ثانوی کردار اور ولن سے ہیرو تک کا سفر

فلم انڈسٹری کے نامور اداکار سلطان رہی کی برسی کے موقع پہ خصوصی تحریر

پاکستان فلم نگر کے معروف فلم سٹار سلطان راہی نے 1938 میں پڑوسی ملک بھارت کے صوبہ اترپردیش کے ضلع بجنورکے مظفر نگر میں آنکھ کھولی ان کا اصل نام سلطان محمد تھا بعد ازاں صدر راولپنڈی منتقل ہوگئے ہوش سنبھالا تو ’’ فلمیریا ‘‘ کے مریض بن گئے مرحوم نے 1956ء میں پاکستان فلم انڈسٹری میں قدم رکھا انہوں نے فلموں میں ایکسٹرا کے بے شمار رول کئے انتہائی ثانوی کرداروں میں جلوہ گر ہونے لگے کہا جاتا ہے کہ مرحوم نے انڈسٹری میں اپنا مقام بنانے کے لئے طویل عرصہ ’’دھکے کھائے‘‘ شوبز کے ابتدائی سالوں میں انہیں ان تھک محنت کرنا پڑی ،اسٹیج ڈراموں میں بھی کام کیاابتدائی سالوں میں قسمت کی دیوی ان پہ مہربان نہ ہوئی شروعات میں ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا 70 ء کی دہائی میں خود کو منوانے میں کامیاب ہوئے ان کی بیشمارفلمیں ایسی تھیں جن میں صرف مرحوم کو ہی علم تھا کہ فلم میں کہاں ان کا سین ہے شائقین فلم گاہ نہیں ہوپاتے تھے مثال کے طور پر اگر کسی فلم کی شوٹنگ سربازار میں ہو رہی ہے تو کیمرہ شوٹنگ دیکھنے والوں پر چلا گیا تو شوٹنگ دیکھنے والوں میں سلطان راہی بھی شامل تھے بالکل اسی طرح کے کردار مرحوم سلطان راہی نے ابتدائی سالوں میں بے شمار فلموں میں ادا کئے تھے تو وہ فلم بھی شمار ہو گئی یعنی انہوں نے ایسی فلموں میں بھی کام کیا مرحوم ابھی فلم نگر میں نئے نئے آئے تھے اس وقت کے ایک معروف فلم ساز کے پاس گئے اور ان سے فلم میں کوئی کریکٹرمانگا تو اس فلم ساز کا کورا جواب یہ تھاکہ ’’ یہ منہ(چہرہ) میری فلم میں کام نہیں کر سکتا‘‘ کہاوت ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگا کرتی ،وقت نے نئی کروٹ بدلی قسمت کی دیوی پوری طرح ان پہ مہربان ہو چکی تھی پاکستان فلم اندسٹری میں ’’آغا جی‘‘ کا ڈنکا بجنے لگا تو وہی فلم ساز سلطان راہی کے پاس آئے اور انہیں اپنی نئی فلم میں بطور ہیرو کام کرنے کی آفر کی تومرحوم نے موقع کی مناسبت سے پرانی انہی کی کہی ہوئی بات دہرائی ’’ یہ منہ(چہرہ) آپ کی فلم میں کام نہیں کر سکتا‘‘واضح رہے مرحوم نے مرتے دم تک اس فلم ساز کی کسی بھی فلم میں کوئی بھی رول نہیں کیا 1968ء میں ہدایت کار حیدر چوہدری نے اپنی فلم ’’بدلہ‘‘ میں پہلی بارانہیں ولن کے طور پہ متعارف کرایا یہ ایک نغماتی اور کامیاب فلم تھی1971ء میں نامور ہدایت کار اقبال کاشمیری کی ’’بابل‘‘ میں ایک بدمعاش کے روپ میں سامنے آئے بدمعاش کے اس کریکٹرنے سلطان راہی کے لئے فلم انڈسٹڑی میں نئی راہیں کھول دیں اس فلم کا ایک مشہور گیت جو آج بھی مقبول ہے گیت کے بول کچھ ہوں ہیں’’ میں کھولاں کہڑی کتاب نوں میں کہڑا سبق پڑھاں‘‘خوبصورت ہیروئن مرحومہ رانی پہ پکچرائز ہوا،انورا،ٹھاہ،خان چاچا،دھی رانی،جناب عالی،عشق دیوانہ،دو پتر اناراں دے ،دنیا مطلب دی یہ وہ فلمیں تھی جس میں ان کی فلم نگر میں شناخت ہوئی اور ان فلموں میں بطور ولن کام کیا کئی سالوں پہ محیط محنت اور قسمت رنگ لے آئی۔ 1972 ء میں’’بابل‘‘ کے بعدانہیں ہدایت کار اسلم ڈار کی فلم ’’بشیرا‘‘ میں کاسٹ کر لیا گیا یہ فلم اسی سال ریلیز ہوئی ’’بشیرا‘‘ نے پورے ملک میں دھوم مچاتے ہوئے ان کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے اور انہیں صف اول کے اداکاروں کی فہرست میں لا کھڑا کیا اس فلم کی کردارنگاری کو فلم بین آج بھی سراہتے ہیں اس فلم کا مشہور گیت تھا ’’ بنوں رانی بڑی دلگیر وے‘‘۔حمید چوہدری کی اردو فلم ’’زندگی کے میلے‘‘پہلی فلم تھی جس میں مرحوم نے بطور ہیرو کام کیا ’’جاسوس‘‘ ایک ایسی اردو فلم تھی جس میں ممتاز کے مقابل رومانٹک ہیرو کے روپ میں جلوہ گر ہوئے اس فلم میں مہدی حسن کی آواز میں گیت بھی ان پہ فلمائے گئے انہوں نے کئی اردو فلموں میں یادگار رول ادا کئے مگر ان کی جسمانی ساخت اردو فلموں والی نہ تھی ’’راستے کا پتھر ‘‘میں ان کا رول ینگ ٹو اولڈ تھا جو انہوں نے بڑی خوب صورتی سے نبھایا اس فلم کے ہیرو وحید مراد اور ہیروئن جان ریمبو کی ساس ،صاحبہ کی والدہ نشو تھیں ہدایت کار ایم اکر م کی ڈائمنڈ جوبلی فلم’’سلطان ‘‘ نے انہیں فلم نگر کا’’ سلطان ‘‘ بنا دیا 1975ء میں احمد ندیم قاسمی کے ناول ’’گنڈاسہ‘‘ پر بننے والی فلم ’’وحشی جٹ ‘‘میں راہی صاحب گنڈاسہ کے ساتھ پردہ سکرین پہ جلوہ گر ہوئے اور ایک تہلکہ مچ گیا اسی فلم کااگلا حصہ ہدایت کار یونس ملک نے 11فروی1979کو ’’ مولا جٹ‘‘بنا کر ریلیز کیاجو شاہکار بن گیا اس فلم نے شوبز انڈسٹری میں ایک انقلاب برپا کر دیا اس فلم نے کامیابی کے تمام ریکارتوڑ دیئے اس فلم میں راہی صاحب نے ٹائٹل رول ادا کیا ’’مولا جٹ ‘‘ میں ان کا ایک ڈائیلاگ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مر سکدا ‘‘آج بھی ان کے پرستاروں کو یاد ہے جبکہ ’’نوری نت‘‘ کا کردار مصطفی قریشی نے ادا کیا وہ بھی امر ہوگیا ’’نواں آئیاں ایں سوہنیا‘‘نوری نت کا ایک مقبول ڈائیلاگ تھا جو زبان زدعام ہوا ،جو بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے بھی لکھا دیکھا گیاان دونوں فنکاروں کی جوڑی نے بے شمار کامیاب اور شاہکار فلمیں دیں پھر ایک وقت ایسا بھی آیاکہ ان دونوں کی جوڑی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگی1976میں انہوں نے ایک فلم ’’تقدیر کہاں لے آئی ‘‘بطور فلم ساز بنائی جو شائقین فلم میں پذیرائی حاصل نہ کر سکی سلطان راہی نے اپنے چالیس سالہ فلمی کیریئر میں 800سے زائد فلموں میں کام کیا500فلموں میں ہیرو آئے کم و بیش 100 میں بطور ولن آئے 100 اردو فلمیں جبکہ دیگر پنجابی فلمیں تھیں زاہد عکاسی نے ان پہ ایک کتاب’’سلطان راہی پاکستانی فلموں کا سلطان ‘‘ کے ٹائٹل سے لکھی انہیں اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان کو ڈیڑھ سو سے زائد فلمی ایوارڈ ملے چار دہائیوں تک مسلسل پردہ سکرین پر راج کرتے رہے ان کے بیٹے حیدر سلطان بھی فلم نگر میں آئے لیکن وہ پذیرائی نہ مل سکی جو مرحوم کے حصہ میں آئی۔

چوبیس سال قبل 9 جنوری 1996ء کا سورج پاکستان فلم انڈسٹری اور اس سے وابستہ افراد کے لئے ایک نہایت بری خبر لئے طلوع ہوا اس روز اس وقت کے مصروف ترین فلمی اداکارسلطان راہی کو گوجرانوالہ سے لاہور واپس تے ہوئے قتل کر دیا گیا پردہ سکرین پہ راج کرنے اور پلک جھپتے ہی سینکڑوں لوگوں کو گولیوں سے موت کی نیند سلانے والا خودنامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گیا متقی وپرہیزگارپر امن ،پیار کرنے والا،ہمدرد،محبتیں بانٹنے والا اور ملنسار انسان ظلم و بربریت کا نشانہ بن گیا بڑی سکرین پہ ظالموں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونا،مظلوم کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر ظالموں کے لئے عبرت کا نشان بننے والا اور دیکھتے ہی دیکھتے بدمعاشوں کے خون سے ندیاں بہا دینے والا خود کو ایک ہی گولی سے ڈھیر ہوگیا سرراہ موت و حیات کی کشمش میں بے یارومددگارپڑا رہا ، کوئی اس کی مدد کو نہ پہنچ سکااور بے بسی کی موت مارا گیا وہ جو ایک بڑھک لگا کر دشمنوں کو بھگا دیتا تھا مرتے وقت سرگوشی تک نہ کر سکاحتی کہ اپنے ہمسفر کو بھی آواز نہ دے سکااور چپکے سے نیند کی وادیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گیا 9جنوری 1996ء کو چار دھائیوں تک پردہ سکرین پر حکمرانی کرنے والافن کا سلطان ،سلطان راہی اپنے چاہنے والوں کو اکیلا چھوڑ گیا ، قتل کے وقت مرحوم کی عمر 58 سال تھی کہا جاتا ہے کہ ان کی اچانک موت سے پاکستان فلم اندسٹری کو تقریبا مجموعی طور پر ایک ارب روپے کا نقصان جھیلنا پڑا،انتقال کے وقت مرحوم کی تقریبا 54 فلمیں زیر تکمیل تھیں۔

یوں توان کی بے شمار فلمیں سپرہٹ ہوئیں جگہ کی تنگی کے باعث یہاں چند فلموں کا ذکرکریں گے ان کی مشہور فلموں میں دل اور دنیا ،خان چاچا،میں سلطان ،بشیرا،بنارسی ٹھگ، زرق خان،دل لگی، الٹی میٹم،راستے کا پتھر،دادا،سدھا رستہ، وحشی جٹ،شریف بدمعاش،طوفان، جگا گجر ،لاہوری بادشاہ، قانون ،جیرا سائیں، مولاجٹ،رنگا ڈاکو،جٹ سورما، وحشی گجر،گوگا شی، بہرام ڈاکو،بائیکاٹ،ہٹلر ،انوکھا داج،شیر میدان دا،ملے گا ظلم دا بدلہ،جی دار،جٹ ان لندن، شیر خان ،ظلم دا بدلہ،اتھراپتر وریام ،چن وریام ، سالا صاحب ،دو بگھا زمین، رستم،راکا،لاوارث،دارا بلوچ، رستم خان ،مراد خان ،شان ،بگھی شیر،کالیا ،شعلے، قاتل حسینہ،جابر خان،قسمت۔ عجب خان ،جگا، قیدی ،اﷲ رکھا ،قیمت، دلاری ،ناچے ناگن،مولابخش،بادل ،مفرور، روٹی ،حکومت،حسینہ 420 کالکا،بلاول،سلطانہ،ڈکیٹ،رنگیلے جاسوس،مجرم ،خدا بخش، کالے چور،شیر دل، چراغ بالی،بدمعاش ٹھگ،قاتل قیدی، ماجھو، بالاپیرے دا،سخی بادشاہ سمیت دیگر فلمیں شامل ہیں جن میں ان کی کردار نگاری انمٹ نقوش چھوڑ گئی سلطان راہی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان کی ایک ہی دن 12 اگست 1981کو پانچ فلمیں ،شیر خان ،ظلم دا بدلہ،اتھراپتر،چن وریام اور سالا صاحب ریلیز ہوئی تھیں،جنہوں نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کر دئیے۔ یوں تو سلطان راہی نے آسیہ،انجمن ،نجمہ ،ممتاز،شبنم ،نیلی،گوری ،صائمہ،بابرہ شریف، اور عالیہ کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا مگرشائقین فلم نے سب سے زیادہ ان کے ساتھ آسیہ کو پسند کیا ’’مولا جٹ ‘‘ میں ’’مکھو جٹی ‘‘ کا رول بھی آسیہ ہی نے ادا کیا تھا انجمن گوری اور صائمہ کو بھی ان کے ساتھ خوب سراہا گیامرحوم صوم و صلوۃکے بہت پابند پکے اور سچے مسلمان تھے ایک مختصر واقعہ پیش کرنے لگا ہوں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راہی صاحب پردہ سکریں اور عام زندگی میں کتنے مختلف تھے ایک مرتبہ سردیوں میں ایک فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لئے پہاڑی علاقے میں گئے ہوئے تھے فلم کی شوٹنگ کے بعد فلم سٹار محمد علی کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سوئے ہوئے تھے رات کے پچھلے پہر محمد علی کی آنکھ کھلی تو انہیں کمرے میں نہ پایا اور فکرلاحق ہوئی اتنی سردی میں کہاں چلے گئے باہر تلاش کرنے کے لئے نکلے تو بہت حیران ہوئے راہی صاحب دنیا سے غافل رب کائنات کے آگے سجدہ ریز تھے مرحوم نے ایک مسجد اپنے گھر میں اورایک مسجد ایور نیو اسٹوڈیو میں بنوائی تھی انہوں نے کئی بار حج کی سعادت بھی حاصل کیاور انہیں اس بات کی بھی سعادت حاصل ہے کہ انہوں نے ایسے افراد جوحج کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے انہیں بھی اپنے خرچے پہ حج کرایا،ایسے غیر معروف اور معروف فنکارو ہنر مند جن کی زندگی میں مفلسی تھی اور گذربسر انتہائی مشکل تھی ان کے شب روز کے لئے ہر ماہ باقاعدہ خرچہ باندھ رکھا تھا ایک خدا ترس ،نیک ،درویش صفت انسان تھے خدائے بزرگ وبرترنے ان کے دل میں غریبوں کے لئے ہمدردی اورنرم گوشہ پیدا کر رکھا تھافلم سے وابستہ افراد ان کی برسی پہ قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں اﷲ رب العزت مرحوم کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلی مقام دے آمین ثم آمین بظاہر تو راہی صاحب آنکھوں سے اوجل ہیں لیکن ان کا فن زندہ و سلامت ہے۔پاکستان فلم انڈسٹری میں جب جب فلم سے وابستہ لوگوں کا ذکر ہوگا تب فن کے سلطان ۔۔۔ سلطان راہی کا تذکرہ کئے بغیر رہنا ناممکن ہوگا

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 469721 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.