بی آر ٹی پشاور کی انکوائری کے بدلے فارن پوسٹنگ

اُردو میں ایک مشہور مثال ہے کہ کہاں رام رام کہاں ٹیں ٹیں یہ کہاوت آج کل ایف آئی اے پر مکمل طور پر صادق آتی ہے۔ جب سے پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت آئی ہے ہر پولیس آفیسر خود کو اِیماندار اوردَبنگ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔مگرجب حقیقی بہادری ظاہر کرنے کا موقع آجائے توفوراً وہاں سے راہِ فرار اِختیار کرتے ہیں۔پہلے تو مختلف صحافیوں سے فرمائش اور سفارش کرکے میڈیا میں اپنی بہادری کی خودساختہ خبریں چلائی جاتی ہیں۔مگر جب میڈیا اِن کے کھوکھلے دَعووں کو بے نقاب کرے تو پھر یہی میڈیا اُن کو اپنا دشمن نظر آتا ہے۔ یہی حال آج کل ایف آئی اے خیبر پختونخوا کے ایک اعلیٰ افسر کا ہے۔جب بھی ایف آئی اے میں کوئی اعلیٰ اِنکوائری یا کیس کی تفتیش شروع ہوتی ہے تو موصوف اپنے صحافی دوستوں کے ذریعے خبر چلواتے ہیں کہ انہوں نے اس بات کا سختی سے نوٹس لے لیا ہے اور تفتیش بغیر کسی سفارش یا دباؤ کے جاری ہے۔مگر جیسے ہی عدالت یا حکومت کی طرف سے کوئی دباؤ آجائے تو فوراً اس کیس یا اِنکوائری سے اعلان لاتعلقی کردیتے ہیں۔حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی پراجیکٹ میں مبینہ بے قاعدگیوں کی بابت ایف آئی اے کو حکم دیا کہ 45 دن کے اندر اپنی انکوائری مکمل کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ موصوف نے شہرت کا موقع ہاتھ سے نہ جاتے ہوئے میڈیا میں خبریں چلوادیں کہ انہوں نے تحقیقات کا آغاز کردیا اور تاثر یہ دیا گیا کہ جیسے موصوف بذات خود انکوائری فرما رہے ہیں مگر جیسے ہی اعلیٰ افسران کو احساس ہوا کہ کہیں کوئی مسئلہ نہ بن جائے تو انہوں نے فورا ًایک پرانی سمری کا سہارا لیکر موصوف کو بیرون ملک ایک انتہائی اہم اور پرُکشش عہدے پر تعینات کردیا۔ یہ بات جب میڈیا میں رپورٹ ہوئی تو موصوف نے فورا ًمیڈیا پر ہی جانبداری اور غلط رپورٹنگ کا الزام لگا دیا۔ خود اپنے صحافی دوستوں کوکالز اور میسجز کرکے اپنی اپنی خودساختہ کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔مگر جب ڈر پیدا ہوا کہیں عدالت عالیہ اس بات کا نوٹس لے کر اُن کی پوسٹنگ پر سوال نہ اُٹھا دے تو فوراً انہوں نے بی آر ٹی اِنکوائری سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔موصوف اب خود ہی پرانی تاریخوں میں لیٹر بنا بنا کر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا اِس انکوائری سے کوئی تعلق نہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لیٹر وہ اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔اُس میں انہوں نے خود ہی حکم جاری کیا ہے کہ مذکورہ انکوائری ان کی زیر سرپرستی کی جائے گی اور اس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ مذکورہ انکوائری ٹیم ان کی زیر سرپرستی کام کرے گی۔ ایک اور دعویٰ جو ان کی طرف سے آ رہا ہے کہ ان کی بیرون ملک پوسٹنگ دراصل بی آر ٹی انکوائری سے کئی ماہ پہلے کی ہے۔ اگر یہ بات سچ بھی ہے تو کیا جو اَفسر اتنی اہم انکوائری کی سرپرستی کر رہا ہے اس کو اچانک بیرون ملک تعینات کرنا جائز ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ بی آر ٹی انکوائری کی تکمیل کے بعد ان کو بھیجا جائے۔ کچھ روز قبل موصوف نے اپنی جان چھڑانے کیلئے اچانک ایف آئی اے کے ایک گھامڑ سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور چند خرانٹ تفتیشی اَفسروں کی ٹیم بی آر ٹی پراجیکٹ کے چمکنی اسٹیشن پر میڈیا کو دکھانے کے لئے بھیجی۔ اور میڈیا پر خبر چلائی کے اُنہوں نے جاکر وہاں تعمیری کام اور مشینری کا بغور معائنہ کیا۔ مگر میڈیا کو یہ بات نہیں بتائی گئی کہ اس تفتیشی ٹیم میں تمام کی قابلیت سوشل سائنسز میں ڈگری تک محدود ہے اورذرائع کے مطابق اس تفتیشی ٹیم میں نہ تو کوئی انجینئر ہے اور نہ ہی کوئی آرکی ٹیکٹ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی آر ٹی پراجیکٹ جیسی پیچیدہ ٹیکنیکل اِنکوائری کو موجودہ تفتیشی ٹیم کے ساتھ احسن طریقے سے اَنجام دینا ممکن ہوگا؟ ایڈیشنل ڈائریکٹر موصوف کو چا ہیئے کہ بجائے میڈیا میں اپنی کارکردگی کے متعلق خبر چلوانے کے اس انکوائری میں کوئی حقیقی پیشرفت دکھائیں نہ کہ اپنی بیرون ملک پوسٹنگ بچانے کے لئے میڈیا پر ہی الزام لگائیں۔
 

Dr. Aamir Hussain
About the Author: Dr. Aamir Hussain Read More Articles by Dr. Aamir Hussain: 3 Articles with 2227 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.