شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف پورے ہندوستان میں
احتجاجات ہورہے ہیں، حالانکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں دفعہ ۱۴۴ لگاکر
مظاہرے کرنے اور جلسے وجلوس نکالنے کے لئے حتی الامکان رکاوٹیں پیدا کررہی
ہیں۔ مگر نہ صرف مسلمان بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے حتی کہ ہندو حضرات
بھی اس نئے قانون کو ملک کے دستور اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے خلاف
مان کرہندوستانی دستور کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر آگئے ہیں۔ پورے ملک میں
جگہ جگہ ہر طبقہ کے لوگ اس نئے قانون کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ جس دن
سے یہ قانون راجیہ سبھا میں پاس ہوا ہے عام لوگوں میں بے چینی ہے، ملک میں
کاروبار تھم سا گیا ہے، تعلیمی ادارے بند کرادئے گئے ہیں اور جگہ جگہ
انٹرنیٹ کی خدمات بند کردی گئی ہیں۔ CAA کے خلاف آواز ملک کے باہر بھی بلند
ہونے لگی ہے، کوالالمپور (ملیشیا) میں مسلم ممالک کے سربراہ اجلاس کے دوران
ملیشیا کے وزیر اعظم محاضر محمد نے بھی ہندوستان کے اس نئے قانون کو سخت
تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پورے ملک کی طرح شہر سنبھل میں بھی کئی روز سے حالات کشیدہ ہیں، نئے قانون
پاس ہونے کے بعد سے علماء کرام کی سرپرستی میں متعدد احتجاجات اب تک سنبھل
میں ہوچکے ہیں جن میں CAA کے خلاف میمورنڈم بھی سنبھل کے ایس ڈی ایم وغیرہ
کو پیش کئے گئے۔ جمعیت علماء ہند کی طرف سے ۱۳ دسمبر بروز جمعہ کا پر امن
احتجاج بھی کامیاب رہا۔ ۱۸ دسمبر کے دو بڑے احتجاجات کے بعد ڈاکٹر شفیق
الرحمن برق کی سرپرستی میں ۱۹ دسمبر ۲۰۱۹ء کو منعقد ہونے والے سنبھل
میونسپل بورڈ کے میدان میں ایک بہت بڑے احتجاج کو ناکام بنانے کے لئے جب
پورے میدان میں رات ہی رات میں پانی کھڑا کروادیا گیا تو صبح کو لوگوں کے
جذبات بھڑک اٹھے اور توقع سے بہت زیادہ ہزاروں افراد کا مجمع سنبھل میونسپل
بورڈ کے میدان میں پانی کے باوجود جمع ہوگیا۔ پر امن احتجاج کے ختم ہونے کے
بعد لوگوں کے گھروں کی واپسی پر پولیس سے نوک جھوک ہونے پر حالات اس وقت
اچانک خراب ہوگئے جب پتھراؤ کے بعد ایک بس جلا دی گئی مگر بعد میں حالات
قابو میں رہے۔ اس کے بعد سنبھل میں انٹرنیٹ کی خدمات دوبارہ بند کردی گئیں
جو ابھی تک بحال نہیں ہوئیں۔ ۱۷ اور ۱۸ دسمبر کو بھی ۲۴ گھنٹے کے لئے
انٹرنیٹ کی خدمات بند کردی گئی تھیں۔ تقریباً دس روز سے تمام سرکاری اور
غیر سرکاری اسکول وکالج بند ہیں۔ ۲۰ دسمبر کو مسلسل تیسرے دن ہزاروں
نوجوانوں کا مجمع CAA کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے چندوسی چوراہے پر جب پہنچا
تو مذہبی یا سیاسی قائدین کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہوگئے اور
پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس چھوڑے، جس کے بعد بھگدر مچ گئی، کچھ
افراد نے پولیس پر پتھر بھی پھینک کر مارے جس کے جواب میں گولی چلی اور
سنبھل کے دو نوجوان (بلال اور شہروز) اﷲ کو پیارے ہوگئے، جن کو ۲۱ دسمبر کے
بعد آنے والی دیر رات میں پولیس کی سخت نگرانی میں دفن کردیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ
ان کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ سنبھل میں ۲۲ دسمبر کا دن خواتین
کے نام رہا اور ہزاروں خواتین نے سنبھل میں جگہ جگہ CAA اور NRC کے خلاف
اور گرفتار شدہ افراد کی رہائی کے لئے پر امن احتجاج کیا۔
ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والی او ر مہاتما گاندھی کے خوابوں کی
آماجگاہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘ کے طلبہ وطالبات نے پر امن طریقہ پر اس نئے
قانون کی مخالفت کی اور ہندوستانی دستور کے مطابق نہ صرف جامعہ ملیہ
اسلامیہ کے طلبہ وطالبات کو بلکہ ہر ہندوستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس
نوعیت کے قانون کے خلاف احتجاج کرے، مگر طاقت کے نشے میں چور بھارتیہ جنتا
پارٹی نے دہلی پولیس کے ذریعہ لائبیریری کے ریڈنگ روم میں تعلیم میں منہمک
نہتھے طلبہ وطالبات پر جو ظلم ڈھائے وہ قابل مذمت ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ
کے مسلم وغیر مسلم طلبہ وطالبات پر دہلی پولیس کی بربریت دیکھ کر نہ صرف
ہندوستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ میدان میں آگئے بلکہ پوری دنیا
کے طلبہ وطالبات جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مظلوم طلبہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
غرضیکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ وطالبات پر دہلی پولیس کے حملے کے بعد
CAA کے خلاف مظاہروں نے ایک ایسی شکل اختیار کرلی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی
بوکھلاہٹوں میں بے انتہا اضافہ ہوگیا اور ان کے نیتاؤں کی نیند حرام ہوگئی۔
چندرشیخر اور کنہیا کومار جیسے بھارت کے سپوتوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
طلبہ وطالبات کی تحریک میں شرکت کرکے ملک کی آزادی کی یاد تازہ کردی کہ کس
طرح ہندو مسلم نے مل کر انگریزوں کے چھکے چھڑائے تھے۔ شیخ الہند مولانا
محمود الحسن، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ،
مولانا محمد علی جوہر اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
نونہالوں کی اس تحریک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مدارس اسلامیہ کے طلبہ نے
بھی مختلف جگہوں پر احتجاجات کئے مگر وہ توقعات سے بہت کم رہے خواہ اس کے
اسباب کچھ بھی رہے ہوں۔ اب پورے ملک حتی کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ
وطالبات بھی جامعہ برادری کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا
کہ وہ شخص جو ہندوستانی مسلمانوں کی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا اب
اسے میڈیا کے روبرو صفائی دینے کے لئے آنا پڑا کہ اس نئے قانون کا
ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور جو لوگ اردو زبان، اردو
تہذیب اور اردو اخباروں کو ختم کرنے پر آمادہ ہیں، وہ ۱۹ دسمبر کے متعدد
اردو اخباروں میں حکومت کی طرف سے بڑے بڑے اعلانات شائع کراکر CAA کے خلاف
لوگوں کے غصہ کو کم کرنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ انہیں یہ معلوم
ہونا چاہئے کہ تین طلاق پر موجودہ حکومت نے مختلف حیلے اختیار کرکے ا ور
بعض سیاسی پارٹیوں پر دباؤ ڈال کر جب قانون بنایا تو مسلمانوں نے خاموشی
اختیار کرنے میں اپنے ملک اور قوم کی عافیت سمجھی حالانکہ تین طلاق پر
حکومت کا جابرانہ فیصلہ ہندوستانی دستور کے مطابق ملی مذہبی آزادی میں کھلی
مداخلت ہے۔ کشمیر سے متعلق ہندوستانی قوانین کی ہی دو اہم دفعات ۳۷۰ اور
۳۵A کو ختم کرکے اس کا مستقل ریاست کا درجہ بھی ختم کرکے جب اس پورے علاقہ
کو دہلی مرکز کے تابع بناکر دو حصوں جموں کشمیر اور لدّاخ میں تقسیم کردیا،
تب بھی بھائی چارہ کو باقی رکھنے کے لئے سیکولر لوگوں نے حکومت کے اس فیصلہ
پر سکوت اختیار کیا۔ ۵۰۰ سالہ پرانی بابری مسجد کی زمین پر جب مندر تعمیرکا
فیصلہ آیا تو انصاف پسند لوگوں پر بجلی سی گرگئی تھی کیونکہ اُن کو آج بھی
یہ یقین ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو گراکر نہیں کی گئی جیسا کہ
سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلہ میں اس کو تسلیم بھی کیا ہے۔ نیز مسلمان قرآن
وحدیث کی روشنی میں یہی سمجھتے ہیں کہ اﷲ کے گھر کو مندر بنانے کے لئے دینا
تو درکنار کسی شخص کی رہائش کے لئے بھی دینا اُن کے اختیار میں نہیں ہے،
مگر ملک کی حفاظت اور امن وامان اور بھائی چارہ قائم رکھنے کے لئے مسلمانوں
نے اپنے جذبات پر قابو رکھا اور پورے ملک میں کسی بھی جگہ احتجاجات نہیں
کئے۔ آخر ایسا کیوں کیا؟ کیا کسی شخص یا حکومت کا ہمیں خوف ہے؟ ہرگز نہیں،
بلکہ سیکولر مزاج کے حامل لوگوں نے حکومت کے ان اقدام پر صرف اور صرف ملک
اور قوم کو متحد رکھنے کے لئے کوئی احتجاج نہیں کیا۔
مگر جب موجودہ حکومت نے حد سے تجاوز کرکے ملک اور بھارت واسیوں کے مسائل کو
پس پشت ڈال کر پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان سے غیر قانونی طور پر
ہندوستان میں داخل ہوئے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کے لئے نیا قانون (CAA)
بنایا اور اس کے پیچھے ملک کو سیکولر ڈھانچے سے ہٹاکر ہندوراشٹر کی طرف لے
کر جانے کی مذموم کوشش کی تو لوگوں کا غصہ فطری طور پر سامنے آگیا۔ آپ بھی
ذرا سوچیں کہ یہ کونسی عقلمندی اور جمہوریت ہے کہ ملک کے باشندوں کو روزگار
کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے، ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو بچانے کے بجائے
اور ملک کی لڑکیوں کی حفاظت کرنے کے بجائے پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان
کے گھسپیٹیوں کے خاطر ملک کو آگ میں جھونک دیا جائے۔ حالانکہ ضرورت تھی کہ
’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے نعرہ کو عملی جامہ پہنایا جاتا۔ بجلی پانی
اور کپڑا مکان جیسے عوامی مسائل کو حل کیا جاتا۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ
تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے کم از کم گفتگو ہی کی جاتی۔ مسلم خواتین کے
ساتھ سچی ہمدردی کا نمونہ پیش کرکے ان کو روزگار مہیا کیا جاتا۔ ملک کو سٹے
بازاروں سے پاک کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اُن شراب خانوں کو بند کرنے کی کوشش
کی جاتی جہاں ہندوستانی قوانین کی دھجیاں اڑا کر صحت کے لیے انتہائی نقصان
دہ شراب تیار کی جاتی ہے۔ عیاشی کے اڈوں کو بند کرنے کے لیے فیصلے کیے جاتے۔
گنڈوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کیا جاتا۔ اُن لوگوں کے خلاف سخت کاروائی کی
جاتی جو چند پیسوں کے خاطر لوگوں کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ رشوت
خوری، دھوکہ دھڑی ، کھانے کی اشیاء حتی کہ دواؤں میں ملاوٹ، چوری، ڈکیتی
اور شراب نوشی جیسے مسائل پر توجہ دی جاتی۔ مگر موجودہ حکومت ہندو مسلم کے
درمیان نفرت پھیلانے والے مسائل میں ملک کے باشندوں کو الجھاکر ہندؤوں کا
ووٹ حاصل کرکے صرف اپنا اقتدار بچانا چاہتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آسام کے طرز پر پورے ملک میں بھی NRC نافذ
کرنا چاہتی ہے جیسا کہ وزیر داخلہ امت شاہ متعدد مرتبہ اعلان بھی کرچکے
ہیں۔ موجودہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ NRC کے لئے مطلوبہ دستاویز جمع
کرنا ہر شخص کے لئے آسان کام نہیں ہے جیساکہ آسام کی بے شمار مثالیں سامنے
ہیں کہ ملک کے بڑے عہدوں پر فائض اور فوج میں کام کرنے والوں کی اولادیں
بھی اپنے دستاویز مکمل نہ کرسکیں جس کی وجہ سے NRC سے خارج اور نتیجہ
دشواریاں ہی دشواریاں۔ اس لئے وہ دوسری طرف CAA کے ذریعہ مذہب کی بنیاد پر
مسلمانوں کے علاوہ دیگر لوگوں کو دستاویز مکمل نہ ہونے کے باوجود انہیں
ہندوستانی شہریت دے کر بھارت واسی بنانا چاہتی ہے اور مسلمانوں کو محروم
کرکے حراستی مراکز (Detention Centers) میں بند کرنا چاہتی ہے، اسی ایجنڈے
کے تحت حراستی مراکز کے قیام کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔
یہ نیا قانون (CAA) ہندوستانی دستور اور دنیا میں مشہور ہندوستان کی گنگا
جمنی تہذیب کے خلاف ہے اور اس کے بعد مستقبل میں پریشانیوں میں اضافہ ہی
ہوگا، اس لئے اس نئے قانون کی مخالفت کرنا ہم سب کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
اس نوعیت کے فیصلوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے مظاہرے یا
جلسے یا جلوس کرنا یا انتظامیہ کو میمورنڈم پیش کرنا ہندوستانی قوانین کے
خلاف نہیں بلکہ ہندوستانی آئین کے مطابق ہمیں اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے
کا مکمل حق حاصل ہے۔ اس نئے قانون کے پاس ہونے کے بعد سے پورے ہندوستان میں
جگہ جگہ اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور پرامن طریقہ پر یہ
سلسلہ جاری رہنا چاہئے کیونکہ اس وقت آواز بلند نہ کرنے پر ہماری قوم کو
بڑا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ ملی تنظیموں اور مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں
سے اس نازک موقع پر جو رہبری مطلوب تھی وہ یقینا ہمیں نہیں ملی، اس لئے میں
ملی تنظیموں اور مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں سے درخواست کرتا ہوں کہ CAA
اور NRC کی پرامن طریقہ پر مخالفت کرنا اشد ضروری ہے ورنہ ان دونوں قانون
کے بعد ایک طرف مسلمانوں کو بڑی پریشانیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے
گا وہیں دوسری طرف یکساں سول کوڈ جیسے قانون لاکر ہندوستانی دستور میں ملی
مذہبی آزادی پر قدغن لگادی جائے گی، پھر مدارس اسلامیہ کا وجود بھی خطرہ
میں پڑ جائے گا۔ ا س لئے کسی دباؤ میں نہ آکر امت مسلمہ کے نوجوانوں کی اس
نازک موقع پر صحیح رہنمائی فرمائی جائے۔ عام لوگوں سے درخواست ہے اس قانون
کے خلاف لڑائی جاری رکھیں لیکن گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ملک
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی سب کا ہے۔ اس ملک کی آزادی میں ہمارے
اکابرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور آج بھی ہم اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ملک
کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ نیز قرآن
وحدیث کی روشنی میں ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ حالات جیسے بھی آئیں ان کا
مقابلہ کیا جائے، اﷲ تعالیٰ پریشانیوں اور دشواریوں کے بعد آسانی کا معاملہ
فرماتا ہے۔ |