پاکستان سے بنگلہ دیش تک - پہلی قسط

مُکتی باہنی - آزادی کی فوج

”مُکتی باہنی“ بنگالی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اردو میں آزادی کی فوج کے ہیں۔

جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے انیس سو اکہتر میں شیخ مجیب نے پاکستان سے آزادی کے لیے جو جدوجہد شروع کی تو اس میں شامل لوگوں کو مُکتی باہنی کا نام دیا گیا جو ہندوستان میں مختلف کیمپوں سے انڈین فوج سے گوریلا لڑائی کی تربیت حاصل کر کے آتے اور مشرقی پاکستان میں آمدورفت کے ذرائع کو نقصان پہنچاتے یا خوف و حراس پھیلانے کے لیے مارکیٹوں میں بازاروں میں دھماکے کرتے، ان دنوں میں ایک کاروباری سلسلے میں وہاں تھا اور جو کچھ آنکھوں سے دیکھا اسے قلمبند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ،اللہ کریم سے اس دعا کے ساتھ کہ اس تاریخی سانحے میں مجھ سے کوئی غلط بیانی نہ ہو جائے۔

بہت سے قارئین یہ سوچ رہے ہوں گے کہ گڑے مردے اکھاڑنے کا کیا فائدہ خواہ مخواہ دل دُکھی ہو گا، مگر یہ بھی کسی دانشور کا ہی قول ہے کہ زندہ قومیں اپنے ماضی سے ہی سبق سیکھتی ہیں اور دوبارہ اُس غلطی کو نہیں دہراتیں جس سے پہلے نُقصان اٹھا یا ہو اور یہاں اس مضمون کو لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے۔کہ ہماری نئی نسل کو پتہ تو چلے کہ ہم نے کہاں کہاں ٹھو کر کھائی ہے ۔

یہ جولائی کا مہینہ تھا اور برسات ابھی تھوڑی تھوڑی شروع ہو ئی تھی ۔ مشرقی پاکستان (حالیہ بنگلہ دیش) تو بارشوں کے لیے مشہور ہے کہ برسات شروع ہو تو پندرہ بیس روز رُکنے کا نام نہیں لیتی، میں جب ڈھاکہ پہنچا آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی اپنا سامان ٹھکانے لگا کر سب سے پہلے اپنے ایک کزن سے جو کہ بحری فوج میں ملازم تھے اُن سے ملنے نرائن گنج جو ڈھاکہ سے بیس پچیس میل دور ہے بس کے ذریعے پہنچے تا کہ حالات کی تازہ صورت حال کا پتہ چل سکے کیونکہ کراچی سے روانہ ہوتے وقت دوستوں نے بہت خوفزدہ کر دیا تھا کہ وہاں مُکتی باہنی والے گھات لگا کر بیٹھے رہتے ہیں اور خاص کر غیر بنگالی اُن کا نشانہ بنتے ہیں ۔

میرے کزن جن کی ڈیوٹی ایک پٹرولنگ بوٹ پر تھی دعا سلام کے بعد مجھے اپنے ایک چھوٹے سے کیبن میں لے گئے اور بہت گبھرائے ہوئے انداز میں بولے، آپ ان حالات میں یہاں کیوں آ گئے۔؟ ہم تو یہاں اپنی ڈیوٹی کی مجبوری کی وجہ سے ہیں مگر آپ کو تو کوئی مجبوری نہیں ! آپ نے اپنی جاں خطرے میں کیوں ڈالی۔؟ان کی بات سن کر پہلے تو میں گھبرایا پھر خیال آیا کہ موت تو کہیں بھی آ سکتی ہے اس سے کیا ڈرنا اور یہ خیال آتے ہی دل میں ایک سکون کی لہر سی دوڑ گئی ۔ میں نے اپنے کزن سے جو مجھ سے ہمدردی کی وجہ سے ایسا کہہ رہا تھا پوچھا ،کیا حالات ہیں یہاں پرآپ کو کیا لگتا ہے اس شورش پر آپ لوگ قابو پا لیں گے۔؟انہوں نے بڑی بے زاری سے کہا ،آپ کنٹرول کی بات کرتے ہیں ہمیں یہاں ہر وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ا بھی جھاڑیوں میں چھپے بیٹھے یا ہمیں پٹر ولنگ کرتے وقت کسی چھوٹی سی کشتی سے مکتی باہنی کی کوئی گولی آئے گی اور ہمارے سر کو پھاڑتی ہوئی چلی جائے گی ،میں نے ایسے ہی اپنے کئی ساتھیوں کو تڑپتے ہوئے دیکھا ہے، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بے قا بو ہو کر چھلک پڑیں، آپ اللہ کے واسطے یہاں سے فوراً واپس چلے جائیں اور میری کچھ نشانیاں اپنے ساتھ لے جائیں کہ خدانخواستہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میری بیوی بچے میری ان نشانیوں میں مجھے محسوس کر سکیں، یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے گھڑی اتار کر میری طرف بڑھائی اور ایک ٹرانسسٹر ریڈیو ڈبڈباتی آنکھوں سے میرے حوالے کرتے ہوئے مجھے تاکید کی کہ آپ یہاں سے جاتے ہی اپنی واپسی کی سیٹ کنفرم کروائیں اور جتنی جلدی ہو سکے اپنوں میں واپس چلے جائیں کیونکہ یہاں تو نہ دوست کا پتہ چلتا ہے اور نہ دشمن کا نہ راہیں اپنی ہیں نہ رہبر، کوئی دوستی کے روپ میں دشمنی کرتا ہے اور کوئی پیٹھ پر وار کر کے بھاگ جاتا ہے، جس پر بھروسہ کرتے ہیں و ہی دھوکہ دیتا ہے ، اسی لیے آپ سے گزارش ہے اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں اور واپس چلے جائیں، ان کی یہ مایوس کن باتیں سُن کر ایک دفعہ تو دل میں آئی کہ ابھی کے ابھی ہوائی جہاز میں سوار ہو جاﺅں مگر تقدیر کے آگے کسی مرضی نہیں چلتی میرا جو رزق وہاں بکھرا ہوا تھا اسے جب تک کھا نہ لیتا کیسے واپس آ سکتا تھا ۔

یہ تو غنیمت رہی کہ میں کسی ہوٹل میں نہیں ٹھہرا تھا ، اسے حسن اتفاق کہیے یا میری خوش قسمتی کہ کراچی سے روانہ ہوئے تو ہوائی جہاز میں ایک صاحب جو میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے تھے ان سے اچھی دوستی ہو گئی ،وہ صاحب شیخوپورہ کے رہنے والے تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم رکن ہونے کے ناطے اپنے تبلیغی مشن پر بقول ان کے اپنے خرچ پر مشرقی پاکستان کے ٹور پر جا رہے تھے ،کزن سے ملاقات میں وہ بھی میرے ساتھ تھے ،اور ہم لوگوں کے لیے جماعت والوں نے ایک کمرہ اپنے دفتر کے ساتھ ہی مخصوص کر دیا تھا جس میں دو عدد چارپائی نما لکڑی کی چوکیاں جن پر بستر لگا دیئے گئے تھے، کھانے پینے کا انتظام بھی انہیں کی طرف سے تھا ، گو کہ میرا تعلق جماعت سے نہیں تھا مگر جو اُن کے رکن مجھے اپنے ساتھ لائے تھے اور جن کا نام رائے عبدالغفور تھا انہوں نے ضد کر کے ساتھ ٹھہرا لیا کہ یہاں کے حالات اچھے نہیں اور ہوٹل میں تو میں آپ کو کبھی بھی ٹھہرنے کی اجازت نہیں دوں گا وہ بھی معذرت کے ساتھ کہ عمر میں آپ سے بڑا ہوں اور سفر کے دوران آپ سے اتنی انسیت ہو گئی ہے کہ آپ کو سگے بھائی کی طرح سمجھنے لگا ہوں، اکثر دیکھا بھی گیا ہے کہ پردیس میں بیگانے بھی اپنے لگتے ہیں اور ہنگامی حالات میں تو یہ جذبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔کچھ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ میں شاید جماعت کی سپورٹ کر رہا ہوں ،مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ اللہ نہ کرے مجھ سے کوئی غلط بیانی ہو ،حالات اور واقعات جیسے جیسے میرے ساتھ پیش آئے عین ویسے ہی ان کو احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کروں گا جس کا جی چاہے اسے جس رنگ میں لے کوئی مضائقہ نہیں ۔ ، ویسے ایک کہاوت ہے کہ ایک ندی کے ایک کنارے پر ایک نمازی غسل کر رہا تھا جبکہ دوسرے کنارے پر ایک چور ،اب نمازی یہ سوچ رہا تھا کہ دوسرے کنارے والا بھی کوئی نمازی ہے جو غسل کر کے نماز کی تیاری کر رہا ہے جبکہ چور نمازی کو بھی اپنی طرح کا سمجھ رہا تھا، غرضیکہ ہر کوئی دوسرے کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے،تو میں عرض کر رہا تھا کہ میں نے واپسی کا جب ارادہ کیا تو رائے عبدالغفو ر صاحب نے جو میرے ہم سفر تھے مشورہ دیا کہ کچھ دن رک کر حالات کا جائزہ لیتے ہیں اگر کوئی گڑ بڑ ہوئی تو پھر ایک ساتھ ہی واپس چلیں گے،اُن کی بات میں ٹال نہ سکا کیونکہ پردیس اور ایسے سنگین حالات میں مجھے وہی اپنے لگے ۔ا ور پھر انہوں نے یہ کہہ کر میرا دل اور مضبوط کر دیا کہ بھائی مرنا ہوا تو ساتھ اور بچ گئے تو ساتھ ہی واپس جائیں گے۔ہم جہاں ٹھہرے ہوئے تھے اس جگہ کے ساتھ ہی ایک پاک فوج کا کیمپ تھا دوسری صبح ہم دونوں اس کیمپ میں گئے گیٹ پر روکا گیا ، مگر شلوار قمیض اور ہمارے اسلام علیکم کہنے کے انداز سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ ہم بھی انہیں کی طرح پردیسی ہیں حالانکہ تھا تو پاکستان ہی مگر ہم سب لوگوں کو لگ رہا تھا کہ یہ اب ہمارا دیس نہیں رہا ، جیسے کوئی چالاک بیوی کے پیار کے دھوکے میں آ کر ساری جائداد اس کے نام کر د ے ۔اور بیوی اپنا قبضہ جما کر پڑوسی سے دوستی کر لے۔ اور پھر دونوں مل کر اصل مالک کو مار پیٹ کر گھر سے بے دخل کر دیں !! اور یہی سب کچھ یہاں ہوا ، جیسا کہ ایوب خان نے کیا کہ ساری انڈسٹری وہاں لگوائی ،آدم جی جوٹ مل ،کہ جس میں بیس ہزار آدمی کام کرتے تھے ،امین جوٹ مل، پاکستان اسٹیل مل، ایسٹرن ریفائینری ماچس بنانے کے سب کارخانے مشرقی پاکستان میں لگوائے گئے ،اور اس میں وہ حق بجانب بھی تھے کہ جوٹ (پٹ سن) سب یہاں پیدا ہوتا لکڑی کے گھنے جنگلات یہاں تھے لیبر یہاں سستی تھی ۔ ہاں اگر ایوب خان زمانہ ساز ہوتا۔؟ تو کارخانے مغربی پاکستان میں لگتے جوٹ اور لکڑی مشرقی پاکستان سے جاتی لیبر بھی یہیں کی ہوتی تو ایک دوسرے کو ایک دوسرے سے غر ض رہتی ۔کوئی باپ جب اپنی سگی اولاد کو اپنا سب کچھ حوالے کر دیتا ہے تو بہت کم لوگ ہیں جو اپنے ماں باپ کا خیال رکھتے ہیں زیادہ تر تو باپ کو ڈیکوریشن پیس کی طرح ا یک کونے میں بٹھا دیتے ہیں۔ تو ہمارا حال بھی وہی تھا کہ اپنے دیس میں پردیسیوں کی طرح گھوم رہے تھے ۔خیر جب ہم لوگ کیمپ کے اندر گئے تو ایک پلاٹ میں کچھ فوجی کرسیوں پر بیٹھے تھے اور ایک قدرے چھوٹے قد ،کالے سے رنگ اور کسرتی بدن کا بیس بائیس سال کا بنگالی نوجوان جس کے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے ان فوجیوں نے اپنے سامنے کھڑا کر رکھا تھا شاید اس سے کچھ پوچھ گچھ ہو رہی تھی جو ہمیں دیکھ کر روک دی گئی، ہمیں دیکھ کر وہ لوگ اخلاقاً کھڑے ہو گئے ہمارے لیے کرسیاں منگائی گئیں، سلام دعا کے بعد ایک دوسرے سے تعارف ہوا، ان سب کا تعلق بھی پنجاب سے تھا ، جب اس نوجوان کے بارے میں دریافت کیا تو ایک فوجی جس کو سب میجر صاحب کہہ کر مخاطب کر رہے تھے، انہوں نے اپنا تعارف بھی میجر انور کہہ کر کرایا تھا۔ اونچے لمبے جوان چہرے پر مونچھیں جو ان کو بارعب بنا رہی تھیں انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ ”مُکتی باہنی“ ہے! ہم لوگ اس کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ جن کا ذکر پاکستان کے اخباروں میں پڑھتے تھے آج اُن میں سے ایک کو اپنے سامنے بندھا ہوا دیکھ رہے تھے،پوچھ گچھ کا سلسلہ پھر شروع ہوا میجر انور نے اُس کے قریب جا کا کر بڑے غصے سے پوچھا ”بتا اوئے تیرے باقی ساتھی کہاں ہیں“؟اور ساتھ ہی ایک زوردار طمانچہ اس منہ پر جڑ دیا ۔ طمانچہ اتنے زور کا تھا کہ وہ نوجوان لڑکھڑا گیا اور ساتھ ہی اس کی لنگی بھی بھیگنے لگی ،،ہم نے دیکھا کہ اس کا ڈر کے مارے پیشاب بہہ رہا ہے مگر وہ پھر بھی سنبھل کر کھڑا ہوگیا اور لڑکھڑاتی آواز میں تقریباً روتے ہوئے وہ ایک پاکستانی فلم شہید کا ترانہ گانے لگا جس کے بول بنگالی انداز میں کچھ یوں تھے ”رقص زنزیر فہن کر بھی کیا زاتا ہے“ (رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے) اُس کا یہ جذبہ دیکھ کر ایک عام سا آدمی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اس جذبے کے سامنے سب قوتیں مات ہیں،جو کوئی بھی اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے تیار ہو جائے وہ چاہے اچھے کام کے لیئے ہو یا برے کام کے لیے اس کے سامنے ٹھہرنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے،
اللہ سے دعا ہے ہمیں اچھے کاموں کے لیئے ایسا ہی جذبہ عطا فرمائے ۔آمین

اس کے بعد کیا ہوا یہ اگلی قسط میں ملاخطہ فرمائیں۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77171 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.