برطانیہ کے سابق وزیراعظم ،رائٹر اور آرمی آفیسر سر ونسٹن
چرچل کہتے ہیں کہ " بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے " میرے
خیال سے ہر وہ شخص جو تھوڑی بہت بھی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہے وہ سر ونسٹن
چرچل کے خیالات سے اتفاق کرے گا اورو اقع ہی جمہوریت آمریت سے کہیں زیادہ
اچھا طرز ِ حکومت ہے لیکن کیا میں اُس جمہوریت کو سَر میں ماروں جس میں
ڈیلیور کرنے کی اہلیت ہی نہ ہو۔؟ ملائیشیاکے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد
کہتے ہیں کہ "جمہوریت یا جمہوری نظام بغیر تعلیم کے کسی ملک پر ظلم کرنے کے
مترادف ہے'' اور پاکستان کی شرح خواندگی روز ِروشن کی طرح عیاں جس سے ہر
عام و خاص باخوبی واقف ہے۔ جہاں تک آمریت کا تعلق ہے تو آپ پاکستان کی
تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک
اگر کسی نے ڈیلیور کیا ہے تو فوجی ڈکٹیٹرز(آمروں) نے کیا وہ چاہے ملکی
معشیت ہو ڈیم بنے یا ایٹمی پروگرام ۔جنرل ایوب خان کی آمریت کا ایک دُوربھی
پاکستان کے تمام جمہوری اَدوار بھی مل کر مقابلہ نہیں کر سکتے ۔یہ وہی دور
تھا جب پی آئی اے دنیا کی نمبر ون ایئرلائن ہوتی تھی اور پاکستان دوسرے
ممالک کو قرضے دیتاتھا ۔جنرل مشرف کا دُور بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ گو
کہ آئین ِ پاکستان کے مطابق کوئی بھی فوجی جنرل ملک پر مارشل لاء لگا کر
حکومت نہیں کر سکتا۔لیکن ہر دُور میں حالات کی ستم ظریفی نے فوج کو ایسا
کرنے پر مجبور کیا۔ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا ء لگا
کر اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ۔مشرف نے ایسا کیوں
کیا یہ پاکستان کی سیاست کا ایک سیاہ باب ہے اور آج کے کالم کا موضوع
ِگفتگو ہے۔
1999 میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف
کے مابین کچھ اختلاف چل رہے تھے اوروہ اختلاف کارگل کی واپسی سے شروع ہوئے
تھے ۔ کارگل وار پاکستان نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی جس کا سہرہ نواز شریف اور
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی سیٹلمنٹ کے َسر جاتا ہے ۔اِسی اختلاف کے باعث
نواز شریف نے جنرل مشرف کو جبری ریٹائر کرنے اور نئے آرمی چیف ضیاالدین بٹ
کو تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیاتھا ۔اگرچہ میاں صاحب کو اُن کے قریبی
ساتھیوں اور ملٹری سیکٹرٹری نے ایسا کرنے سے منع بھی کیا کہ اِس فیصلے کے
نتائج ٹھیک نہیں ہوں گے لیکن میاں صاحب بضد تھے ۔ 10اکتوبر 1999 کو آرمی
چیف مشرف پرویز اپنی اہلیہ سمیت دو دن کے دورے پر سری لنکا چلے گئے تو مشرف
کی عدم موجودگی میں میاں نواز شریف نے اپنے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کی
تیاری شرو ع کر دی ۔مشرف کی واپسی سے 12 اکتوبر 1999کو میاں نواز شریف نے
مشرف کی جبری ریٹائرمنٹ کے نو ٹیفیکیشن پر سائن کیے اور پی پی پی کے صدر
فاروق لغاری کو ہٹا کراپنے ن لیگ کے لگائے گئے صدر رفیق تارڑسے بھی فائنل
اَپرومنٹ کروا لی جس کے بعدمشرف کی جبری ریٹائرمنٹ اور نئے آرمی چیف ضیا ء
الدین بٹ کی اپوائنمنٹ کی خبر پانچ بجے پی ٹی وی پر نشر کر دی گئی ۔جنرل
مشرف کی جبری ریٹائرمنٹ کی خبر سن کا آرمی کے حلقوں میں اضطراب پیداہو گیا
۔خبر نشر ہونے کے بعد فوج نے خبر دوبارہ نشر کرنے سے روک دیا گیاجبکہ مشرف
کی فلائٹ خبر نشر ہونے سے پہلے ٹیک آف کر چکی تھی اورمشرف کو اِس فیصلے کی
اطلاع پہنچانے کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ مشرف کے جہاز PK 805 نے 6:50
منٹ پر کراچی لینڈ کرنا تھا۔ لیکن نواز شریف نے ڈی جی سول ایوایشن اتھارٹی
امین اﷲ چوہدری کو مشرف کے جہاز کوپاکستان میں لینڈ کرنے سے سختی سے منع کر
دیا اور یہی حکم اُ س وقت پی آئی اے کے چیئرمین اور اب ایئر بلو ایئرلائن
کے مالک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی دیا۔شاہد خاقان عباسی اور
امین اﷲ چوہدری کے ساتھ نواز شریف نے آئی جی سند کو بھی لینڈنگ روکنے کے
احکامات جاری کر دیے ۔سند ھ پولیس نے وزیراعظم کے احکامات پر عمل در
آمدکرتے ہوئے ایئرپورٹ پر فائر بریگیڈگاڑیاں کھڑی کر کے رن وے کو بلاک کر
دیا تاکہ طیارہ لینڈ نہ کر سکے ۔چھ بجے کے قریب ائیرٹریفک کنٹرول(ATC) سے
کیپٹن سروت کو پیغام دیا گیا کہ آپ طیارہ PK 805 کو پاکستان کے کسی بھی
ایئرپورٹ پر لینڈ نہیں کر سکتے ۔ یہ سن کر کیپٹن سروت کافی پریشان ہوگے
کیونکہ جہاز میں مشرف سمیت ایک سو اٹھانوے مسافر تھے اور جہاز میں فیول صرف
تیس سے پنتیس منٹ کی اُڑان کا باقی تھا۔کیپٹن نے واپس پیغام بھیجا کہ جہاز
میں اتنا فیول نہیں کہ انڈیا کے شہر احمد آباد ایئرپورٹ کے علاوہ کسی اور
ملک جا سکے ۔نوازشریف کو جب جہاز کے فیول کے بارے بتایا کیا تو انہوں نے
احمد آباد ایئرپورٹ انڈیا لے جانے کا کہا ۔کیپٹن سروت نے جہاز میں موجود
مشرف کے ساتھی بریگیڈئیر ندیم تاج کو کاکپٹ (پائلٹ جہاں بیٹھ کے جہاز
اُڑاتا ہے ) میں بلایااور ساری صورت حال سے آگاہ کیا ۔یہ سن کر مشرف بھی
کاکپٹ میں آگیا اورپائلٹ کو جہاز انڈیا لے جانے پر کہا"اُوور مائی ڈیڈ باڈی
" (ایسا میری لاش پر سے ہوگا) ۔ جہاز کے کمونیکیشن سسٹم سے کراچی کنٹرول
ٹاور رابطہ کیا گیا۔ا یئرکنٹرولر کو مشرف نے کورکمانڈر کراچی سے بات کروانے
کو کہا تو ایئرکنٹرولر نے بات کروانے سے انکار کر دیا ۔ جنرل افتخارکو جب
ساری سیچوایشن کا پتہ چلا تو وہ کنٹرول ٹاور پہنچ گئے۔جنرل افتخار نے پائلٹ
سے بات کروانے کو کہا توکنٹرولر نے یہ کہہ کر انکارکر دیا کہ اوپر سے سخت
آرڈرآیاہے کہ فلائیٹ کے علاوہ پائلٹ کی کسی سے بھی کوئی بات نہ کروائی جائے
۔ کنٹرولر کا جواب سن کر جنرل افتخار نے اُس پر پستول تان لی جس پر کنٹرولر
نے پائلٹ سے بات کروائی اورجنرل افتخار نے پائلٹ کو احمد آباد انڈیا جانے
کی بجائے کراچی میں ہی لینڈ کرنے کا کہا ۔جنرل افتخار نے مشرف کو نئے آرمی
چیف ضیاالدین بٹ کی اپوائنٹمنٹ اوراُس کی جبری ریٹائرمنٹ کی خبر دی،
بریگیڈئیرندیم تاج او ر جنرل مشرف بھی اُس وقت پائلٹ کے ساتھ کاکپٹ میں
موجود تھے ۔ جنرل مشرف نے سات بج کر بتیس منٹ پرجنرل افتخارکو یہ آرڈر کیا
کہ ٹرپل ون بریگیڈجو مارشل لاء اوروزیراعظم ہاؤس کو کنٹرول کرتا ہے کے
کورکمانڈرراولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل محمود اورجنرل عزیز کو کہیں کہ ملک پر ٹیک
اوور کر لیا جائے اور کسی کو بھی ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے ۔لینڈنگ
ٹائم 6:50 تھااور طیارہ کو ہوا میں گھومتے ہوئے پچاس منٹ ہو گئے تھے اور
پائلٹ کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی آخرکار فوج کی مداخلت سے 7:40 منٹ پر
طیارہ کو کراچی ایئرپورٹ پربحفاظت لینڈکرلیا گیا۔جب طیارے نے لینڈ کیا تو
جہاز میں صرف 7 منٹ کا فیول باقی تھا ۔جنرل مشرف طیارے سے اُترے تو جنرل
عثمانی نے اُترتے ہی اُن کو یہ بتایا کہ مجھے اُپ کو گرفتار کرنے کا حکم
ملا ہے۔اس بات پر ایک لمحہ مشرف گھبرائے لیکن پھر اُنہوں نے مسکراتے ہوئے
ویلکم کیا ۔ملک میں ایک بار پھر مارشل لا ء لگ چکا تھا اور اب ملک کا تمام
کنٹرول فوج کے سپرد تھا ۔اورعوام مٹھایاں بانٹنے میں مصروف تھی ۔یہ وہ وجہ
تھی جس کی وجہ سے مشرف نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارشل لا ء لگایا
اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سپیشل کورٹ سے اُن کو سزائے موت ہوئی ہے۔میرا
ہر اُس شخص سے سوال ہے جو مارشل لا ء لگانے پر جنرل مشرف کو غدار غدار کے
القابات سے یاد کر رہا۔ کیا اِس ملک میں آئین کی خلاف ورزی صرف مشرف نے کی
ہے جو اتنی عبرت ناک سزا سنائی گئی ۔؟ کیا غداری صرف مارشل لا ء لگانا ہی
ہے ۔؟ کیا ڈان لیکس،ممبئی حملہ لیکس اور حاضر سروس آرمی چیف کا طیارہ اغوا
کرنے اور انڈیا لے جانے کا آئین ِ پاکستان میں کوئی قانون موجود نہیں ۔؟
بے دَم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے۔؟ تم اچھے مسیحا ہوشفا کیوں نہیں
دیتے۔؟
مٹ جائے کی مخلوق توانصاف کرو گے ۔؟ منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں
دیتے ۔؟
|