کسی بھی ملک میں جب ایک مجرم برسراقتدار آتا ہے ملک میں
کیسا ماحول ہوتا ہے اس کا اندازہ ملک میں اور خاص طور پر اترپردیش میں
حکومت اور پولیس کے ظالمانہ سلوک، بربریت، وحشیانہ درندگی اور انسانی حدوں
کو پار کرنے والے مظالم سے لگایا جاسکتا ہے۔مسلم خواتین کو قبر سے نکال کر
اجتماعی آبروریزی کرنے جیسے وحشیانہ اور انسانیت کو شرمسار کرنے والے بیان
دینے والے اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ (اجے بشٹ) نے پولیس کو
مسلمانو ں ظلم کا پہاڑ توٹنے کے لئے اکسایا اور بدلے کی کارروائی کرنے کی
ایک طرح سے حکم دیا۔ اس کا صاف پیغام تھا کہ جو بھی باہر نکلے اس کو جیل
بھیج دو، مظاہرین ہی نہیں گھروں میں رہنے والی خواتین اور مرد کو بھی تشدد
کا نشانہ بنایاگیا گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی، مسلم خواتین کے ساتھ نازیبا
سلوک کیاگیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ پر 22 سے زائد مجرمانہ اور تعزیری مقدمات (جس
میں قتل، اغوا، فساد، مذہبی جذبات بھڑکانے کے وغیرہ مقدمات شامل ہیں)ہیں
جسے انہوں نے خود واپس لیا ہے،سے کوئی بھی انسانیت والی اور آئین والی بات
کی توقع ان سے نہیں کی جاسکتی ہے ۔ اترپردیش میں ہندوستانی آئین کی حکمرانی
نہیں منوسمرتی کی حکمرانی ہے۔ کورٹ کچہری، عدالت، وکیل کی اب کسی کی ضرورت
نہیں ہے پولیس موقع پر انصاف کرتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا حکم ہی حرف آخر
ہے۔سماجی اور انسانی ادارے کے لب سلے ہوئے ہیں۔ لور کورٹ، ضلع کورٹ، ہائی
کورٹ اور یہاں تک کے سپریم کورٹ اس پر خاموش تماشائی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن
نامی ادارے کا کہیں اتہ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ اترپردیش میں مسلمانوں کے ساتھ
جو مظالم ڈھائے گئے ہیں ، اس کی نظیر کم ملتی ہے، اس طرح کے واقعات گجرات
فسادات ، 1984کے سکھ دنگے اور 2013میں مظفر نگر فسادات میں دیکھے گئے تھے۔
جو کام پہلے غنڈہ، چور، لٹیرا کیا کرتے تھے آج اترپردیش کی پولیس کر رہی
ہے۔ اسے نہ تو قانون کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی عدالت کا کوئی ڈر، نہ ہی
کوئی محکمہ جاتی کارروائی کا کوئی احساس۔ جب یوگی نے ہی حکم دے دیا ہے تو
پھر کس کا ڈر ہوگا۔ گزشتہ دو تین دہائی سے اترپردیش پولیس کا رویہ مسلمانوں
کے ساتھ تعصبانہ، مجرمانہ اور ظالمانہ رہا ہے کیوں کہ اب تک کسی معاملے میں
اس کو سزا نہیں دی گئی ہے ۔
پولیس نے اترپردیش میں مسلمانوں کے ساتھ کے کس قدر بربریت کا مظاہرہ کیا ہے
سابق آئی اے ایس افسر ، سماجی کارکن اور مصنف ہرش مندر نے اسے بیان کیا ہے۔
اترپردیش پولیس کی بربریت کی تفتیش کے بعد دی وائر کو دئے گئے ایک انٹرویو
میں انہوں نے بتایاکہ اترپردیش میں صرف مظفرنگر ہی نہیں بلکہ میرٹھ، اعظم
گڑھ، سنبھل اور دیگر جگہ حالات بہت خطرناک اور ڈراؤنا ہے۔ آدتیہ ناتھ حکومت
نے مسلم شہری کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ کھلی جنگ چھیڑ دی ہے۔ وہی حالات علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دیکھے، مظفرنگر میں دیکھے ہیں،میں چھ ضلع کا کلکٹر
رہ چکا ہوں ، 1984کے فسادات اور رتھ یاترا (اڈوانی کا خونی رتھ یاترا) بھی
دیکھے ہیں اور اسے ہینڈل کیا ہے کہ پولیس انتظامیہ کیسے کام کرتی ہے۔ پولیس
ان معاملوں میں فرقہ وارانہ خطوط پر کام کرتی ہے۔اقلیتوں کے خلاف پولیس دو
تین طریقوں سے کام کرتی ہے، ایک تو یہ کہ کارروائی نہیں کرتی،ایسا نہیں ہے
کہ اس کے پاس کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ وہ جان بوجھ کر
کارروائی نہیں کرتی۔یہ سکھوں کے خلاف بھی ہوا ہے اور مسلمانوں کے خلاف بھی
ہوا ہے۔مسٹر ہرش مندر نے بتایا کہ اترپردیش میں دیکھ کر آیاہوں اسے دیکھ کر
ایسا لگتا ہے کہ وہاں پولیس اسی طرح ایک(مظالم کا ) نیا باب رقم کر رہی ہے
۔ وہاں یہ ہوا ہے کہ پولیس ہی دنگائی بن گئی ہے اور اسے سمجھنا ضروری ہے۔
کئی گھروں میں گئے، دیکھ کر آنکھ بھر جاتی تھی، ایک طرح سیشرم کے جذبات
محسوس ہورہے (پولیس کی حوانیت، درندگی اور بربریت دیکھ کر)میں یہ دیکھا کہ
سب کچھ برباد کردیا گیا ہے۔ٹی وی ، فرج، برتن، بچوں کے کھلونے،بڑی مقدار
میں نقدی،کو لوٹ لیا۔ خاص کر ان جگہوں پر گئے (پولیس گئی)جہاں خوش حال لوگ
تھے، یا شادیاں ہونے والی تھیں، مسٹر ہرش مندر نے بتایا کہ جہاں بھی گئے
وہاں لاکھوں روپے کی بات ہوئی، منظر خوفناک ہے۔ بچوں ، عورتوں، برزگوں کے
زخم دیکھے، بچوں کو پکڑ کر لے جایا گیا۔ دنگائی جو کام کرتے ہیں پولیس نے
گھس کر کیا۔ ہر جگہ کے لوگ بتاتے ہیں کہ 40،50کی ٹولی میں پولیس والے گھروں
میں گھستے ہیں۔ اس میں کچھ بغیر وردی کے بھی ہوتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں
کو فرقہ وارانہ خطوط پر گالیاں دی، غیر انسانی اور فحش باتیں کہیں۔ ایساہی
گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیرمیں ہورہا یہ۔ وہی منظر اترپردیش میں دہرایا گیا
ہے۔ وہ کہتے تھے کہ تم کو آزادی چاہئے، لو ہم تم کو آزادی دیتے ہیں۔ دوسری
بات یہ کہتے تھے کہ اب یہ گھر ہمارا (ہندوؤں کا) ہوجائے گااب تم پاکستان
جاؤ گے ، آب وقت آگیا ہے تمہارے پاکستان جانے کا ، اب یہ گھر ہمیں ہی ملے
گا۔ مسٹر ہرشَ مندر نے کہاکہ یوپی پولیس کی نظر میں بٹوارہ کا کام (ملک کی
تقسیم کا کام) ادھورا رہ گیا ہے۔ اب تمہیں پاکستان جانا پڑے گا۔
سپریم کورٹ کے سابق جج اور دانشور جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اترپردیش حکومت کی
وحشیانہ کارروائی پر اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا ’’آئی پی سی کی دفعہ 147کے
تحت جو بھی شخص فسادبھڑکانے کا قصوروار ہوگا اسے جیل بھیجاجائے گا۔ قید میں
دو سال کی توسیع کی جاسکتی ہے ۔ اس دفعہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مجرم کو قید
جرمانہ یا دونوں کی سزا دی جاسکتی ہے۔ آئی پی سی میں کہیں بھی نہیں لکھا
گیا ہے کہ ملزم کی جائداد کو بغیر کسی مقدمہ یا سماعت کے ضبط کرلیا
جائے۔اسی طرح کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے مظاہرہ کے دوران
تشدد کی جانچ الہ آباد ہائی کورٹ کے موجودہ یا سبکدوش جج سے کرانے کا
مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جب کسی
وزیر اعلی نے ایسا بیان دیا کہ عوام سے بدلہ لیا جاے گا۔ علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی بربریت کے خلاف دنیا کی
1100یونیورسٹیوں نے دستخط کئے ہیں۔
یوپی پولیس کا قہر مظاہرین اور غیر مظاہرین پر کس قدر ٹوٹا ہے اس کا اندازہ
فوٹو گراف اور ویڈیو فوٹیج سے کیا جاسکتا ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے
لیکرتمام شہروں میں پولیس کو کار، بائیک ،دیگر گاڑیوں اور گھروں اور دکانوں
کو توڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ 19دسمبر کو پولیس منظم طور پر مسلمانوں پر
دہشت گردانہ حملہ کیا تھا اور حملہ کرکے 20سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا
تھا۔ مسلمانوں اترپردیش پولیس کا کس قدر خوف ہے وہ اپنی تکلیف تک نہیں بتا
پارہے ہیں۔ مظفر نگر پولیس نے ایک سعادت مدرسہ یتیم خانہ کے 66سالہ استاذ
مولانا اسد رضا حسینی سمیت اسی مدرسے کے 100سے زائدطلبہ کو حراست میں لے
لیا گیا جن میں بیشتر نابالغ تھے۔66سالہ استاذ مولانا اسد رضا حسینی پولیس
نے برہنہ کرکے جسمانی اور ذہنی اذیت دی گئی۔ ٹیلی گراف میں شائع رپورٹ کے
مطابق مولانا اسد رضا حسینی نے اپنے اور طلبہ پر پولیس کی بربریت کی داستان
سنائی ہے وہ اترپردیش پولیس کی فرقہ پرستی کو اجاگر کرتی ہے۔ مولانا کے
پیروں میں اتنے زخم ہیں وہ چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ اس قدر تکلیف اذیت سے
شرمندگی محسوس کر رہے تھے کہ انہوں نے اپنے رشتے داروں سے ملنے سے بھی منع
کردیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پویس کس قدر بربریت اور حیوانیت
کا مظاہرہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مدرسہ کے طلبہ کے ساتھ بھی پولیس کے
غلط حرکت کی ہے۔ بہت سے بچوں کے خون آرہے تھے۔ مظفر نگر اور میرٹھ میں خوف
کا یہ عالم ہے کہ متاثرین میڈیا سے بھی بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ پولیس نے
ان لوگوں کو دھمکی دی ہے اگر میڈیا کو کچھ بتایا کہ ان کے خلاف مظالم ڈھایا
جائے گا۔ پولیس نے مسلمانوں کی بہت ساری دکانوں کو بغیر کسی عدالتی
کارروائی کے سیل کردیا ہے۔ بہت سی جگہوں سے جرمانہ وصول کیا گیا ہے اور یہ
بھی کسی عدالتی کارروائی کے بغیر کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
اترپردیش پولیس عدالت سے ماورا ہوچکی ہے اور وہاں کی عدالت بھی کسی کام
نہیں رہی ہے اور ان سے کسی انصاف کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔ اب تک جتنے
واقعات ہوئے ہیں اگر خاطی ہندو ہے تو ان کو راحت دی ہے۔ انسپکٹر سبودھ کمار
کے قاتلوں کو ضمانت پر رہا کرنے والی عدالت سے توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔
پورے اترپردیش کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ منوسمرتی کے حساب سے کام
کیا جارہا ہے۔
اترپردیش کی راجدھانی جسے تہذیب کی راجدھانی بھی کہا جاتا ہے یوگی راج میں
بدتمیزوں، غنڈوں،مافیاؤں ،ظالموں ، آر ایس ایس کے غندوں اور پولیس بربریت
کا مرکز بن چکی ہے۔ وہاں جس طرح مظاہرین اور غیر مظاہرین پولیس نے قتل کیا
ہے یہ پورے ملک کے لئے باعث شرم ہے۔ پولیس کی حیوانیت صرف عام لوگوں پر ہی
نہیں جاری رہی بلکہ بزرگوں اور یہاں تک کے بزرگ آئی پی ایس افسر پر بھی
پولیس نے بربریت کا مظاہرہ کیا۔ مظاہرہ کے دوران ‘لکھنؤ میں گرفتاری اور
تشدد کی حقائق پر مبنی رپورٹ‘ کا اجرا بھی عمل آیا۔ دہلی یونیورسٹی کی
استاذ بھاونا بیدی اورسماجی کارکن آکرتی بھاٹیہ نے اترپردیش میں پولیس
مظالم تصویر کشی کرتے ہوئے کہاکہ پولیس مظاہرہ کرنے والوں اور نہ کرنے
والوں دونوں کو پکڑ کر تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہاکہ
سابق آئی پی ایس افیسر ایس آر داراپوری، سماجی کارکن صدف جعفر،ایڈووکیٹ
محمد شعیب ، سندیپ پانڈے اور دیگر لوگوں پر ڈھائی گئی حیوانیت بیان کرتے
ہوئے دعوی کیا کہ صدف جعفر کو مرد پولیس نے ٹارچرکیا اور اس قدر ٹارچر کیا
کہ خون بہنے لگا۔کئی زخمیوں کو سامنے سے گولی لگی ہے۔پولیس نے بچے، خواتین،
بوڑھے کسی کو بھی نہیں بخشا ، دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ٹارگیٹ
دیا گیا جسے پولیس نے ہر حال میں پورا کیا۔ صدف جعفر کے بار ے رپورٹ میں
کہا گیا ہے کہ پولیس نے اس کی زبردست پٹائی کی۔مرد پولیس نے پیٹ کے نیچے کے
حصہ پر اس قدر ڈنڈا مارا کہ وہاں سے خون جاری ہوگیا۔ ایس آر دراپوری اور
محمدشعیب پر پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعات 147, 148, 149, 152, 307, 323,
504, 506, 332,353, 188, 435, 436, 120 B, 427عوامی جائداد کو نقصان
پہچانے،1948 کی دفعات 4,3اور مجرمانہ قانون م 1932کو دفعہ سات لگائی گئی
ہے۔ یہ دونوں گھروں میں نظر بند تھے اور مطاہرہ میں شریک نہیں گئے تھے۔ اس
کے باوجود پولیس نے اسے گرفتار کرکے اذیت دی اور دو ہفتے کے بعد ضمانت پر
رہائی ملی ہے۔
اترپردیش پوری طرح ہندو راشٹرمیں تبدیل ہوچکا ہے جہاں کسی انسان کے لئے
کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں کا عدالتی نظام ٹھپ پڑچکا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن بے
حیثیت ہوچکا ہے۔ حق بولنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پولیس کی بربریت اور
حیوانیت کے خلاف وہاں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے اور جو بھی کچھ بولنے
کی کوشش کر رہا ہے وہ اسے جیل بھیجا جارہا ہے۔ کسی آئینی کی حقوقٖ کی کوئی
ضمانت نہیں ہے۔ کیوں کہ حکومت نے مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی ہے اور
وہ کھلم کہہ رہے ہیں بدلہ لیا جائے گا۔ گورکھپور دویگر جگہ کروڑوں روپے کا
نقصان پہنچانے والے مسلمانوں کو اس دوران کھربوں روپے کا نقصان پہنچا چکے
ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی تکلیف دنیا کو بتائیں،
اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن سے فریاد کریں۔ مرکزی اور
اترپردیش حکومت مسلمانوں کی کوئی بات سننے نہ سننے والی اور ان کے دکھوں کا
کوئی مداوا کرنے والی ہے۔ وہ دوبارہ حکومت اس لئے آئی ہے کہ انہوں نے
مسلمانوں پر ظلم کیا تھا۔ یوگی اور مودی ہندو ؤں کے ہیرو اس لئے ہیں انہوں
نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
|