مسلح افواج کے سربراؤں کے لیے سروس ایکسٹینشن بل
قانون کے مطابق ایوان زیرین اور ایوان بالا سے متفقہ طور پر منظور کر لیا
گیا۔ وزیر اعظم پاکستان کو تینوں فوجی سربراہوں کو سروس میں ایکسٹیشن دینے
میں صوابدیدی اختیارات حاصل ہو گئے۔ ان اختیارات کو کسی بھی عدالت میں
چلینج نہیں کیا جا سکے گا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام پختون ملی
خواہ پارٹی نے واک آوٹ کیا۔
تجزیہ کرنا ہے کہ پیپلز پارٹی ،نون لیگ اور جماعت اسلامی کا فوج سے کیا
رویہ رہا ہے۔اورجماعت اسلامی نے فوجی چیف کے سروس ایکسٹینشن کی ابلاغ اور
پھر پارلیمنٹ میں مخالفت کیوں کی؟پہلے سے چلا آرہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان
اپنی صواب دید پر صدر پاکستان کو سفارش کرتا ہے کہ حاضر سروس آرمی چیف کو
مذید تین سال ایکسٹینشن کی سفارش کرتا ہوں جسے منظور کیا جائے۔ پھر صدر کی
منظوری کے بعد آرمی چیف کو سروس میں تین سال کی ایکسٹینش مل جاتی ہے۔ اس
دفعہ عمران خان وزیراعظم پاکستان کے حکومت میں اس میں تنازہ کھڑا ہو
گیا۔پھر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ قانون میں اس کے لیے گنجائش نہیں اس
لیے اسے پارلیمنٹ سے چھ ماہ کے اندر قانون سازی سے منظور کیا جائے۔ ایک طرف
تو اس فیصلہ کے خلاف عمران خان حکومت نے ریویو کے لیے سپریم کورٹ میں
درخواست داہر کی اور دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے
اپوزیشن کو ساتھ ملا کر اس کے لیے قانون پاس کرایا۔جانے والے چیف جسٹس نے
بہتر سمجھا کہ جو استحقاق( صواب دید) پاکستان بننے کے بعد سے بغیر قانون کے
وزیر اعظم استعمال کر رہے تھے کیوں نہ اس کو قانونی شکل دے دی جائے۔
مشہور ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ تو فوج کے لگائے گملے کی پنیریاں ہیں
۔ دونوں کو فوج نے پالا۔ یہ بھی زد عام ہے کہ جب تک فوج نے چاہا انہیں
استعمال کیا۔ جب نہ چاہا اقتدار سے علیحدہ کر دیا۔پیپلز پارٹی کے سربراہ کو
ایک قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے فوج کے خلاف
الذوالفقار نامی ہشت گرد تنظیم بنائی۔
پاکستان مخالف ملکوں سے مل کر ملک دشمن کاروائیاں کی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ فوج
سے ساز باز کر کے حکومت میں بھی شامل ہوتی رہی ۔ جیسے بے نظیر صاحبہ
ڈکٹیٹرپرویزمشرف سے
دبئی میں خفیہ ملاقتیں کر کے اپنے خلاف مقدمے ختم کرائے اور خود ساختہ
جلاوطنی ختم کی تھی۔ پاکستان واپس آئیں ۔پھر معاہدے کرانے والے امریکا نے
معاہدے کی خلاف دردی پر بے نظیر صاحبہ کو پہلے کراچی اور پھر راولپنڈی میں
وار کر کے شہید کرا دیا ۔ ذوالفقار بھٹو صاحب فوج سے مفاہمت کے تحت دنیا کے
پہلے سول مارشل لاہیڈ منسٹریٹر بنے تھے۔ یعنی پیپلز پارٹی بظاہر تو فوج کی
مخالفت کرتی رہتی ہے مگر اندرون خانہ جب بھی موقعہ ملا فوج سے ساز باز کر
کے حکومت بناتی رہی ہے۔زداری پر الزام لگے کہ امریکا کو کہا کہ ہماری فوج
سے جان چھراؤ ہم ایٹمی پروگرام کو کو جام کر دیں ۔ امریکا کے ملک دشمن ایبٹ
آباد میں شیخ اسامہ کے خلاف آپریشن کا پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف
رضاجیلانی نے حمایت کی۔پیپلز پارٹی کے سفیر حسین حقانی نے فوج کے خلاف
امریکا کو اُکسایا۔ میمو گیٹ بھی زرداری کے دور میں واقعہ پذیر ہوا۔
نواز لیگ جسے جنرل جیلانی سیاست میں لائے تھے۔ سپریم کورٹ سے تاحیات سیاست
میں نا اہل قرار پانے والے اور کرپشن میں سزا یافتہ نوا ز شریف، علاج کے
لیے عدالتی اجازت سے حال مقیم لندن ،مارشل ایڈ منسٹیرٹر، جنرل ضیاء الحق کو
اپنا آئیڈیل قرار دیا کرتے تھے۔ جب اقتدار ہاتھ سے گیا تو فوج اور عدلیہ کے
خلاف شہروں شہر ریلیاں اور جلسے کر کے دونوں قومی اداروں کے خلاف بھر پور
مہم چلائی۔ ووٹ کو عزت سو۔ مجھے کیوں نکالا۔ میں نظریاتی ہوں ۔ملک کے سارے
وزیراعظموں کے سیاست نہیں کرنے دی گئی۔ فوج کی وجہ سے مجیب پیدا ہوا اور
ملک ٹوٹا۔نہ جانے کیا کیا باتیں کیں۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ
پاکستانی عوام کی مخالفت کے باوجوددوستی کی ۔ بھارت کے جارہانہ انداز کے
مقابلے میں معذرتخوانہ اندازاپنایا۔مودی اور اجیت دول کو بغیر ویزے اور
قانونی کاروائی کے اپنے گھر جاتی امرا، لاہور بلایا ۔مری میں بغیر ویزے اور
قانونی کاروائی کے پاکستان دشمن بھارت کے اسٹیل ٹائیکون کے ساتھ ملاقات
کی۔کور ااشو کشمیر کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے آلو پیا کی تجارت کی۔
جماعت اسلامی تو ایک نظریاتی، غیر مورثی، آزاد اور شورائی نظام کی پابند
جماعت ہے۔ جماعت اسلامی نے کشمیر کی آزادی،مشرقی پاکستان کے
بچانے،افغانستان میں روس کے خلاف اور دنیا میں کہیں بھی امت مسلمہ کے خلاف
دشمن نے جارحیت کی تو جماعت اسلامی نے سفارتی، اخلاقی اور عملی تعاون کیا۔
یہ بات پاکستان اور دنیا میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو
جماعت اسلامی کے مخالف طنزیا کہا کرتے ہیں کہ سارے جہاں کے غم جماعت اسلامی
نے پالے ہوئے ہے۔ اچھا جب جماعت کے اس عمل سے دفاحی اداروں کا لگاکھاتا تو
مخالف اس بات اعتراض کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی تو فوج کی بی ٹیم ہے۔جیسے
جہاد کشمیر اور مشرقی پاکستان میں پاکستان بچانے کے لیے جماعت نے فوج کا
ساتھ دیا۔ ا ب بھی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لیڈروں کو پھانسیوں پر
چڑھایا جا رہا ہے۔
پریس ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں زور شور سے دونوں بڑی پارٹیوں
پر اس بل کی حمایت میں شدید رد عمل ظاہر ہوا ہے۔کہا گیا کہ اب ددنوں
پارٹیوں نے پرانی تنخواہ پر کام کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔ جہاں تک جماعت
اسلامی کا مو ٔ قف ہے تو کیوں نہ عدلیہ طرز کا طریقہ اپنایا گیا کہ ایک
سربراہ کے ریٹائرمنٹ کے بعد آنے والا سینیئر اس کی جگہ لے لے۔ اس سے انصاف
کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اوراس طرح کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی۔ جماعت اسلامی
کے خود اپنے ادارے قانون کے مطابق آزادانہ کام کرتے ہیں۔ اس لیے جماعت
اسلامی کی پالیسی اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔وہ کسی اسٹبلشمنٹ کے دباؤمیں آئے
بغیر اپنی مرضی سے اپنا مؤقف پیش کرتی ہے۔جماعت اسلامی ادارے کو مضبوط کرنا
چاہتی ہے نہ کسی خاص فرد کو۔ اس لیے جماعت اسلامی نے اس بل کی مخالفت کی۔
|