(پروفیسر مظہر)
ہم تو سمجھے تھے کہ اسلام کی تجربہ گاہ پر رَبّ ِ لَم یَزل کی نعمتوں کی
بارش ہوگی، اُمیدوں کے پھول کھلیں گے، آشاؤں کی کھیتیاں لہلہائیں گی اور
صحنِ چمن میں بادِ شمیم ونسیم کے جھونکوں سے فضائیں معطر ہو جائیں گی لیکن
قائد کی جیب کے کھوٹے سکوں نے قائد کا یہ احسان صرف تئیس سال بعد ہی اتار
دیا اور 56 فیصدمشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ہمیں اِس سے کیا غرض کہ
سقوطِ ڈھاکہ پر قائد کی روح کتنی تڑپی ہوگی، اقبال کا خواب کیونکر چکناچور
ہوا۔ نسلِ نَو تو اِس سانحۂ عظیم سے بے خبر لیکن جنہوں نے سقوطِ ڈھاکہ اپنی
آنکھوں کے سامنے دیکھا، اُن کے زخم ہر یومِ قائد پر تازہ ہو جاتے ہیں۔ جب
ہر سال قوم لہک لہک کریومِ قائد پر ’’اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘
گاتی ہے تو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری عظمتوں کے تمغے نوچنے کا منظر
آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اتحاد، ایمان اور تنظیم
کی جگہ روٹی، کپڑا اور مکان نے لے لی۔ یہ وہ پاکستان تھا جس کی بنیاد
ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی۔ اِسی لیے اُنہیں قائدِ عوام کہا جانے لگا۔ بھٹو
نے آتے ہی سوشلزم کا نعرہ لگاتے ہوئے سب کچھ قومیا لیا جسے ہم آج تک بھگت
رہے ہیں۔ ۔۔۔۔ چالیس سال بعد ہمیں ادراک ہوا کہ بھٹو نے پاکستان تشکیل تو
دے دیا لیکن تکمیل ابھی باقی ہے اور اُس تکمیل کے لیے ’’سونامی‘‘ نامی
طوفانِ بلاخیز کی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ’’نیاپاکستان‘‘
تکمیلی مراحل میں ہے۔ فی الحال تو نئے پاکستان کی بنیاد ہی ٹیڑھی ہے، آگے
آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔
ہم تو سمجھے تھے کہ گھٹنوں کے بَل رینگتی جمہوریت بلوغت کو پہنچ چکی لیکن
نئے پاکستان کے بانیوں نے اُمید کا ہر روزن بند کر دیا اور پکڑ دھکڑ کا
کُہنہ موسم پھر لوٹ آیا۔ ابتداء میں تو ہم یہ سمجھ کر خوش تھے کہ کرپشن کے
سارے مگرمچھ اپنے انجام کو پہنچیں گے لیکن جلد ہی عیاں ہو گیاکہ ’’نہیں
چھوڑوں گا‘‘ کا نعرہ صرف اپوزیشن کے لیے تھا، اپنوں کے لیے نہیں۔ کرپشن کے
سارے مگرمچھ کپتان کے دائیں بائیں اور احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی جیسے
جیل میں۔ رانا ثناء اﷲ چھ ماہ کی ’’قیدِ بیگناہی‘‘بھگت کر ضمانت پر رہا
ہوئے تو حکومتی حلقوں میں نوحہ خوانی شروع ہو گئی۔ شہریارآفریدی جس کا تکیہ
کلام ’’اﷲ کو جان دینی ہے، جھوٹے پر خُدا کی لعنت‘‘ اب پریس کانفرنس کرکے
اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف لیکن ’’عذرِ گناہ بَد تر از
گناہ‘‘۔ اب نیب، اے این ایف اور ایف آئی اے مستعد کہ رانا ثناء اﷲ کی کمی
کیسے پوری کی جائے۔ نون لیگ کے رَہنماء رانا تنویر، سردار ایازصادق، خواجہ
آصف، جاوید لطیف، مریم اورنگزیب، عظمیٰ بخاری اور خرم دستگیر جیسے کئی نام
اِن اداروں کی ہِٹ لسٹ پر۔سیاست ذاتی مخاصمت میں ڈھل چکی، درسِ بیداری کے
علم برداروں نے قوم کا مزاج ہی بدل ڈالا۔ بے شرم، بے حیا، جھوٹے، لعنتی،
چور، ڈاکو اور لُٹیرے جیسے الفاظ سیاسی لغت کا جزوِ لا ینفک۔ جنگل کا قانون
رائج جہاں سب کچھ جائز ۔
ہم تو سمجھے تھے کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے لیکن حقیقت یہی کہ اِس
کادامن مجبورں مقہورو ں کے لیے کبھی وا نہیں ہوتا۔ اِس کی کوکھ سے صرف
کرپشن کے مگرمچھ ہی جنم لیتے ہیں اور اِسی کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔ وجہ
صرف قحط الرجال ۔ بدترین آمریت میں بھی حکمرانوں کا یہ چلن نہیں دیکھا ۔
لاء اینڈ آرڈر کی یہ صورتِ حال کہ سانحہ ساہیوال میں سرِعام معصوموں کو
شہید کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سانحہ پی آئی سی نے
طالبان نامی دہشت گردوں کی یاد تازہ کر دی۔ بقراط نے کہا ’’قدرت نے دماغ کو
دل کا امام بنایا ہے، اِس لیے جذبات کو ہر حالت میں عقل کے تابع رکھنا لازم
ہے‘‘ لیکن سانحہ پی آئی سی میں صرف جذبات ہی جذبات، عقل کا وجود تک نہیں۔
کالے کوٹوں کے وحشتوں بھرے کالے کرتوت دیکھ کر سر شرم سے جھک گئے۔ ایسے
ہولناک مناظر کہ چنگیزیت بھی شرما جائے۔ عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی نے
کالے کوٹوں کا مزاج ہی بدل ڈالا۔ گالیاں بکتے ،عدالتوں کے دروازے توڑتے،
ججز کو دھمکیاں دیتے اور سائلین کی پٹائی کرتے وکیلوں سے بھلا انصاف کی
توقع کیوں کر۔ اب بھی عدالتوں کی تالا بندی جاری۔ وکلاء ہڑتال پر اور
مطالبہ یہ کہ سانحہ پی آئی سی کے ذمہ داروں کو رہا کیا جائے۔
ہم تو سمجھے تھے کہ عدل بنا جمہور نہیں لیکن جب عدلیہ نے عادلانہ فیصلے
شروع کیے تو شورِقیامت اُٹھا۔ عدلیہ کے فیصلوں پر اعتراض کرنے والوں میں
حکمران صفِ اوّل میں۔ پاک فوج ہمارے لیے انتہائی محترم ۔ یہ ہمارے ہی بچے
ہیں جو عظمتِ وطن پر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ سوال مگر یہ کہ ایک شخص
جس کی آئین شکنی روزِ روشن کی طرح عیاں، اُس کا فیصلہ آنے پر پاک فوج میں
بے چینی کیوں؟۔ مانا کہ وہ شخص چیف آف آرمی سٹاف اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف
کمیٹی کا چیئرمین رہ چکا لیکن اب وہ ریٹائر ہو کر اپنی سیاسی جماعت تشکیل
دے چکا۔ اُسے 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی لگانے کے جرم میں سپریم کورٹ آئین
شکن قرار دے چکی۔ پھر اُس کے خلاف فیصلہ آنے پر اتنی بے قراری کیوں؟۔
پرویزمشرف کو 5 بار سزائے موت کا حکم سنانے والے تین رکنی بنچ کے سربراہ
جسٹس وقاراحمد سیٹھ کا یہ فیصلہ کہ مجرم اگر مر جائے تو اُس کی لاش کو تین
دنوں تک ڈی چوک اسلام آباد میں لٹکایا جائے، بالکل غلط جس کی بھرپور مذمت
بھی سامنے آئی لیکن تاریخ میں ایسی مثالیں موجود۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے
والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک کیس میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ
برطانیہ کے جنرل اولیور کرامویل نے برطانیہ میں مارشل لاء لگایا۔ اُس کے
اقتدار کے خاتمے کے بعد اُس پر غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ ہوا۔ جنرل
کرامویل طبعی موت مر چکا تھا پھر بھی اُس کی لاش کو قبر سے نکال کر علامتی
ٹرائل کیا گیا اور پھانسی پر لٹکایا گیا۔ فرانس کے شاہ لوئی کا سر قلم کرکے
پیرس کی گلیوں میں فُٹ بال کھیلا گیا۔ ایسی اور کئی مثالیں بھی موجود جن
میں ڈکٹیٹروں کو سزائے موت سنائی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ پرویزمشرف کی سزا کا فیصلہ عجلت میں سنایا گیا اور ملزم
کوسُنے بغیر اس کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی۔ عرض ہے کہ 17
دسمبر 2013ء کو سیکرٹری قانون کی درخواست پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت
سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت قائم کی ۔ 6 سال تک مقدمہ چلا، 125 پیشیاں
ہوئیں، پرویزمشرف کو بار بار عدالت میں پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانے کے
لیے کہا گیا، حتیٰ کہ ویڈیولنک پر بیان ریکارڈ کروانے کی سہولت بھی دی گئی
لیکن وہ انکاری ہی رہے۔ پھر یہ فیصلہ اُجلت میں کیسے ہوا؟۔ تاریخ میں اُجلت
میں کیے گئے فیصلوں کی مثالیں بھی موجود۔ مالی کے ڈکٹیٹر جنرل موسیٰ کو
منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے جرم میں محض تین ماہ میں ٹرائل مکمل کرکے
سزائے موت سنائی گئی۔ رومانیہ کے ڈکٹیٹر نکولی چاؤ شسکو کو مختصر ٹرائل کے
بعد سزائے موت دے دی گئی۔ چاؤ کے ڈکٹیٹر حسینی ہیبرے کو بھی اُس کی عدم
موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی۔ مثالیں تو اور بھی موجود لیکن کالم کا
دامن تنگ۔
ناقابلِ تردیدحقیقت یہ کہ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگا اُسے عدلیہ نے
ہی نظریۂ ضرورت کے تحت تحفظ فراہم کیا۔ پرویزمشرف کو بھی اِسی نظریۂ ضرورت
کے تحت عدلیہ نے ہی تین سالوں کے لیے حقِ حکمرانی بخشا۔ اب اگر عدلیہ نظریۂ
ضرورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی تگ ودَو میں ہے تو اُس کی تحسین
کی جانی چاہیے یا مذمت؟۔ حکومتی حلقوں کی بے چینی نا قابلِ فہم کہ اِس
ٹرائل میں استغاثہ خود حکومت تھی۔ اب وزیرِاعظم کے گرد گھیرا ڈالنے والے
پرویزمشرف کے پرانے ساتھی ہی اِس سزا پر شور مچا رہے ہیں۔ ناصر کاظمی نے
کہا
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اُٹھانے والے کیا ہوئے
لاریب عمران خاں کے گرد گھیرا تنگ کرنے والے یہ مشرف کے ساتھی زمیں کا بوجھ
ہیں۔ کپتان اِن سے جتنی جلدی چھٹکارا حاصل کر لے، اُتنا ہی اُس کے حق میں
بہتر ہے۔ یہ ڈال ڈال، پات پات گھومنے والے پہلے کبھی کسی کے ہوئے، نہ اب
ہوں گے۔ کل کلاں اگر خاں صاحب کی حکومت کمزور ہوئی تو
سب سے پہلے پارٹی کو خیرآباد کہنے والے یہی لوگ ہوں گے۔ یہ بجا کہ خاں صاحب
نے بھی ’’نظریٔہ ضرورت‘‘ ہی کے تحت اِن لوگوں کی ہمراہی قبول کی لیکن اب وہ
وزارتِ عظمیٰ تک پہنچ چکے، اُنہیں کنٹینر سے اُتر کر ملک وقوم کے بارے میں
سوچنا ہوگا۔
|