بھارت کے متنازعہ ترین اور مسلم کش قوانین جن میں قومی
شہریت قانون، قومی شہریت رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر شامل ہیں ، کے خلاف
زبردست عوامی مظاہروں کے دوراں جھارکھنڈ ریاست میں نریندر مودی کی بی جے پی
کو بدترین شکست نے بھاجپا کا زوال شروع کر دیا ہے۔جب کہ شہر شہر بڑے
مظاہروں کے دوران اب خواتین بھی سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔دہلی میں جامعہ نگر،
شاہین باغ اور دہلی کے مختلف علاقوں کی خواتینکا 18روز سے دھرنا جاری ہے،
جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہخواتین کے ساتھ مختلف یونیورسٹیوں
کی طالبات بھی شرکتکر رہی ہیں۔ دھرنا اور مظاہرہ میں شریک ہونے والے مقررین
نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) واپس لینے اور قومی شہری رجسٹر (این آر
سی) اور قومی آبادی رجسٹر (این آر پی) کا بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ
اس کا مقصدبھارت کو تقسیم کی جانب دھکیلنا ہے۔ گزشتہ روزجواہر لال نہرو
یونیورسٹی کے طلبہ سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے اس مظاہرہ میں شریک
ہوکر خواتین کا حوصلہ بڑھایا۔ زبردست سردی کے موسم میں مسلسل 18دنوں سے
سریتا وہار کالندی کنج روڈ پر دھرنا دینے والی خواتین کا کہنا ہے کہ مودی
حکومت نے مذہبی بنیاد پر قانون بناکر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس مظاہرہ میں سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر، حال ہی میں شہریت ترمیمی
قانون کے خلاف آئی جی کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے عبد الرحمٰن، ا داکار
ذیشان ایوب، بارکونسل کے ارکان، وکلاء، جے این یو کے پروفیسرز، سیاست دانوں
نے شرکت کی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اترپردیش
میں مظاہرین پرسفا کیتکے مظاہرہ نے مسلمانو ں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔اسی
دوران پارلیمانی انتخابات کے بعد جہاں کہیں بھی اسمبلی انتخابات ہوئے، وہاں
بی جے پی کو مایوسی ہی ہاتھ آئی ہے۔ ہریانہ میں جوڑ توڑ کی بدولت کھٹر
حکومت دو بارہ بن گئی لیکن وہاں بھی وہ پہلے کی طرح زعفرانی ایجنڈوں کو
پورا کرنے کی حالت میں نہیں ۔ مہاراشٹر میں اس کا برا حشر ہوا ۔ اب بی جے
پی کی کوشش ہے کہ وہ صرف اور صرف ہندوتوا ایجنڈوں یعنی فرقہ وارانہ شدت
پسندی کو فروغ دے کرمسلمانوں کو مشتعل کرے اور دیگر بنیادی مسائل سے ان کی
توجہ ہٹا کر اپنا سیاسی مفاد پورا کرے۔
راجھستان، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر ریاستوں میں شکست کے بعد
جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتائج نیبی جے پی کے ہوش اُڑا دیئے
ہیں۔فروری2020میں دہلی میں انتخابات ہوں گے۔ 2014سے بی جے پی جھارکھنڈ میں
بر سر اقتدار تھی۔ مذہبی جنون سے اس نے 2015سے 2018کے دوران درجنوں
مسلمانوں کو لنچنگ یعنی ہندو دہشتگردوں کے ہجوم کے زریعے سر عام شہید
کرایا۔جن میں تبریز انصاری، 12سالہ طالب علم امتیاز خان، مظلوم انصاری بھی
شامل ہیں۔ بھارت میں 2012سے گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں 133واقعات
رونما ہوئے جن میں 50مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ ان نتائج سے یہ ثابت ہو گیا
کہ اب ہندوتوا ایجنڈا رد ہو رہا ہے۔ جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات سے پہلے
شہریت ترمیمی بل کا شوشہ چھوڑا گیا اور درمیان ہی میں اسے ایکٹ کی شکل دے
دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی نریندر مودی اور امیت شاہ سے لے یوگی آدتیہ ناتھ تک
نے فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔مودی نے مسلمانوں کی پوشاک کی
طرف اشارہ کیا تو یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی نے اعلانیہ کہا کہ اگر عرفان
انصاری جیت گیا تو مندر کیسے بنے گا؟مگر عرفان انصاری35 ہزار سے زائد ووٹوں
سے انتخاب جیت گئے۔ فرقہ وارانہ تقریرکے باوجود الیکشن کمیشن خاموش تماشائی
بنا رہا۔لوک سبھاالیکشن میں بھی ایسا ہوا اور تب بھی کمیشن کی جانب سے کوئی
کارروائی نہیں کی گئی۔تمام تر سیاسی شطرنجی چالوں کے باوجود عوام نے بی جے
پی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور بی جے پی مخالف اتحاد کو کامیابی حاصل
ہوئی۔اب جھار کھنڈ میں جھار کھنڈ مکتی مورچہ، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل
کی حکومت بن گئی ہے۔ ریاست کے81سمبلی حلقوں میں28سیٹیں درج فہرست قبائل
یعنی آدیواسی کیلئے مخصوص ہیں اور ان میں سے26 سیٹیں جے ایم ایم کو ملی ہیں۔
اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بی جے پی حکومت سے آدیواسی بہت نالاں ہیں؟ بی
جے پی کو اس سے بری شکست اور کیا ملے گی کہ اس کے وزیر اعلیٰ رگھوبرداس خود
اپنی سیٹ بھی نہیں بچا پائے اور پارٹی کے ریاستی صدر چھٹے درجہ پر رہے۔ اس
انتخابات میں بھی وہ تمام سیاسی حربے استعمال کئے گئے تھے جو بی جے پی
اکثرکرتی رہی ہے۔ مثلاً81 سیٹوں پر پانچ مرحلوں میں انتخابات کے عمل کو
پورا کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ تاکہ وزیر عظم سے لے کر تمام مرکزی وزرا اور
آر ایس ایس کو اپنی پوری طاقت لگانے کا موقع مل جائے۔ مودی کے9 انتخابی
جلسے ہوئے جبکہ وزیرداخلہ امیت شاہ نے15ریلیاں کیں۔ مگر عوام نے اپنے فیصلے
سے یہ ثابت کر دیا کہ کاٹھ کی ہانڈی بار بار نہیں چڑھتی۔ عوام کو بہت دنوں
تک مذہبی جنون میں پاگل نہیں بنایا جا سکتا ۔ بھارتی غریب کی پیٹ کی آگ
بجھانے کیلئے بھاشن نہیں راشن چاہئے۔
جھار کھنڈ میں ہجومی تشدد کے واردات نے بھی وہاں عوام کو پریشان کر رکھا
تھا کیونکہ بی جے پی حکومت سے قبل اس طرح کا وہاں ماحول پیدا نہیں ہوا تھا۔
اس انتخابی نتیجے میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو بھی سبق لینے کا موقع
ملا کہ اگر وہ اپنے ووٹ کے انتشار کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں توبی جے پی
کو روکا جا سکتا ہے۔یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ اب مودی کا طلسم ختم ہو چکا
ہے اور سنگھ کی سازشوں کا زہر بھی ناکام ہوا ہے۔بھارت میں نئی نسل کو اپنا
مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ایک عرصے کے بعد اس ملک کانوجوان بیدار ہوا ہے
جس کی وجہ سے یہ پیغام عام ہورہا ہے کہ یہ بیداری ہندوتوا ایجنڈے کو ناکام
بنا دے گی۔ اس اسمبلی انتخابات میں قبائلی طبقے اور اقلیت مسلم طبقے کے
درمیان رشتے قائم ہوئے ہیں۔ تا ہم ہندو انتہا پسندمسلم دشمنی کی چنگاری کو
ہوا دینے کی لگاتار کوشش کر رہے ہیں۔ تا ہم مودی ازم کو مسلسل شکست ہو رہی
لہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں مودی ازم کا زوال شروع ہو چکا ہے جو
تیز ہو سکتا ہے۔ اگر مسلمان متحد رہے اور جہد مسلسل پر توجہ دی تو ان کے
عروج کو کوئی نہیں روک سکے گا۔
|