11دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ سے سٹیزن امینڈمنٹ ترمیمی بل
منظور ہوا جس کے مطابق2015 سے قبل پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان آنے
والے ہندو،پارسی،بودھ،جین،سکھ اور عیسائی غیر قانونی تارکین وطن کوشہرت دی
جائے گی لیکن مسلمان مہاجر بھارت کی شہریت حاصل کرنے کے اہل نہیں ہونگے ۔اس
بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعدہندوستان بھر میں احتجاج شروع ہوگئے ۔اس بل
کی وکلاء، صحافی ، ادباء ،مصنفین، اداکار اور دانشور یعنی ہر مکتب فکر سے
تعلق رکھنے والے افراد نے مخالفت کی کیونکہ یہ ہندوستان کی تاریخ کا واحد
بل ہے جس میں مذہبی بنیاد پر شہرت دی جائیگی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں اور
سول سوسائٹی کے افراد نے اس متنازعہ بل پر عمل درآمدروکنے کیلئے بھارتی
سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن سپریم کورٹ نے تمام درخواستیں مسترد کردیں۔ جس
کے بعدحزب اختلاف کی تمام جماعتوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اس احتجاج میں
شریک ہوگئے۔گزشتہ ہفتے ان مظاہروں میں اس وقت شدت آئی جب پولیس نے پرامن
احتجاج کرنے والے طلباء کی گرفتاریوں کیلئے یونیورسٹیوں پر دھاوا بول
کرطلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایااور کئی طلبہ کو گرفتاربھی کیا ۔اس کے بعد تو
بھارت کی کئی ریاستوں میں جیسے آگ لگ گئی ہو۔ مظاہرین کی بڑی تعدادسڑکوں پر
نکلی اور جلاوگھیراؤ کیا ۔مشتعل مظاہرین نے کاروں،بسوں کو آگ لگا دی
اورپولس چوکی کو بھی نظر آتش کر دیا ۔ مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کی جس کے
نتیجے میں کئی شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے ۔ حکومت نے کئی ریاستوں
بڑھتے فسادات کی پیش نظر انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کرکے دفعہ 144 نافذ
کردی ہے۔چند ایک ریاستوں کرفیو بھی لگا دیا گیا ہے۔مودی سرکارکے مسلم دشمن
عمل پر صرف ااندورن ملک ہی احتجاج اور تنقید سامنا نہیں بلکہ دوسرے ممالک
کے سربراہان اور ادارے بھی مسلم دشمن قانون سازی پرمودی سرکار پر کافی
تنقیدکررہے ہیں۔امریکہ کے مذہبی آزادی کے ادارے یو ایس کمیشن فار ریلیجیس
فریڈم (USCIRF)نے شہریت ترمیمی بل کی منظوری پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے
امریکی حکومت کو بھارتی وزیر داخلہ اور اہم قیادت پر پابندی کی سفارش کی
ہے۔ا نڈین میڈیا جو ہر وقت مودی کے گن گایا کرتا تھا وہ بھی مودی سرکار کی
مسلم دشمن قانون سازی پر کڑی تنقید کررہا ہے۔انڈین میڈیا ان احتجاجوں،جلسے
جلوسوں،ریلیوں اور دھرنوں خوب کوریج دے رہا ہے جس سے ان مظاہروں کی شدت میں
مزید اضافہ ہورہا ہے اور صورت حال کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔کئی تجزیہ
کار بھارت میں دوسری ایمرجنسی لگتی دیکھ رہے ہیں۔حالات اس قدرسنگین ہونے کے
باوجود بھارتی حکومت کسی صورت اس بل پر نظر ثانی کرنے پر تیار نہیں بلکہ جو
بھارتی اس بل پر اعتراض یا احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کر نے کی بجائے
انہیں غدار اور پاکستان کا ایجنٹ کہا جارہاہے جبکہ بھارتی وزیر سیاحت سی ٹی
روی نے بل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو نسل کشی کی دھمکی بھی دی ہے
لیکن حالات ہیں کہ دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں اور مظاہرین کی تعداد میں
اضافہ ہورہا ہے ۔احتجاج کرنے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتیں
اورنچلی ذات کے ہندوبھی شامل ہورہے ہیں اورمودی سرکارمظاہرین کو ڈرا دھمکا
کر یا سیدھی گولیاں مار کر بھی کنٹرول نہیں کرپارہی ۔مودی سرکار اس وقت
دنیا بھر میں ذلیل ہورہی ہے اپنے ملک میں بھی افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور
بین الاقوامی سطح پر بھی مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ایسی صورت
حال میں مودی سرکار کو ہمدردی کی بہت ضرورت محسوس ہورہی ہے لیکن ہمدردی
کہیں سے بھی نہیں مل رہی۔مودی سرکار ان حالات میں اپنے لوگوں اور بین
الاقوامی سطح پر ہمدردی اور توجہ حاصل کرنے کیلئے ایک بہت ہی خطرناک کھیل
کھیلنے جارہی ہے۔ مودی سرکار نے میڈیا اور عوام کی توجہ متنازعہ بل سے ہٹا
نے کیلئے بالاکوٹ جیسے کسی مس ایڈوانچر کا منصوبہ بنا لیا ہے۔اسی سلسلہ میں
بھارت نے لائن آف کنٹرول پر براہموس اوراسپائیک اینٹی ٹینک میزائل نصب
کردیے ہیں اور اشتعال انگیز کاروائیاں کی جارہی ہیں ۔جو یقیناخطے کے امن
کیلئے خطرہ ہے لیکن مودی سرکارکو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ہمدردی اور توجہ
حاصل کرنے کا یہ ان کاپرانا طریقہ ہے۔ اس سے قبل مودی سرکار نے بھارت میں
عام انتخابات سے پہلے بھی ایل او سی پر کشیدگی بڑھائی اور بالا کوٹ جیسامس
ایڈونچر کرکے میڈیاکی توجہ اور عوامی ہمدردی حاصل کر کے ووٹ حاصل کیے تھے۔
مودی سرکار متنازعہ بل سے پیدا نے والے اندرونی خلفشار، بدنامی کی خفت
مٹانے، عوامی ہمدردی اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ایک بار پھرخطے کے
امن داو پر لگا رہی ہے ۔جس پر دنیا کو توجہ دینی چاہیے اگربھارت اشتعال
انگیزیوں سے نا رُکا اور حالات مزید خراب ہوئے تو پوری دنیا اس سے متاثر
ہوگی۔ |