پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور اب NRCکے
نام پر پورے ہندستان میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو اذیت میں مبتلا
کرنا یہیں تھی مودی سرکار کی پالیسی شروع دن سے مگر آہستہ آہستہ ۔ 1980ء
میں اندرا گاندھی حکومت نے سکھوں کے خلاف ایک بل پاس کرا کر سکھوں کے مختلف
علاقوں میں آپریشنز شروع کردیئے ، جس کے پاداش میں 1984ء کو اندرا گاندھی
کے دو سکھ محافظوں نے ہی اندرا گاندھی کا کام تمام کیا اور آج ایک مرتبہ
دوبارہ ہندوستان سرکار نے اقلیتوں پر وار کردیا ، بلکہ آج کا وار اس وار سے
بھی زیادہ خطرناک ہے جو 80کی دہائی میں کانگرسی سرکار نے شروع کیا تھا بس
فرق یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان خود کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری چیمپیئن
ہونے کا دعویٰ گیر نہیں تھا اور آج مودی سرکار ہندوستان کو دنیا کی سب سے
بڑی جمہوریت قرار دے رہی ہیں ۔
سب سے پہلے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ NRCکیا ہے اور ظاہری طور
پر ہندوستان کی مودی سرکار کی اس پر پالیسی کیا ہے؟ ہندوستان میں غیر
قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کے لیے شہریوں کا نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز
یعنی NRCکا عمل پورے ملک میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور لوک سبھا میں
بل بھی منظور کرایا گیا ۔ ابتداء میںNRC کا عمل صرف آسام میں شروع کیا گیا
تھا۔ چار سال بعد اب پورے ہندوستان میں شروع کرنے جارہی ہے ہندستان کی مودی
حکومت ۔ پورے ہندوستان میں اعلان کے بعد بنگال سمیت کئی ریاستوں کے اقلیتوں
بالخصوص مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا ہے۔NRCکے مراحل سے ہر
ہندوستانی کو گزرنا پڑے گا ایسا کہنا ہے ہندوستانی حکومت کا۔ جس کے پاس
1971ء سے پہلے کا ریکارڈ ہوگا وہی ہندوستانی قرار دیا جائے گا۔ جو فیل ہوگا
وہ اگلے مرحلے میں اپنے مذہب کے بنیاد پر نئی شہریت حاصل کرسکے گا۔ کچھ
زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کے علاواہ تمام ان لوگوں کو جو NRCٹیسٹ
میں ناکام ہوئے تھے انہیں ہی دوبارہ شہریت ملے گی اور مسلمان پناہ گزین
کیمپوں میں رہیں گے۔۔
شمال مشرقی ریاست آسام بنگلہ دیش سے متصل ریاست ہے۔ ہندوستانی وزیر داخلہ
امیت شا کے مطابق ریاست آسام میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد گذشتہ ایک
صدی میں بڑی تعداد میں بنگالی نژاد باشندے آ کر آباد ہوئے ہیں۔ ان میں
تقریباً ستر لاکھ بنگالی نژاد مسلم اور چالیس لاکھ دیگر مذاہب سے تعلق
رکھتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ مینمار سے آئے روہنگائی مسلمانوں کی تعداد بھی دن
بہ دن بڑتھی جارہی ہیں اس لیے نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز یعنی NRC ضروری ہے۔
ہندستان کے شمال مشرقی ریاست آسام میں مسلمانوں کی آبادی 43 فیصد سے زیادہ
ہے۔ آر ایس ایس، بی جے پی اور آسام کی کئی علاقائی انتہاء پسند جماعتیں
کئیدھائیوں سے یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ ریاست میں ایک کروڑ سے زیادہ
بنگلہ دیشی مسلم غیر قانونی طور پر آ کر آباد ہوگئے ہیں۔آسام میں غیر ملکی
تارکین وطن کے سوال پر بنگالی بولنے والے کے ساتھ دیگر مسلمانوں کے خلاف
کئی بار خونریز فسادات ہوچکے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف علاقائی
ہندو انتہاء پسند جماعتوں اور ریاست کے تشدد پسند ہندو طلبہ تنظیموں کی ایک
طویل اور پر تشدد تحریک کے بعد مرکز، ریاست اور انتہاء پسند ہندو جماعتوں و
طلبہ تنظیموں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا گیا جس کے تحت آسام میں 24 مارچ
1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آنے والے تمام باشندوں کو غیرملکی قرار دیا جائے
گا۔
ظاہری طور پر ہندستانی حکومت کا اعلان ہے کہ نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز یعنی
NRC تمام ہندستانیوں کے لیے ہیں مگر در حقیقت اس کا اصل ہدف مسلمان ہی ہیں۔
جیسے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے مودی سرکار نے وہاں کے مسلمانوں پر
ایک نہ ختم ہونے والے مظالم ڈھا نے شروع کر رکھے ہیں ، تقرباً 140دن سے
وہاں کرفیوں لگی ہوئی ہے ، کشمیر اس وقت دنیا سے کٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ اسی
طرح اب پورے ہندوستان کے مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین تنگ کی جارہی ہیں۔
ہندستان کے پانچویں صدر فخرالدین علی احمد جن کا آبائی تعلق آسام سے تھا
اور خود 1905ء کو دہلی میں پیدا ء ہوئے تھے ، وہ 24اگست1974ء سے
لیکر11فروری1977ء تک ہندوستان کے صدر رہ چکے ہیں اور اس کے علاوا وہ آسام
کے گورنر بھی رہ چکے ہے آج ان کے بیٹے اور پوتے NRCٹیسٹ میں ناکام ہوکر
اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں والی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح کارگل جنگ
میں ہیرو کا لقب پانے والے ہندوستان آرمی کا مسلمان سپاہی محمد ثناء اﷲ ،
جو تیس سال تک اپنے ملک کی سرحدوں کی تحفظ کرتا رہا، جس کو 2014ء میں
صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا ، حیران کن بات یہ ہے کہ اس سال مئی کے
مہینے میں اس کو غیر ملکی قرار دیکر پابند سلاسل کر دیا گیا ۔ یہ ہے وہ
وجوہات جس کی وجہ سے ہندوستان کے دیگر اقلیتوں سے زیادہ مسلمان پریشان ہے
کہ وہ کس طرح خود کو ہندوستانی ثابت کریں گے۔ ہندوستان کے سابق صدر کی
اولاد اور ایک صدارتی ایوارڈ یافتہ ریٹائرڈ فوجی خود کو ہندوستانی ثابت
نہیں کرسکے۔ تو اس بات سے یہیں ظاہر ہوتا ہے کہ گجرات کے قصائی مودی مسلم
دشمنی کھل کر سامنے آنے لگی ہیں۔
جو لوگ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ محمد اقبال کے دو قومی نظریہ
کے خلاف تھے آج وہ چیخ چیخ کر اپنے غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہونگے ،اگر وہ
خود نہیں تو ان اوالادیں چیخ رہی ہوگی۔ موجودہ ہندستان کی بی جی پی حکومت
نے جس طرح مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف محاذ در محاز کھول رکھے ہیں
تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور یہیں وہ دن تھے جس کے لیے دو قومی
نظریہ کی بنیاد رکھی گئی تھی ، تاکہ آگے جاکر یہ جنونی ہندو مسلمانوں کو
اذیت میں نہ ڈالے۔’’ مودی کی حرکتیں دلیل ہے دوقومی نظریہ کی‘‘ اور خاص کر
ان لوگوں کے لیے جو آج بھی یہیں کہتے ہیں کہ کاش پاکستان اور ہندوستان ایک
ہوتا، سچن و وسیم ایک ٹیم سے کھیلتے۔۔۔
اﷲ تعالیٰ کشمیر و ہندوستان کے مسلمانوں سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں پر
اپنا رحم و کرم فرمائے(آمین)
|