اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 19دسمبر 2019کو پاکستان کی
سپانسر شپ میں ایک قرار داد منظور کی ،جس میں مظلوم کشمیری عوام کے بھارتی
قبضے سے آزادی کے لئے حق خودارادیتکی جدوجہد کو ازسر نو جائز قرار دیا
گیا۔اتفاق رائے سے منظور کی جانے والی اس قرار داد، جس میں دنیا کے 81
ممالک نے تعاون کیا ، نے ان ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی غیر ملکی فوجی
مداخلت اور بیرونی ممالک اور علاقوں پر قبضے کے ساتھ ساتھ جبر، امتیازی
سلوک اور بدتمیزی کی کارروائیوں کو بھی فوری طور پر ختم کریں۔قرارداد کی
منظوری کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے اسے ایک
کامیابی قرار دیا۔حق خود ارادیت سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب اول
کا آرٹیکل 1 (2) عالمی ادارہ کے مقصد اور اصولوں کا اجمالی خاکہ پیش کرتا
ہے۔ اس میں ان الفاظ میں خود ارادیت کے حق کا مقصد بیان کیا گیا ہے ’’
مساوی حقوق اور لوگوں کے حق خودارادیت کے اصول پر، اور عالمی امن کو مستحکم
کرنے ،دوسرے مناسب اقدامات اٹھانے کے لئے ، احترام کی بنیاد پر اقوام کے
مابین دوستانہ تعلقات استوار کئے جائیں‘‘۔ اس بنیاد پر ہر کسی کو حق خود
ارادیت حاصل ہے۔ اس کے تحتلوگ اپنے سیاسی سٹیٹس کا آزادانہ تعین کرسکتے
ہیں، آزادی سے اپنی معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی پر توجہ دے سکتے ہیں۔بین
الاقوامی عدالت انصاف نے نامیبیا، مغربی سہارا، مشرقی تیمور سے متعلق اسی
اصول کو اپنایا۔ مگر کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے کے لئے بھارت
پر دباؤ نہ ڈالا جا سکا۔اس لئے پاک بھارت دو طرفہ بات چیت اور معاہدے ناکام
ہو جانے کے بعد پاکستان یو این چارٹر کے آرٹیکل 103پر توجہ دے۔
آج ایک بار پھر یوم حق خود ارادیت منایا جا رہا ہے۔نریندر مودی کی سرپرستی
میں بی جے پی بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کے ایجنڈے پر گامزنہے۔کشمیری
طلباء، ملازمین، کاروباری افراد کا ہی نہیں بلکہ اب شہریت قانون میں ترمیم
کی آڑ میں بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام کیا گیا ہے۔ 5جنوری 1949کواقوام
متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی ۔ جس میں جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر
نگرانی غیر جانبدارانہ اور شفاف رائے شماری کرانے کا کہا گیا۔ لیکن بھارت
کشمیر میں نام نہاد الیکشن کو ہی رائے شماری کے متبادل کے طور پر پیش کرتا
رہا ہے۔ 5جنوری 1949 کی قراداد اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان اور
بھارت نے منظور کی۔کمیشن امریکہ کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا ۔جس کے ارکان
میں ارجنٹائن،بیلجیئم،کولمبیا اورچیکو سلواکیہ شامل تھے۔کمیشن نے پاکستان
اور بھارت کی جانب سے کشمیر میں رائے شماری کرانے کے اصول اور طریقہ
کارتسلیم کرنے کے بعد ہی سلامتی کونسل میں قراردادپیش کی ۔قرارداد کے تحت
ریاست کے الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری
طریقے سے ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کمیشن کی رضامندی سے رائے
شماری ایڈمنسٹریٹر نامزد کریں گے۔ جو بین الاقوامی شہرت یافتہ اور قابل
اعتماد شخصیت ہو گی ، اسے رسمی طور پر جموں و کشمیر گورنمنٹ رائے شماری
ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تعینات کرے گی۔بھارت نے 23دسمبر 1948اور پاکستان
نے25دسمبر1948کو اقوام متحدہ کے کمیشن کو لکھے گئے اپنے مکاتیب میں رائے
شماری کے طریقہ کار کو تسلیم کیا۔بھارت اور پاکستان کی جانب سے تحریری طور
پر تسلیم شدہ اصول جن کی اقوام متحدہ نے توثیق کی، کا خلاصہ ذیل میں ہے۔
1۔ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کے سوال کا فیصلہ
آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے ہو گا۔2۔رائے
شماری،یو این کمیشن کے 13اگست1948کی قرارداد کے پہلے اور دوسرے حصہ کے تحت
انتظامات مکمل ہونے پر ہو گی۔ 3۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کمیشن کی
رضامندی سے رائے شماری کرانے کے لئے ایڈمنسٹریٹر نامزد کریں گے۔ 4۔ رائے
شماری ایڈمنسٹریٹر جموں و کشمیر کی حکومت سے وہ تمام اختیارات حاصل کریں گے
جو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے لئے موزون ہوں گے۔
5۔ رائے شماری ایڈمنسٹریٹر اپنے معاونین اور مبصرین کے تقرر کا اختیار ہو
گا۔ 6۔جموں و کشمیر سے تمام بیرونی عناصر کا انخلاء کیا جائے گا۔
7۔جموں وکشمیر کے مہاجرین کو واپس گھروں کو آنے کی آزادی ہو گی۔ 8۔تما م
قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ 9۔اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان و بھارت نے قراداد میں پاکستان اور
بھارت کے مابین جنگ بندی کرنے،جنگ بندی کی نگرانی کے لئے اقوام متحدہ کے
فوجی مبصرین کی تعیناتی اور مسلہ کشمیر کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے
کی بات کی ۔ 5جنوری 1949 کی قرارداد میں پاکستانی وزیر خارجہ ظفر اﷲ خان کے
اقوام متحدہ کو مکتوب کے بعد رائے شماری کو پاکستان اور بھارت سے الحاق تک
محدود کر دیا گیا۔جبکہ جموں و کشمیر کے عوام غیر محدود و غیر مشروط رائے
شماری کا مطالبہ کر رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ قوم پرست جماعتیں یوم حق خود
ارادیت کو احتجاجکے طور پر مناتی ہیں۔تا ہم 5جنوری 1949 کی قرارداد سے
کشمیریوں کی اکژیت اتفاق کرتی ہے۔ 13اگست1948کی قراررداد کی روشنی میں آج
بھی اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین جنگ بندی لائن پر دونوں ممالک کے سیز فائر
کی نگرانی کر رہے ہیں۔بھارت کی کوشش ہے کہ یہ فوجی مبصرین واپس چلے
جائیں۔بھارتی حکمرانوں نے اس سلسلے میں اسلام آباد کو بار ہا سبز باغ
دکھائے۔معاشی اور سیاسی رعایتیں دینے کا جھانسہ دیا،دوستی کی باتیں
کیں،وفود کے تبادلے کئے، بیک چینل ڈپلومیسی کا سہارا لیا، لیکن بات نہ بنی۔
بھارت چاہتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کے تعاون سے سلامتی کونس کے
زریعے فوجی مبصرین واپس چلے جائیں۔ وہ سرحدوں کو گرم کر رہا ہے۔ اس کا زور
اب جنگ بندی لائن، ورکنگ باؤنڈری پر ہے۔
عوام کا حق خودارادیت جدید بین الاقوامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے۔اس پر
ملک محمد اشرف نے زبردست تبصرہ کیا۔ خود ارادیت کا نظریہ قوم پرستی کے
نظریہ کی ایک ضمنی پیداوار کے طور پر تیار ہوا۔ اس نے فرانسیسی اور امریکی
انقلابات میں کردار ادا کیا۔ اتحادیوں نے پہلی جنگ عظیم میں امن کے مقصد کے
طور پر خود ارادیت کو قبول کیا۔ امریکی صدر ووڈرو ولسن نے اپنی چودہ نکات
میں امن کے لئے ضروری شرائط کے طور پر جنگ کے بعد کی دنیا کے لئے خود
ارادیت کو ایک اہم مقصد قرار دیا۔ پرانی آسٹریا ہنگری اور عثمانی سلطنتوں
اور روس کے سابق بالٹک علاقوں کو متعدد نئی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعدغلام اور محکوم لوگوں میں خودمختاری کا فروغ اقوام
متحدہ کے اہم اہداف میں شامل ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس کے پیشرو، لیگ آف نیشنس
نے بھی اس اصول کو تسلیم کیا۔اس مقصد کے پیش نظر، اقوام متحدہ نے دنیا بھر
میں، خاص طور پر فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کے تناظر میں کئیقراردادیں
منظور کیں۔ 1970 میں منظور کی گئی قرارداد 2649 نہ صرف محکوم لوگوں کے حق
خودارادیت کو تسلیم کرتی ہے بلکہ متعلقہ لوگوں کے حق خود ارادیت کے حصول کے
لئے کسی بھی طریقے کو اپنانے کا اعادہ کرتی ہے۔پاکستان 1981 سے اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی میں حق خودارادیت کے بارے میں قرار داد پیش کر رہا ہے جس کی
ہمیشہ حمایت کی جارہی ہے۔ اس سال بھی، اقوام متحدہ کی 193 رکنی کمیٹی نے
بغیر کسی ووٹ کے، 81 ممالک کے تعاون سے ایک پاکستانی قرار داد منظور کی۔جس
کا آغاز پر ذکر کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ در حقیقت
عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیری عوام کی حالت زار پر
لاتعلقی کا نتیجہ ہے، جوانڈیا کو اپنے حق خود ارادیت کے انکار کے ساتھقتل و
غارت کو جاری رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
مودی کی فاشسٹ سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کیا وہ عالمی برادری اور
اقوام متحدہ کے ضمیر کے منافی ہے۔ یہ درست ہے کہ کشمیر کے بارے میں بھارتی
مؤقف کی کوئی اخلاقی یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔ انڈیاکے قانون آزادی کے
مطابق، شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ آزادانہ
طور پر بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں یا آزاد رہیں۔ تاہم، ان کو
مشورہ دیا گیا تھا کہ فیصلہ کرتے وقت جغرافیائی قربت اور آبادیاتی حقائق کو
ملحوظ خاطر رکھیں۔ کشمیر کے معاملے میں، ان دونوں عناصر کی نفی کی گئی۔
بھارت میں شمولیت کے اپنے حکمرانوں کی ترغیب کے خلاف کشمیریوں کی بغاوت اور
اس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ مضبوط گواہی ہے کہ کشمیری
عوام کیا چاہتے تھے۔ کشمیر پاکستان سے ملحق تھا اور اس کی آبادی کی اکثریت
بھی مسلمان تھی۔ اس کے پاکستان کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی روابط تھے اورہری
سنگھ کے نام نہاد الحاق کرنے سے پہلے ہی یہ صدیوں تک مسلم حکمرانی میں رہا
تھا۔کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے یہ بتانا مناسب
ہے کہ کشمیر میں بھارتی لشکر کشی کے بعد دونوں ممالک کے مابین شروع ہونے
والی جنگ کے نتیجے میں، انڈیا نے ہی اس مسلہ کو اقوام متحدہ میں لیا۔ اقوام
متحدہ نے اس موضوع پر اپنے مباحثے کے دوران 23 قراردادیں منظور کیں، جن میں
13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی یونیسپ کی دو قراردادیں بھی شامل تھیں،
جن میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام کشمیر میں اریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ
بات بالکل واضح ہے کہ الحاق کے متنازعہ آلے اور تقسیم کی منصوبہ بندی کی
طرح، اقوام متحدہ کی قراردادوں نے بھی لوگوں کے حق خود ارادیت کے عمل کے
ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کو پوری طرح سے تسلیم کیا۔ مقبوضہ
کشمیر میں قتل و غارت گری کا تسلسل، وادی میں ایک مکمل لاک ڈاؤن نے کشمیری
عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں، اور پاکستان کے ساتھ مستقل طور پر
معاندانہ رویئے نے پورے خطے کی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں 91 اور 122 کے ذریعے بھیبھارتی موقف کی
تردید کی کہ مسئلہ کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعہحل کر
دیاگیا ہے۔ ان قراردادوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ الحاق کے سوال کو اس
موضوع کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں میں شامل حل کے بغیر کسی بھی
طرح سے حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر پربھارت کے
دعوے حقائق کے منافی ہیں اور ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پاکستان اور
بھارت دونوں ایک ساتھ 2013کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل ممبر
رہے ۔بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے سر گرم لابی میں مصروف ہے۔
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کو شکست ہو چکی ہے ۔جس کا ذمہ دار پاکستان
کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔دنیا افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار دے کر اسے اس
خطے کا چوکیدار بنا رہی ہے۔افغان فورسز اور پرائیویٹ ملیشیا کو بھارت تربیت
دے رہا ہے۔افغانوں کو ڈیورنڈ لائن توڑنے پر تیار کیا جا رہاہے۔ عمران خان
حکومت کرپشن کے خاتمے کے کھوکھلے نعروں اور نیب زدہ بن چکی ہے کہ معاشی
معاملاتمیں پھنس کر اس کی دنیا کے تیزی سے بدلتے سنگین حالات پر شاید بہت
کم توجہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کا تختہ الٹنے اور
اقتدار کے حصول کی زیادہ فکر ہے۔اس صورتحال میں کشمیر ی عوام کایوم حق خود
ارادیت منانا دلچسپ ہے۔الحاق پاکستان کے حامیوں کے لئے اس کو منانے کی
اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ بھارت اشتعال پر اتر آیا ہے۔ جنگ پر اکسا
رہا ہے۔پاکستان میں مشاورت یا کسی اجلاس کی کارروائی یا پارلیمنٹ میں بحث
یا منظوری یا پارلمینٹ کی کشمیر کمیٹی کی تشکیل نو کی کارروائی میں مسلہ
کشمیر پر بحث کی کسی کو فرصت نہیں۔ جبکہ اس پر بحث کی ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ
ہوا تو یہعمران خان حکومت کی مجبوریوں اور کمزوریوں کے ساتھ ساتھ حماقتوں
کو آشکار کرے گا۔ ماضی کی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو گمان تھا کہ ان کا وقت
ملک کے لئے سنجیدہ فیصلوں کا تقاضا نہیں کرتا ۔مگر انھوں نے کشمیر کو عالمی
تنازعہ کے خانے سے اٹھا کر پاک بھارت مسائل میں ڈال کر بڑی غفلت کی۔کشمیر
کو انٹرنیشنل مسلے سے بائی لیٹرل بنا دیا۔ جب کہ کشمیر اقوام متحدہ کے
ایجنڈے پر اب بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین اب بھی بھارت کی مخالفت
کے باوجودجموں وکشمیر کی جنگ بندی لائن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ 5جنوری کو
یوم حق خود ارادیت منانے کا بھی ایک یہی تقاضا ہے کہ یوم حق خود ارادیت کے
پس منظر اور پیش منظر کو سمجھتے ہوئے دنیا میں مدلل سفارتی کوششیں تیز کی
جائیں۔ پاکستان نے شملہ ، تاشقند معاہدوں اور اعلان لاہور کی ناکامی کے
باوجود ان سے دستبرداری کی طرف توجہ نہیں دی۔ جب کہ اس کی ضرورت ہے۔ ان دو
طرفہ معاہدوں کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر 103پر توجہ دی جائے جس
میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے مابین کوئی تنازعہ باہمی یا
بین الاقوامیمعاہدوں سے حل نہ ہو سکے تو پھر موجودہ چارٹر کے تحت مسلہ حل
کیا جائے گا۔ مسلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تمام دیگر دو طرفہ
یا بین لاقوامی معاہدوں پر فوقیت حاصل ہو گی۔ |