سیاسی نظریہ کی مثال بیج کی سی ہے کہ وہ پیڑ پرتو نظر
نہیں آتا مگر پھل میں موجود ہوتا ہے۔جمہوریت کے کڑوے کسیلے پھلوں کو دیکھ
کر اس کے تخم کی خصلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس فاسد نظام سیاست کے
پھل فی الحال پوری دنیا نوش فرمارہی ہے ۔ کہیں پر انتخاب کے بعد مودی
جیسےمہان گیانی برسرِ اقتدار آجاتے ہیں کہ جنہیں خود بھی نہیں معلوم ہوتا
کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے رام لیلا میدان میں بھی وہ دھڑلے سے
ارشاد فرما تے ہیں کہ این سی آر پر کبھی بات ہی نہیں ہوئی اور ہندوستان کے
اندر کوئی عقوبت خانہ موجود نہیں ہے حالانکہ ایوان سے لے کر میدان تک ان کا
دست راست امیت شاہ سی اے اے اور این آر سی کا تعلق بتاتا بھرتا رہا ہے ۔
صدر جمہوریہ نے بھی اپنے خطاب میں اس کا ذکر فرمادیا۔ ان کی مرکزی حکومت نے
عقوبت خانہ کے کئی احکامات جاری فرمادئیے اور ان پر عملدرآمد بھی ہوگیا۔
ہندوستان کے علاوہ امریکہ جیسی عظیم جمہوریت میں بھی ٹرمپ جیسے عظیم دانشور
کو صدارت تھما دی جاتی ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ اگر اس پر کارروائی ہوئی تو
ملک دیوالیہ ہوجائے گا ۔۔ ہندوستان اور امریکہ جیسے جمہوری ممالک میں تو
مختلف نظریات کی حامل کئی سیاسی جماعتیں اور رہنما ہیں ۔ ایک زبردست مہم کے
بعد انتخابات ہوتے ہیں اس کے باوجود ایک سے بڑھ کر ایک احمق اقتدار پر فائز
ہوجاتا ہے۔
جمہوری تماشے رائے دہندگان کبھی کبھار اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ وہ فلمی
پردے پر اداکاری کرنے والے ابھی نیتا کو ہی اپنا نیتا مان لیتی ہے ۔ امریکہ
میں رونالڈ ریگن ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں سے اس قدر مشہور ہوئے کہ صدر
منتخب ہوگئے۔ ان دورِ اقتدار میں مارپیٹ کرنے والے ریمبو کا بڑا چرچہ تھا ۔
لوگ ریمبو میں ریگن اور ریگن کے اندر ریمبو کو دیکھتے تھے۔ ایسا کرنے میں
دیکھنے والوں کے سوا سب کا فائدہ تھا۔ ہندوستان کے صوبے تمل ناڈو میں ایم
جی آر اور جئے للتا کو بھی اسی راستے سے وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا تھا
۔ آندھرا پردیش کے این ٹی راماراو کو کرشنا کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھتے
دیکھتے عوام نے کرشنا کا اوتار سمجھ کر ووٹ دے دیا۔ انہوں نے جوش میں آکر
تیلگو دیشم سے بھارت دیشم پارٹی بنا ڈالی لیکن وہ بھی آگے چل کر ان کے
ساتھ فلاپ ہوگئی ورنہ بعید نہیں کہ آندھرا کے نرسمھا راو کے بجائے وہ
وزیراعظم بن جاتے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو فلمی دنیا سے خاص لگاو ہے۔ دھرمیندر اور ہیمامالنی
کو ان لوگوں نے ایوان پارلیمان میں بھیجا۔ ونود کھنّا اور شتروگھن سنہا کو
بھی کمل کا آشیرواد حاصل رہا ۔ آج کل سمرتی ایرانی اور سنی دیول کا بول
بالا ہے ۔ رافیل بدعنوانی سےپریشان ہوکر مودی جی نے بھی اپنی آپ بیتی بنوا
کر اسے الیکشن کے موقع پر ریلیز کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس دھاندلی کو ان
کا پالتو الیکشن کمیشن بھی برداشت نہیں کرسکا ۔ الیکشن کمیشن نے نہ صرف فلم
بلکہ اس کے اشتہار کو بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دے کر روک لگا دی۔
یہ حسن ِ اتفاق ہے کہ انتخاب کے بعد ریلیز ہونے والی یہ فلم بری طرح پٹ گئی
کیونکہ اس میں نہ تو پلوامہ تھا اور اور نہ ائیر اسٹرائیک ۔ حقیقی ایکشن
ڈرامہ نے مودی جی کو الیکشن میں ہٹ کردیا۔ انتخابی نتائج کے بعد یہ شائقین
سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ فلم کو بھی کا میاب کریں گے لیکن جہاں آج کل
فلمیں پہلے پانچ دنوں میں ایک سو ۲۰ کروڈ کمالیتی ہیں یہ ۱۲ کروڈ سے آگے
نہیں بڑھ سکی ۔ اس طرح وویک اوبیرائے کے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن امیت
شاہ کے آگئے ۔ جہاں تک عوام کا سوال ہے ان کی زبان پر تو احمد علوی کا یہ
شعر مستقل سجا ہوا ہے کہ ؎
اچھے دن کب آئیں گے
کیا یوں ہی مرجائیں گے
علامہ اقبال کی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے
بادشاہت کو جلال سے تو جمہوریت کو تماشے سےتعبیرکیا ۔ ابھی حال میں امریکہ
کے شہر ہیوسٹن میں ’ہاوڈی موڈی‘ کے نام سے جو ڈرامہ کھیلا گیا اس کا نام
بھی ایک ٹیلیویژن سیریل سے مستعار تھا۔ امریکہ کے اندر ڈوڈی نام کا ایک
پہاڑ ہے۔ اس کے نام پر ۱۹۴۷ کے اندر معروف امریکی چینل این پی سی سےنشر
ہونے والے ایک مزاحیہ سیریل کا نام ’ہاوڈی ڈوڈی‘ تھا۔ اسی کے قافیہ پر
’ہاوڈی موڈی‘ کا عنوان تجویز کیا گیا لیکن فرق یہ تھا کہ ۷۲ سال پرانا ڈوڈی
اس عرصے میں بھیس بدل کر کٹھ پتلی سے انسان بن گیا۔ اس پر ڈارون کے معتقدین
کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اگر بندر انسان بن سکتا ہے تو مسخرہ کٹھ
پتلی کیوں نہیں بن سکتا؟
ہیوسٹن کے اندر ایک بجائے دو مسخرے تھے۔ ایک نے اپنے آپ کو دوسرے کا کٹھ
پتلی ثابت کرنے کے لیے عزت و وقار کو نیلام کرکے ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ کا
نعرہ لگا دیا اور دوسرے نے اپنے مدمقابل کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر
اسےبابائے قوم قرار دے دیا۔ گاندھی جی کی ۱۵۰ ویں سالگرہ پرکسی اور
کابابائے قوم قرار دیاجانا مہاتما کے ساتھ ساتھ قوم کی بھی توہین تھالیکن
پردھان سیوک نے اس کی اصلاح کرنے کے بجائے خوشی خوشی اس لقب کو اپنے ماتھے
پر سجا کرلیا ۔ اس سے آگے بڑھ کر بی جے پی رہنما راکیش سنہا نے انکشاف کیا
کہ اگر گاندھی جی زندہ ہوتے تو آر ایس ایس میں ہوتے۔ مدھیہ پردیش میں جہا
ں سےگاندھی کے قاتل گوڈسے کو سب سے بڑا دیش بھکت کہنے والی سادھوی پرگیہ کو
جمہور نے زبردست کامیابی سے نوازہ وہیں گاندھی جینتی کے دن نیمچ میں واقع
ان کے آشرم پر ڈاکہ پڑا۔ اس ڈاکو نے باقیاتِ گاندھی کو چرانے کے بعد ان کے
مجسمہ پر غدارِ وطن تحریر کرکے گویا اپنی شناخت چھوڑ دی ۔ وہ تو خیر چور
پکڑا نہیں گیا ورنہ سادھوی کو اس کی ضمانت دینے کے لیے جانا پڑتا۔ اسی لیے
شاید سادھوی کو قومی تحفظ کی مشاورتی کمیٹی میں شامل کیا گیا تاکہ سنگھ کے
بدمعاشوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے ۔ ویسے اپنے بابائے قوم کو اس طرح کا
خراج عقیدت دنیا کے کسی جمہوری نظام میں پیش نہیں کیا گیا ہوگا۔ جمہوری
نظام ِ سیاست کو اس منفر و ممتاز مقام پر فائز کرنے والی بھارتیہ جنتا
پارٹی اس معنیٰ میں مبارکباد کی مستحق ہے۔
مغرب چونکہ اس نظامِ فاسد کے چرکے محسوس کرچکا ہے اس لیے وہاں ۲۰۰۹ میں ’
جمہوریت کی موت و حیات ‘ کے نام سے جان کیین نے اس کی تاریخ لکھی۔ کیین
اعتراف کرتے ہیں کہ لوگ خود حکومت کرسکتے ہیں یہ آسان خیال نہیں تھا۔ یہ
ایک غیر معمولی سوچ تھی کہ لوگ اپنے متعلق فیصلوں کے لئے خصوصی طور پر تیار
کردہ اداروں کی ایجاد اور استعمال کرسکتے ہیں ۔ یہ آج کل بہت عام سی بات
معلوم ہوتی ہے ۔ اس طرز فکر کو بیان کرنے کے بعد کتاب اس نظریہ کو چیلنج
کرتی ہے کہ جمہوریت ہمارے سیاسی مقدر کے تعمیر و تحفظ کی ابدی تکمیل ہے۔
کیین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جمہوریت نہ تو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہی ہے اور
نہ رہے گی بلکہ یہ ایک ارتقاء پذیر (نظریہ) کمزور سیاسی تشکیل ہے۔ خاص طور
پر ایسے وقتوں میں جب اس کے معنی ، اس کی افادیت اور خواہش کے بارے میں
اختلاف کے آثار میں اضافہ ہورہاہے۔ اس شہرہ آفاق دستاویزی کتاب کے ۹سال
بعد بنجامن کارٹر ’جمہوریت کی موت ‘ نامی کتاب لکھ کر جرمنی میں ہٹلر کے
آگے اس کے سپر ڈال دینے کا جائزہ لیتا ہے جو یقیناً اس نظام کے تئیں بے
چینی کا اظہار ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ لیکن حیرت انگیز
طور پر مسلم ممالک اور دانشور اس پر ی جمال پر فریفتہ ہورہے ہیں جس کی بابت
علامہ اقبال نے کہا تھا؎
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
|