقلیتوں کو تحفظ دینے کی بات کی تھی ۔ یہ بات درست ہے لیکن پنڈت نہرو کے ہر فیصلے کو قوم دشمن قرار دینے والے وزیرداخلہ کی زبان سے پنڈت نہرو کی تعریف حیرت انگیز ہے۔ اس معاہدے میں اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کے تحفظ کی بات تھی جبکہ بی جے پی نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اول تو ہندوستان کے اندر اقلیت کا جینا دوبھر کررکھا ہے اور غیر ممالک کی اقلیتوں کے لیے ٹسوے بہا رہی ہے۔ شاہ جی نے اندرا جی کے ذریعہ لاکھوں سری لنکن ہندووں کو شہریت دینے کا بھی ذکر کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ خود سرلنکا سے آنےوالے ایک لاکھ دوہزار ہندووں کو شہریت کیوں نہیں دیتے۔ شاہ جی نے ایک انٹرویو میں راجیو گاندھی کے آسام معاہدے کا حوالہ دے کر کہا کانگریس نے اپنے ووٹ بنک کے لیےاس پر عمل در آمد نہیں کیا۔ یہ الزام درست ہے لیکن بی جے پی نے عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی بجا آوری میں تیار کیے جانے والے این آر سی کو مسترد کرکے راجیو گاندھی کے آسام معاہدے کی جو دھجیاں اڑائی ہیں اس کو چھپا دیا۔

اس طرح شاہ جی نے ازخود نادانستہ حزب اختلاف کے اس الزام کو تسلیم کرلیا کہ یہ سرکار پرانی شراب کونئی بوتل میں پروسنے کے سوا کچھ نہیں کرتی ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ جس کام کے لیے پرانی حکومتوں کو برا بھلا کہا جاتا انہیں کو دوہرا کر اس پر فخر جتایا جاتا ہے۔ یہ منافقت کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سارے معاملات میں کانگریس نے جو کیا تھا وہی بی جے پی کررہی ہے مگر فرق یہ ہے کہ پہلے والے ہر فیصلے کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے تھے مگر بی جے پی کا یہ حال ہے کہ رائی کا پہاڑ بناتی ہے اور اس سے سیاسی و جذباتی استحصال کرتی ہے۔ شہریت کے ترمیمی قانون پر بی جے پی کے نئے مداح اور معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے یہی کہا کہ وہ اس سے ہندو ووٹ بنک کو مضبوط کرنے کے فراق میں ہے لیکن سردیسائی نے یہ بھی کہا کہ زعفرانی اس سازش میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ معاشی مندی اور بیروزگاری کے آگے رام مندر اور سی اے اے ڈھیر ہوجائیں گے۔ اس قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج نے راجدیپ سردیسائی کی بات پر مہر ثبت کردی ہے اور وزارت داخلہ کے بیان سے یہ حکومت نے بھی اسے تسلیم کرلیا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450817 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.