کافی دنوں سے لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جب بھی قلم
اُٹھاتا ہوں دل اور دماغ سوال کرتے ہیں کہ کس کس زیادتی اور کس کس ظلم کے
بارے میں لکھو گے ۔ ہر روز پاکستان میں کوئی ایسا واقع رونما ہو رہا ہے کہ
یہاں بسنے والی عام عوام پر ترس آتا ہے اس لیے قلم کو سائیڈ پر رکھ کر میں
بھی زندہ بتوں کے ہجوم کا حصہ بن جاتا ہوں ۔کیونکہ ان حالات میں لکھنے
اورخصوصی طور پر سچ لکھنے کی ہمت میرے جیسا ضعیف ا لعقل آدمی کے بس کی بات
نہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تمام اداوں کا حکومت کے اختیار
میں نہ ہونا ہے اس لیے لکھوں تو کیا اور کس کے بارے میں لکھوں، کالے کوٹ
والے قانون کے رکھوالوں کی پنجاب کے سب سے بڑے دل کے ہسپتال پر حملے کی
دہشت گردی کے بارے میں لکھوں کہ دو اشخاص کی زاتی لڑائی کی وجہ سے انھوں نے
وہ کیا جو با شعور قومیں جنگ کے دوران بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں
کرتیں اور دل کے مریضوں کے ہسپتال کا وہ حشر کیا کہ اُس کو دیکھنے کے بعد
خود کو انسان کہتے ہوئے شرم آ گئی یا حکومت کی پنجاب کی نا اہلی کے بارے
میں لکھوں کہ 2000 افراد 7 کلومیٹر کا پنجاب کے دارا لحکومت کی مین
شاہراہوں پر پیدل سفر کر کے ہسپتال پر حملہ کرتے ہیں اور ہماری پولیس ایکٹو
نہیں ہوتی اور وہ والا حادثہ رونما ہو جاتا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں
بدنما دھبہ بنا رہے گا اور جس وقت بھی اس سانحہ کو یاد کریں گے کالے کوٹ کا
وقار تار تار ہوتا رہے گا ۔
دوسری طرف جب ملک کی سب سے اعلی عدالت ایک سابقہ امر پرویز مشرف کے خلاف
فیصلہ سناتی ہے تو فوج جیسا معتمد علیہ ادارہ اُس فیصلے کے سامنے کھڑا ہو
جاتا ہے ، فیصلے کا صیح یا غلط ہونا ایک الگ بحث ہے ایک طرف ملک کے دو
ستونوں کا آمنے سامنے آ جانا ملک کی بقاء کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور دوسری
طرف ملک چلانے والے لوگوں کی قابلیت کا اندازہ بھی ہو گیا ۔
یہ وہی پرویز مشرف جو اپنی ہی عوام سے کہتے تھے میں تم کو وہاں سے ماروں گا
کہ تم کو پتہ بھی نہیں چلے گا یہ وہی پرویز مشرف ہیں جنھوں نے لال مسجد پر
حملہ کروایا تھا ،کل جب میں اُن کا ہسپتال سے دیا گیا بیان سُن رہا تھا تو
سوچ رہا تھا کہ وقت بہت ظالم ہوتا ہے اقتدار کے نشے میں کیے ہوئے ظلم آپ کا
پیچھا نہیں چھوڑتے آپ کو اُن کا حساب دینا پڑتا ہے ۔اُس کے لیے چاہے آپ
نواز شریف کو دیکھ لیں یا آصف
زرداری کو، آپ مشرف کو دیکھ لیں یا ضیا الحق کو، اقتدار میں کیے ھوئے ظلم
کا حساب دنیا میں ہی دینا پڑتا ہے ۔
اس ساری غیر یقینی صورتحال میں حکومت وقت بُرے طریقے سے ناکام نظر آ رہی ہے
عمران خان جن کو مسلم امہ کا بہت درد ہے سعودی حکومت کے دباؤ میں آ کر
ملائیشیا جا نے کا منصوبہ منسوخ کر دیتے ہیں اور اسلام فوبیا جس کے بارے
میں خان صاحب نے یو این او میں بہت لمبی تقریر کیا اور اُس کی آگاہی کے لیے
بنائے جانے والا چینل بھی التواع کا شکار ھو گیا ۔ خان صاحب اگر ایسے ہی ہر
بیان پر یو ٹرن لیتے رہے تو خان صاحب کا مستقبل بھی مشرف نواز اور زرداری
سے مختلف نہیں ھو گا
|