میں کب تلک امتحان کی چَکی میں پِسُوں گی؟
(ishrat iqbal warsi, mirpurkhas)
جس وقت میں نے ،،امتحانِ عشق نے رُسوا نہ کیا،، کو پوسٹ کیا تھا تب ایک ارادہ یہ بھی کیا تھا کہ اگلے پندرہ دِن تک کوئی کالم نہیں لکھوں گا۔ بلکہ وہ تمام کام جو کافی عرصہ سے اِلتوا کا شکار ہوتے چلےآرہے ہیں اُنہیں نمٹانے کی طرف اپنی بھرپور توجہ کو مرکوز رکھوں گا۔
لیکن آج ایک بہن کے طویل، ایس ایم ایس، نے مجبور کردیا کہ چند سطریں اپنی اِس بہن کے نام لکھوں شائد میرا یہ لکھنا بُہت سے لوگوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوجائے اور یقینًا میرا یہ کالم بُہت سے قارئین کے ذِہنوں میں الجھے ہوئے سوالوں کا جواب بھی اپنے اندر لئے ہوئے ہوگا اب یہ پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اِس میسج کو پڑھ کر سمجھ پاتا بھی ہے یا بقولِ شاعر ،،آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشہ دیکھے۔۔۔ دیدہ کُور کو کیا آئے نظر وہ کیا دیکھے ۔ کے مِصداق بے بہرہ ہی رِہتا ہے۔
میری اُس پیاری بہن نے اپنے میسج میں میرے مذکورہ کالم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے جِس کا خُلاصہ کُچھ یُوں ہے کہ،، عشرت بھائی میں کب تلک امتحان کی چَکی میں پِسُوں گی؟ وہ کہتی ہیں کہ میں نے بھی مُعاشی حالات سے تنگ ہوکر پاکستان کو چھوڑا لیکن انگلینڈ جا کر بھی کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکی نا موافق حالات کی وجہ سے مزید قرض بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ مجبور ہو کر واپس پاکستان چلی آئی لیکن یہاں بھی حالات نہیں بدلے بلکہ قرض کا آسیب ہر وقت ہمیں اپنے گھیرے میں لئے رِہتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مُحبت رَسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تو میرے وجود میں بھی خُون کی طرح موجزن رہتی ہے۔ اور اپنی ایک قادیانی سہیلی کو میں نے اِسی مُحبت کی وجہ سے خُود سے دور کیا تھا لیکن میرے حالات کیوں نہیں بدلتے ؟ دُعائیں تُو میں بھی رات دِن مانگتی ہوں پھر قرضوں کا یہ آسیب ہماری جان کیوں نہیں چُھوڑتا عشرت بھائی آخر کیا فرق ہے آپکے اور ہمارے مانگنے میں خُدارا مجھے بھی وہ فرق سمجھا دیجئے کہ اِس تکلیف کیساتھ جینا مشکل ہے بلکہ بُہت مشکل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تھا اُس طویل خَط کا خُلاصہ جسے میں نے اپنے طریقے سے پیش کیا ہے اگرچہ اِس خَط نے مجھے بُہت رنجیدہ کردِیا۔ حالانکہ میں اپنی اِس پیاری بہن سے کبھی نہیں ِملا لیکن ایک مِدت سے برقی خطوط اور میسج کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے اتنے ہی نذدیک ہیں جیسے ایک گھر میں رہنے والے بھائی بِہن ہوتے ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہُوں کہ میری یہ بہن بُہت بہادر ہے حالات سے لڑنا جانتی ہے ایک ایسی ہی بہن کینیڈا میں بھی رِہتی ہیں جنکی میں دِل سے عزت کرتا ہُوں اگر ہمارے مُلک کی تمام خَواتین اِن دونوں کی طرح بہادر ہوجائیں تو کبھی مَردودں کے اس مُعاشرے میں اِنکا استحصال کرنے کی کِسی کو جُرأت ہی نہ ہو۔
میری پیاری بِہن پہلے میں بھی آپ کی طرح سُوچا کرتا تھا ۔ میں نے بچپن سے لیکر جوانی تک اتنی آزمائیشیں دیکھی ہیں کہ ایک وقت میری زندگی میں ایسا بھی آیا کہ مجھے خُوشیوں سے ڈر مِحسوس ہونے لگا تھا کیوں کہ ہر ایک چھوٹی سی خُوشی کی مجھے اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی کہ خوشیوں کے مِلتے ہی ایک دھڑکا سا دِل میں لگا رِہتا کہ نجانے اِس مرتبہ مجھے کیا قیمت اَدا کرنی ہوگی۔
پھر جب شادی ہُوئی تب میں خُود کو دُنیا کا سب سے بڑا خُوش نصیب انسان سمجھنے لگا تھا لیکن صرف چار برس بعد مُوت نے اُسے مُجھ سے جُدا کردیا اور جب اُسے لحد میں اُتارا جارہا تھا تب مُجھے محسوس ہُوا کہ مجھ سے ذیادہ بدنصیب دُنیا میں کوئی اور نہیں ہُوگا ۔ پھر ایک ایسی بچی جسکی عُمر بھی صرف ایک برس تھی جسکی معصوم حرکتوں نے مجھے اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا اچانک ایک دِن میرے ہاتھوں میں دَم تُوڑ گئی اور اپنی ننھی سی بچی کو لحد میں اُتارتے ہوئے میری دُنیا پھر سے ویران ہوگئی۔
یہاں تک کہ میں جِسے پانے کی کوشش کرتا وہ مجھ سے دُور چلا جاتا۔ میں سائے کی تمنا کرتا تو زمانے کی دُھوپ مجھے خاکستر کر دیتی ۔ میں اگر اُن تمام تکالیف کو سمیٹنا شروع کروں جن سے میں نبرد آزما رہا ہُوں تو یہ خُود ایک کتاب کی صورت اِختیار کرجائے۔
میں ایک دِن اِن تمام تکالیف کی وجہ سے ایسا دلبرداشتہ ہُوا کہ پیدل شہر سے باہر نِکل آیا تنہا سڑک پر چلتے چلتے میری زبان سے یہ کلمات نکلنے لگے اے میرے مالک میرا اِمتحان کب خَتم ہوگا ،کب اِن مشکلوں سے میری جان چھوٹے گی ،میرا صبر خَتم ہوتا جارہا ہے، میری خَطاؤں کو معاف فرمادے ۔مُعاف فرمادے میرے پروردیگار مُجھے مُعاف فرمادے۔ نہ جانے کتنی دیر تک یہی گردان میری زُبان پر جاری رہی پھر مُجھے اِحساس ہُوا کہ میں شہر سے بُہت دُور چلا آیا ہُوں تب میں واپس پلٹ آیا۔
شہر میں داخل ہوتے ہُوئے میری نِگاہ ایک درویش پر پڑی جو سڑک کے کِنارے بیٹھے مُجھ ہی کو گھور رہے تھے ۔یہ درویش اکثر و بیشتر شہر کے داخلی راستوں پہ ایسے نظر آیا کرتے تھے جیسے شہر کے داخلی راستوں پر پہرہ دے رہے ہُوں اور اتنی سرعت سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پُہنچ جاتے جیسے وہ پیدل نہ ہُوں بلکہ کسی ہوائی گھوڑے پر سوار ہُوں جو اُنہیں ایک لمحے میں شہر کی ایک سِمت سے دوسری سِمت میں پُہنچا دیتا ہُو۔ ایک شخص نے مجھے بھی حلفیہ طُور پر بتایا کہ وہ موٹر بائیک پر کسی دوسرے شہر سے آرہا تھا کہ اُس نے اِنہی درویش کو شہر کے داخلی راستے پر گھومتے دیکھ کر سلام کیا اور جب 10 منٹ کی مُسافت طے کرنے کے بعد وہ اپنے علاقے میں پُہنچا تو یہی درویش پہلے ہی سے اُس علاقے میں موجود تھے مجھے دیکھ کر آنکھوں سے اِشارہ کیا گُویا تنبیہ کررہے ہُوں کہ اپنی زبان خَاموش رکھنا۔
اِنکی ایک خاص عادت یہ بھی تھی کہ سلام کے علاوہ کِسی سے کلام نہیں کیا کرتے تھے ۔ اُنکی آنکھوں میں کُچھ ایسی کشش تھی کہ میں نےسلام کرنے کے بعد اُنکے ہاتھوں کو بوسہ دینے کیلئے جونہی اپنے ہاتھوں میں تھاما۔ اُنکی آواز میرے کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔ کیا بکواس کر رہا تھا راستے بھر؟ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے اُنہیں بات کرتے دیکھا تھا مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا مگر وہ مجھ سے مُخاطب تھے اور یہ کوئی وہم نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ اُنہوں نے پھر وہی سوال دُہرایا کیا بک رَہا تھا ابھی تُو،، کہ تُجھ سے صبر نہیں ہوتا،، اور تُو تھک گیا اِمتحان دیتے دیتے یہی کہہ رہا تھا نا تُوابھی؟
مجھے اِس بات پر قطعی حیرت نہیں ہُوئی تھی کہ جو بات میں تنہائی میں کہہ رِہا تھا وہ اِس درویش نے کیسے جان لی کیونکہ مجھے اپنی زندگی میں بارہاہ اِس بات کا تجربہ ہو چُکا تھا کہ اللہ کے مقرب بندے وہ کُچھ بھی جان لیتے ہیں جو کِسی کے وہم و گُمان میں بھی نہیں ہُوتا اور کیوں نہ جانیں کہ یہ لوگ اللہ کے نور سے دِیکھتے ہیں اِنکی فراست کا مُقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ میں نے مُوقع غنیمت جانتے ہُوئے عرض کیا ۔۔ بابا مجھ میں واقعی اب سکت نہیں رہی کہ مزید غموں کا مُقابلہ کرسکوں۔ بابا میں تھک چُکا ہُوں ان تکلیفوں سے لڑتے لڑتے۔ آپ دُعا فرمادیں کہ اب یہ مشکلات کا دُور ختم ہوجائے اور میں بھی بقیہ زندگی سکون سے گُزار سکوں۔
وہ فرمانے لگے تُمہاری مِثال بھی اُس بے صبرے انسان کی طرح ہے جو اللہ کریم کی نعمتوں کا تُو شُکر ادا نہیں کرتا لیکن اگر ذرا سی تکلیف آجائے یامعمولی سا سر میں درد ہوجائے تُو اسکے اظہار کیلئے سر پہ سیاہ پٹی باندھنا ضروری سمجھتا ہے حالانکہ وہ کبھی نعمت مِلنے پر تحدیث نعمت کے طُور پر اپنے سر پر سبز یا سُرخ پٹی نہیں باندھتا۔۔ بس تُمہارا بھی وہی حال نظر آتا ہے خُدا کی قسم اگر تُم جان جاؤ کہ تُمہیں اِن تکالیف کا کیا انعام مِلنے والا ہے تُو تُم کبھی خُوشی کی تمنا نہ کرو ہمیشہ اِن تکالیف کی آرزو کرتے رَہو۔
لیکن بابا اِن مشکلوں پر صبر بھی تو اللہ کریم ہی عطا کرتا ہے نا! پھر مُجھے صبر کیوں نہیں آتا اور کیوں میری دُعائیں واپس پلٹ آتی ہیں ؟ میں نے بابا سے اِستفسار کیا بچّے بات وہی ہے کہ تُمہیں صبر کا مقام ہی نہیں معلوم اسلئے صبر کے بجائے شِکوہ کرتے رِہتے ہُو اور دُعا کوئی بھی رائیگاں نہیں جاتی بس جو انسان کے حق میں بہتر ہوتی ہے عطا کردی جاتی ہے لیکن تیرے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ جب تُو دُعا مانگتا ہے تُو پہلے ہی سوچ لیتا ہے کہ تیری یہ دُعا بھی قبولیت کی سند نہیں پاسکے گی۔ بیٹا جو نسبتیں تو پاچُکا ہے تُجھے اُنکی اہمیت کا بھی اندازہ نہیں ۔ بس جِس دِن یہ نااُمیدی تیرے مَن سے نکل جائے گی تیری کوئی بھی جائز دُعا رائیگاں نہیں جائے گی جس دِن تو اِن نِسبتوں کی قیمت کو جان جائے گا تُجھے اپنی دُعا کی اہمیت کا علم ہُوجائے گا اِتنا فرمانے کے بعد وہ درویش وَہاں سے اُٹھے اور ایک جانب کو چَل دئیے۔
بس میری بہن جِس دِن یہ بات میری سمجھ میں آگئی کہ اگرچہ میں بُہت گندہ ہُوں لیکن میری نسبت میرا تعلق تُو اچھوں کیساتھ ہے اور وہ رب عزوجل جُو مُجھ سے میری ماں سے بھی ہزار گُنا ذیادہ مُحبت فرمانے والا ہے مجھے کیوں محروم رکھے گا ۔پھر اُس کے بعد کوئی ناکامی میری زندگی میں نہیں آئی اور تبھی اِس روشنی کے چراغ کو میں نے آگے بڑھانا سیکھا اور رفتہ رفتہ چاروں جانب اُجالے بِکھرنے لگے اور آج میں اِسی یقین کی شمع کو آپکی جانب بھی اِس اُمید کیساتھ بڑھا رہا ہُوں کہ نا صرف آپ بھی بے یقینی کے اندھیروں سے نِکل کر یقین کامل کے اُجالوں میں آجائیں گی بلکہ دوسروں کو بھی اِس کامیابی کی راہ پر اُجالوں کا مسافر بنا دیں گی۔
اور یقین جانیئے جِس دِن یہ بات آپکی بھی سمجھ میں آجائے گی پھر کبھی کوئی ناکامی آپکی راہ میں دِیوار نہیں بنے گی۔
(کل رات یہ کالم لکھتے لکھتے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی بات ہے جو اُن درویش نے مُجھ سے کہی تھی اور وہ میں نہیں لکھ پارہا ہُوں تب میں نے مزید لکھنا بند کردِیا اور صبح فیکٹری پہنچنے کے بعد بھی کافی کوشش کرتا رہا کہ وہ بات مجھے یاد آجائے ۔،،لیکن بے سُود رَہیں سب تدبیریں ،،پھر ایک مُدت دراز کے بعد وہی مَرد قلندر اچانک میرے آفس میں اچانک داخل ہوئے۔ میں دست بوسی کے لئے آگے بڑھا مگر اُنہوں نے مجھے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنے دہن کو میرے کان کے قریب لا کر سرگوشی میں بُولے نسبتوں نے تِرایا ہے اور نسبتیں تِرائیں گی)
اور اِتنا کہہ کر جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس مُلاقات کا سہرا آپ کے سر ہے کہ آپ نے مُجھے میسج لکھا جسکے جواب کیلئے میں نے قلم سنبھالا مگر درمیان میں اٹک گیا جِسے سلجھانے کیلئے وہ آج پھر سالوں بعد تشریف لے آئے مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنے پیغام میں آپ کیلئے میسج چھوڑ گئے ہیں ایکبار پہلے میرے یقین کی نیّا کو تِرایا تھا اور شائد آج صرف آپکی وجہ سے تشریف لائے تھے۔ |